ایک زمانے میں پاک ٹی ہاؤس ” شہر لاہور “ کے دل کی دھڑکن ہوا کرتا تھا۔ شہر کی ادبی اور ثقافتی علامت اِس ” گوشہ عافیت “ میں دُنیائے اَدب کے نامور اہل قلم ، فنکار ، صحافی اور دانشور دکھائی دیتے تھے۔ کوئی بیس برس قبل تک بھی اس کی رونقیں دیدنی تھیں مگر اب تو خود پنجاب کے دل کا بُرا حال ہے ۔ یہ دل ( لاہور) علیل ہے ۔ مال روڈ ہی نہیں شہر کی کوئی سڑک بھی پہچانی نہیں جاتی۔ کچھ تو ٹریفک کے اژدھام نے اور کچھ میٹروٹرین کی کھدائی نے سڑکوں کو تباہ و برباد کیا اب تک بھی یہ سڑکیں مکمل طور پر بحال نہیں ہوئیں۔ کیا زمانہ تھا شہر میں کاریں موٹریں اور موٹرسائیکل بہت کم تھے۔ سائیکلیں زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ لوگ زیادہ تر پیدل دکھائی دیتے ہاں شہر میں ہر سڑک اور روٹ پر اومنی بسوں کا راج تھا۔ جب سے گورنمنٹ ٹرانسپورٹ ( جی ٹی بسیں) ختم ہوئیں۔ شہر میں ویگنوں کی یلغار میں اضافہ ہو گیا یہ ویگنیں شُتر بے مہار کی طرح ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر بھی دندناتی پھرتی ہیں۔ دھواں اور گردو غبار سے اٹا یہ شہر اپنا آسمان کھو چکا ہے ۔ رات کو آسمان اسی دھول اور دھوئیں میں تخلیل ہو گیا ہے ۔ ڈیفنس ، بحریہ ٹاؤن یا عسکری ٹین سے ادھر نیلا گنبد انار کلی یا ٹی ہاؤس کی طرف آنے والوں کو کئی بار سوچنا پڑتا ہے ۔ سوشل میڈیا کے بخار کی زد میں آئے لوگ نت نئی تفریحات میں مشغول ہو چکے ہیں۔ کتابیں پڑھنے یا ہوٹلوں کی محفلوں میں گپ شپ کے لئے بھی اب لوگوں کے پاس وقت ہی نہیں۔ اور تو اور موبائیل اور انٹرنیٹ نے تو ایک ہی گھر میں رہنے والوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے ۔
وہ چائے خانے بھی ویران یا بند ہو چکے ہیں جہاں اکثر ادیبوں شاعروں، فنکاروں اور دانشوروں کا ہجوم نظر آتا تھا۔ اس زمانے میں ایک سے ایک بڑا تخلیق کار لاہور میں موجود تھا۔ اب تو سبھی آسودہ خاک ہوئے ۔ چند اہم تخلیق کار اندرون شہر سے ہجرت کر چکے ہیں اور شہر سے قدرے دور بستیاں آباد کر چکے ہیں۔
ہم نے پاک ٹی ہاؤس کی دم توڑتی روایات کو قریب سے دیکھا ہے ۔ آخر پور میں یہاں انتظار حسین ، سہیل احمد خان، جاوید شاہین، یونس ادیب ، سلیم شاہد، ظہیر کاشمیر، اسرار زیدی، اظہر جاوید، منیر نیازی قتیل شفائی خالد احمد، مظفر علی سید اور کئی دوسرے شاعر یہاں نظر آتے تھے۔ ان میں سے بیشتر روزانہ بیٹھنے والے بھی تھے۔ ادیب شاعروں کے پاس وقت بھی ہوتا تھا، وسائل کم تھے مگر پاک ٹی ہاؤس میں ہاف سیٹ چائے کا آرڈر دے کر رات 9 بجے تک آرام سے یہاں براجمان رہتے تھے۔ پھر شاعروں ادیبوں نے بھی دیگر طبقوں کی طرح سب کچھ پیسے کو سمجھ لیا۔ بعض سیاسی پارٹیوں کے ملازم ہوگئے۔ اس طرح علمی ادبی اداروں میں سیاسی ، تقرریاں، ایوارڈ اور دیگر مراعات کی دوڑ شروع ہوگئی۔
اب تو کالجوں یونیورسٹیوں کے اساتذہ ادبی ثقافتی اداروں اور اخبارات کے کالم نگار بھی علمی ادبی اداروں پر نظر رکھتے ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی کے اپنے اپنے ادیب اور صحافی ہیں اور حکومت کی تبدیلی پر وہی سرکاری اداروں میں اپنی باری لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت آئی ہے تو سبھی اہل قلم علمی ادبی اور ثقافتی اداروں کی نشستوں پر تبدیلی دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں۔ کچھ لوگ جو ابھی تک ان اداروں میں براجمان ہیں نئی حکومت کے وزیروں مشیروں سے راہ و رسم بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں تا کہ ان کی نشست برقرار رہے۔ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے ۔ ادبی اداروں میں وہی چند اہل قلم دکھائی دیتے ہیں جو کسی نہ کسی صورت میں حکومتوں کی کاسہ لیسی کرنے میں کبھی عار محسوس نہیں کرتے۔
اب تو ادب میں ایک بالکل نئی مخلوق در آئی ہے ۔ یہ فیس بک فیم لکھاری ہیں۔ جو براستہ فیس بک شعر و ادب کے حلقوں میں آئے ہیں۔ ان کی اپنی اپنی ٹولیاں ہیں یہ جہاں دو چار اکٹھے ہوتے ہیں اپنی تصوریں فیس بک پر پھیلا دیتے ہیں۔
حلقہ ارباب ذوق میں بھی بالکل نئے لوگ دکھائی دیتے ہیں جنہیں تخلیقی کاموں سے زیادہ اپنے آپ کو پروجیکٹ کرنے کی زیادہ فکر رہتی ہے ۔ وہ ہر اجلاس کی رپورٹ میں اپنے نام اور تصویر کو زیادہ ضروری خیال کرتے ہیں۔
شعری نشستیں اب بھی ہوتی ہیں مگر انہی نئے اور فیس بک مارکہ شعراءکی …. یہاں اگر کوئی سینئر یا دو چار بزرگ شعراءمدعو بھی کیے جاتے ہیں تو ان کی باری آنے تک ان تیس چالیس افراد کی گیدرنگ میں سے چند افراد ہی باقی رہ جاتے ہیں۔ بیشتر اپنا کلام سنا کر کھسک جاتے ہیں۔ اب تو یہ رواج عام ہے کہ شاعر مشاعرے کے آغاز ہی سے اپنے کسی ضروری کام کا راگ الاپنا شروع کر دیتا ہے کہ اسے ذرا جلدی پڑھوا دیا جائے اسے جلدی نکلنا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ شعر پڑھے بغیر جانے کو تیار نہیں ہوتا حالانکہ وہ بار بار تکرار بھی کرتا رہتا ہے کہ اسے کسی اور جگہ پہنچنا ہے جب اس کی تکرار کے بعد اس سٹیج پر مدعو کیاتو وہ صرف ایک غزل پر اکتفا نہیں کرتا جی بھر کے کلام سناتا ہے پھر جلدی سے نکل لیتا ہے ۔ کیا زمانہ تھا کہ ریڈیو، نیشنل سنٹر، آرٹس کونسلوں کے علاوہ شہر میں موجود مختلف ادبی تنظیموں کی شعری نشستوں میں بڑے بڑے قدآور لوگ تشریف لاتے تھے۔ اور مشاعرہ مکمل ہونے تک کوئی بھی پنڈال نہیں چھوڑتا تھا۔
اب ساری ادبی بھوک پیاس فیس بک اور ٹویٹر نے ختم کر دی ہے لوگ اپنی غزل یا اشعار مع تصویر فیس بک پر لگا کر دنیا بھر سے داد وصول کر لیتے ہیں۔ انہیں کسی ادبی رسالے جریدے میں شائع ہونے کی کوئی تمنا ہی نہیں ہے ۔ بلکہ اب تو لوگ براہِ راست کتاب شائع کر کے ادبی حلقوں میں داخل نہیں ہیں اور پھر اس کتاب پر تھیسس لکھوانے کی منصوبہ بندی کرنے لگتے ہیں اگر لکھاری پیسے والا ہے تو آن کی آن میں وہ سینئر بھی ہو جاتا ہے ۔ ظاہر ہے وہ اس بیس شعراءکو اچھے ہوٹل میں کھانا کھلا کر اشعار سنانے کی سکت رکھتا ہے تو پھر وہ حفظ مراتب میں جہاں مرضی کلام سنائے۔ اب تو کسی شاعر کو اس کی شاعرانہ غلطی بتانا بھی دشمنی مول لینے کے مترادف ہے ۔ آپ کسی شاعر کے مصرعے پر انگلی تو رکھیں وہ آپ کا ہمیشہ کے لیے جانی دشمن بن جاتا ہے ۔ تنقید برداشت کرنا تو ہم سبھی بھول گئے ہیں۔ اب تو سب کچھ تعلق داری ہے ۔ ہر شخص اپنے مفادات کو مدِ نظر رکھتا ہے ۔
بات پاک ٹی ہاؤس سے چلی تھی۔ اصل میں ہم ایک مدت بعد ٹی ہاؤس گئے تھے ایک محفل سالمہ کی صدارت کے لیے علی نواز شاہ کو انکار نہ کیا جاسکا۔ ٹی ہاؤس میں چند لکھاری نظر آئے وہ بھی اس شعری محفل کے لیے آئے ہوتے تھے۔ باقی سبھی نوجوان خواتین و حضرات ہمارے لیے اجنبی تھے۔ علی اصغر عباس سے بہت دنوں بعد ملاقات ہوئی یوں تو کالموں اور سوشل میڈیا کی وساطت سے رابطہ رہتا ہے مگر بالمشافہ احباب سے ملاقات کبھی کبھار ایسے ہی مواقع پر ہوتی ہے ۔ امیر حسین جعفری، اعجاز رضوی، تاثیر نقوی، حکیم سلیم اختر، اقبال راہی، فراست بخاری، فرمائش سید، حسن بانو، فرحت شاہ، فیصل زمان چشتی اور کئی دوسرے شعراءاس محفل میں موجود تھے۔ علی نواز شاہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں، افسانے کے مجموعوں کے علاوہ تین ناول بھی لکھ چکے ہیں۔ اور کسی بھی تنظیم کو نہایت مستقل مزاجی سے چلانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پاک ٹی ہاؤس میں انہوں نے حلقہ ارباب ذوق کا اپنا نویکلا ” دیا“ جلا رکھا ہے جس کی روشنی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے ۔ اِس شعر سے اجازت :
اشکوں سے ہیں نظر کی آنکھیں بھری ہوئی
پھرتا ہے کشتیوں میں سمندر لیے ہوئے
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ