ہر شخص کا ماضی اسے ہمیشہ یاد رہتا ہے اور اچھا بھی لگتا ہے۔حال جب ماضی بنتا ہے تو نہ جانے کیوںاس کی کشش بڑھ جاتی ہے بھلے ماضی تلخ ہی کیوں نہ ہو ۔اُن دنوں بے شک آج سی آسودگی اہل قلم کو میسر نہ تھی۔ایک ٹیلی ویژن ایک دو اخبارات کے ادبی ایڈیشن مگر اُن میں شائع ہونیوالی ادبی ڈائری میں اپنا نام دیکھ کر خوشی ہوتی تھی۔موبائلوں کا دور نہیں تھا۔ٹی ہاؤس ادیبوں کا واحد ”افورڈایبل“ گوشہ عافیت تھا۔9 بجے کے بعد ٹی ہاؤس کی ایک ٹیوب لائٹ آف کر دی جاتی جو اشارہ ہوتا تھا کہ اب پاک ٹی ہاؤس بند ہونے والا ہے، یار لوگ دھیرے دھیرے دروازے سے باہر ”سرک“ جاتے، وہاں بھی آدھ پون گھنٹہ کھڑے کھڑے گزر جاتا۔مگر باتیں ختم ہونے میں نہ آتی تھیں پھرکچھ لوگ گھروں کی راہ لیتے، بعض گپیں اور قہقہے لگاتے، پرانی انارکلی کو چل دیئے۔”کیپری“ جیسا ائرکنڈیشنڈریستوران (ٹولنٹن مارکیٹ) چوک انارکلی کے کونے پر ہوتا تھا۔چند پروفیسرز نما ادیب شاعر یا اپنے ساتھ ”سامی“ رکھنے والے وہاں بیٹھ کر چائے پیتے۔بیشتر پرانی انارکلی کی کرسیاں توڑتے اور رات گئے نشستیں رہتیں۔ ہلکی پھلکی رنجشیں اور دھڑے بندیاں بھی تھیں مگر وہ برداشت کا زمانہ تھا۔سیکیورٹی کے مسائل بھی نہ تھے،شہر رات بھر جاگتا تھا۔
پاک ٹی ہاؤس پرانی انارکلی تو ہر شام آباد ہوتے تھے۔علاوہ ازیں دن کے اوقات میں اور پھر شام کو شیزان میں بیٹھنے والے بھی تھے۔شیزان کی ادبی تقریبات کی اپنی تاریخ ہے ،یہاں کئی یادگار ادبی تقریبات منعقد ہوئیں۔اب تو اس کا نشان ہی نہیں ہے۔
یہ وہ زمانہ ہے جب لاہور میں اہل ِعلم و فن کی ایک کہکشاں آباد تھی اور ادبی فضا شباب پر تھی ۔صرف پاک ٹی ہاؤس میں باقاعدہ اور بے قاعدہ دکھائی دینے والوں میں انتظار حسین، سہیل احمد خان، مظفر علی سید، جاوید شاہین، کرنل اکرام اللہ ،زاہد ڈار، شہرت بخاری، یونس ادیب، سلیم شاہد، یونس جاوید ، سیف زلفی، اسرار زیدی، خواجہ محمد زکریا اور کبھی کبھی یا پھر حلقہ ارباب ذوق کے ہفتہ وار اجلاسوں میں شریک ہونے والوں میں ہم نے جنہیں اکثر وبیشتر دیکھا ، اُن میں ظہیر کاشمیری، عارف عبدالمتین، اشفاق احمد، سیف الدین سیف ،اظہر جاوید، منیر نیازی، قتیل شفائی، مظفر وارثی، جیلانی کامران، آغا سہیل، صلاح الدین محمود، شہزاد احمد، اعزاز احمد آذر، ڈاکٹر سلیم اختر ، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر انور سدید، مشکور حسین یاد، مستنصر حسین تارڑ، عطاءالحق قاسمی، امجد اسلام امجد، ڈاکٹر خورشید رضوی، سرفراز سید، جاوید شاہین،سعادت سعید، حسن رضوی اور کئی دوسرے احباب شامل تھے۔حلقہ ارباب ذوق کے علاوہ پاک ٹی ہاؤس میں مختلف ادبی تنظیموں کی تقریبات بھی ہوا کرتی تھیں ۔چائنز لنچ ہوم میں حلقہ ارباب ذوق (مرکز) کے اجلاس ہوتے تھے جس کے روح رواں مبارک احمد ہوتے تھے۔جو اپنی سائیکل ٹی ہاؤس کی ریلنگ کے ساتھ باندھ کر چائینز پہنچ جاتے ۔اسی مقام پر حلقہ ادب کے ہفتہ وار اجلاس بھی منعقد ہوتے، خاص طور پر بیسمنٹ میں حلقہ ادب اور کچھ اور ادبی تنظیموں کی تقریبات منعقد ہوتیں ،حلقہ ادب کے سر کردہ لکھاریوں میں حفیظ احسن، تحسین فراقی، جعفر بلوچ شامل تھے۔ہم نے لاہور میں اپنا پہلاادبی اجلاس اسی چائنیز لنچ ہوم میںاٹینڈ کیا ۔میرے ساتھ اطہر ناسک اور شاید طفیل ابن گل اوررضی الدین رضی بھی تھے،عطائالحق قاسمی نئے نئے امریکہ سے واپس آئے تھے۔ان کے اعزاز میں حلقہ ادب کی نشست تھی ۔ یہاں انہوں اپنے سفرکی روداد زبانی بھی سنائی تھی ، میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے ان کے لئے ایک نظم لکھ کر پیش کی تھی۔
پنجابی ادبی سنگت اور حلقہ تصنیف ادب کے اجلاس بھی یہاں منعقد ہوتے رہے تاوقیتکہ چائنیز لنچ ہوم بند ہو گیا۔ کچھ دوست سنی ریسٹورنٹ چلے گئے۔پنجابی ادبی سنگت میں ان دنوں پرویز ہاشمی مشتاق کنول، اکرم شیخ، قائم نقوی، سائیں اختر، عاشق راحیل، یونس احقر،سلیم کاشر منظور وزیر آبادی، رؤف شیخ جیسے شعراءباقاعدہ شریک ہوتے تھے۔
بعض ادیب شاعر ایسے بھی ہوتے ہیں جو ادبی حلقوں میں اکثر دکھائی دیتے ہیں مگر ان کا تذکرہ کہیں نہیں ہوتا۔ان میں سے کئی صاحبان کتب بھی ہوئے مگر اس مسکین قسم کی مخلوق کو مرنے کے بعد کوئی یاد نہیں کرتا۔آج انہی دوچار ہستیوں کو یاد کرنا مقصود تھا مگر تمہید لمبی ہو گئی۔حلقہ ارباب ذوق کے الیکشن میں ایک ادھیڑ عمر شاعر ایاز عیسٰی خیلوی ہمیشہ بہت سرگرم رہتے تھے۔وہ ہر الیکشن میں مقابلہ کرتے مگر زندگی میں کبھی منتخب نہ ہو سکے۔اگر انہیں بھی ایک بار چانس مل جاتا تو دیکھتے کہ وہ حلقہ ارباب ذوق کو کیسے چلاتے ہیں مگر وہ شریف آدمی تھے، یہی نہیں سفید پوش بھی تھے اور حلقہ ارباب ذوق یا ادب میں پی آر اسی کی بنتی ہے جس کی جیب میں دس پندرہ لوگوں کو چائے پلانے کے پیسے ہوں۔ٹی ہاؤس میں ہم ایسے بے روزگار یا فری لانسر قسم کے نوجوان بھی تھے جو ایک بار ”ہاف سیٹ “ چائے منگا کر رات گئے تک بیٹھے رہتے ۔بزرگ ناول نگار خان فضل الرحمن خان تو صرف حلقے کے اجلاس میں شریک ہوتے اجلاس شروع ہوتا تو ایک دو افتتاحی تنفیدی جملے ادا کرکے خاموش ہو جاتے۔کبھی ٹی ہاؤس میں بیٹھے بیٹھے نماز مغرب بھی ادا کر لیتے تھے۔ایک خاتون انہیں یہاں چھوڑ جاتیں اور نو بجے کے قریب انہیں واپس لے جاتیں۔ لباس کی طرف سے عموماً بے نیاز تھے، میلے کچیلے ” مڑتے تڑتے “ پینٹ شرٹ ،نکٹائی اور ہیٹ کے ساتھ شریف لاتے۔کمزور ہونے کے سبب زیادہ ایکٹو نہیں تھے بس وہ اجلاس میں باقاعدگی سے شریک ہوتے۔تنقید میں وہ کسی فن پارے پر دو ٹوک انداز میں ایک جملہ ہی کہتے ”صاحب صدر! یہ افسانہ بالکل بکواس ہے، مصنف نے وقت ضائع کیا ہے“۔
حلقہ تصنیف ادب خالصتاً ان نوجوان ادیبوں کا حلقہ تھا جنہیں ابھی حلقہ ارباب ذوق میں زیادہ لفٹ نہیں کرائی جاتی تھی۔ایسے نوجوانوں نے اپنا الگ ادبی پلیٹ فارم بنا رکھا تھا۔اس کے کرتا دھرتا غضنفر علی ندیم تھے۔جنہیں یار لوگ بابائے ترائلے کے نام سے یاد کرتے۔یہاں اسماعیل عاطف، آفتاب حسین، زاہدہما، ضیاءالحسن، عمران نقوی، امجد طفیل،اطہر ناسک، ایوب ندیم، جواز جعفری، زاہد حسن، شفیق کامریڈ ناصر بشیر ،سلمان صدیق، فرحت شاہ ،علی نواز شاہ اور کبھی کبھی لطیف ساحل ،افتخارمجاز، عباس نجمی ،زاہد مسعود ، عباس تابش ،اقبال راہی ،اقبال دیوانہ ،آغا نثارباقی احمد پوری،حسن کاظمی سعداللہ شاہ، منصور آفاق ، افضل عاجز ، احمد لطیف ،تاثیر نقوی کے علاوہ کئی یونیورسٹی کے نوجوان طلبا بھی نظر آتے۔ان اجلاسوں میں کئی سینئر شاعر ادیب بھی شریک ہوتے تھے۔
غضنفر علی ندیم کی شاید ہی کوئی کتاب شائع ہوئی ہو وہ ترائیلے کا مجموعہ لانے کی خواہش رکھتے تھے اور کئی بار میں نے انہیں شام نگر میں اس وقت کے متحرک ادیب شاعر پبلشر اور صحافی اظہر غوری کے ہاں آتے جاتے دیکھا۔اسی طرح بزرگ شاعر نثار اکبر آبادی تو پاک ٹی ہاؤس میں باقاعدہ آنے والوں میں شمار ہوتے تھے، ان کے دو یا تین شعری مجموعے شائع ہوئے۔”صدائیں“ ان کا ایک شعری مجموعہ ان دنوں شائع ہوا تو مجھے بھی انہوں نے اسکا ایک نسخہ گفٹ کیا۔ہر تنقیدی اجلاس میں کھل کر گفتگو کرتے تھے، بلند آھنگ تھے۔آخری عمر میں بھی حلقے میں دکھائی دیتے رہے، ان کی بیماری اور سرکاری علاج کے لئے ہم نے آواز اٹھائی بجنگ آمد میں ان کا انٹرویو اور خبریں شائع کرتے رہے۔بہت ہی ”بی بے“ شخص تھے۔حلقے میں تنقیدی گفتگو میں یدطولیٰ رکھنے والوں میں ایک نام یونس علی دلشاد کا بھی تھا۔کسی پرائیویٹ کالج میں پڑھاتے تھے۔پاک ٹی ہاؤس میں باقاعدہ آتے ہفتہ اور اجلاس کی کارروائی غور سے سنتے تھے اور سابقہ اجلاس میں اپنے کہے گئے تاثرات کو درست کراتے اور تنقید کے لئے پیش کی جانیوالی غزل نظم یا افسانے پر دس سے پندرہ منٹ ضرور بولتے تھے۔جس کا جواب عموماََ انہی کی طرح باقاعدہ شریک جلسہ ہونے والے رشید مصباح دیا کرتے تھے۔ان اجلاسوںکی دبنگ صدارت کرنے والوں میں ظہیر کاشمیری اور قتیل شفائی کا نام آتا ہے۔خالد احمد بھی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کارروائی ایک اچھے اینکر کی طرح چلاتے۔آہ لاہوربڑی شخصیات سے خالی ہو چکا ہے۔
(باقی پھر کبھی۔۔۔)
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ