نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف کوجوتامارنا اوروزیرخارجہ خواجہ محمد آصف پرسیاہی پھینکنا ایسے واقعات ہیں کہ جس کی ہرطبقہ ہائے فکر کی طرف سے بھر پورمذمت کی گئی ۔اورمذمت کی بھی جانی چاہیے تھی ۔کیونکہ سیاسی وسماجی رہنماﺅں کے بقول ان واقعات سے بیرونی دنیا میں ہمارے ملک کاامیج خراب ہواہے۔ویسے بھی ہمارے ملک میں سب سے زیادہ پائی جانے والی اشیاءالزامات اورمذہبی بیانات ہی ہیں ۔الزامات اورمذمتی بیانات وافرمقدارمیں داغے جاتے ہیں۔لیکن اس کے باوجود ان کی افادیت واہمیت میں کوئی کمی نہیں آئی ۔شہید ملت نواب لیاقت علی خان شہید،بے نظیربھٹو کے قتل، بوری بند لاشیں ،سینکڑوں کی تعدادمیں معصوم بچوں کے قتل ،بازاروں ،مساجد ،امام بارگاہوں میں خون کی ہولی ،قصور میں سات معصوم بیٹیوں کی آبروریزی کے بعد قتل اورماڈل ٹاﺅن میں دن دیہاڑے پولیس کے ہاتھوں قتل وغارت پرمذمتی بیانات داغے گئے جس نے مناسب سمجھا اس نے شدید مذمت بھی کی ۔مجھے یقین ہے کہ اگر وزیرخارجہ خواجہ محمد آصف اورسابق نااہل وزیراعظم کے ساتھ خدانخواستہ کوئی بڑاحادثہ ہوجاتاتومذمتی بیانات میں مزید شدت پیدا ہو جاتی ۔اوربس ۔۔۔۔
ایک تو سکیورٹی کے انتظامات پربڑا سوال اٹھتاہے ۔میاں نواز شریف حکومت کی سکیورٹی کے علاوہ اپنی سیکورٹی بھی ساتھ رکھتے ہیں ۔لیکن سٹیج اورشرکاءکے مابین اتناکم فاصلہ حکام کے فرائض سے لاپرواہی کاواضح ثبوت ہے۔شاید سابق نااہل وزیراعظم نے مسجد اورمدرسہ کے منتظمین سے گہرے تعلق کے پیش نظر سیکورٹی پردھیان نہیں دیا۔کیونکہ اس مذہبی ادارے میں میاں برادران کاآناجانالگارہتاتھا۔چھوٹے میاں شہباز شریف نے جامعہ نعیمیہ میں ہی خطاب کرتے ہوئے دہشت گردوں سے کہاتھاکہ آپ کی ہماری ایک سوچ ہے ۔ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔اس لئے پنجاب میں تودہشت گردی کی وارداتیں نہ کریں ۔لیکن دہشت گرد کسی کانہیں ہوتا ۔دہشت گرد کاکوئی دوست کوئی ملک کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔بلکہ ہرمسلح شخص کو بہتے خون سے پیاراورچیخیں پسند ہوتی ہیں ۔عام آدمی کوہرقدم پربے عزت ہونااورسرکاری محکمے میں اس کی انامجروح ہونا اس کامقدربنادیاگیاہے ۔جس کے سبب وہ کندن ہوگیاہے۔نااہل وزیراعظم کوصرف ایک چھترمارا گیا،عام آدمی کو کسی وڈیرے یاارکان اسمبلی کو خوش کرنے کےلئے بلاوجہ تھانوں میں چھترول کی جاتی ہے۔اگرعام آدمی کسی رکن اسمبلی یاوڈیرے کی مرضی کے مطابق ووٹ نہ ڈالے تو تھانے میں تشدد کے بعد سالہاسال کچہریوں کے چکروں کاعذاب بھی جھیلنا پڑتاہے۔لیکن یہ عام آدمی کانصیب ہے۔حکومت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارگردگی بہتربنانے کےلئے قومی خزانے سے اربوں روپے خرچ کئے جدید گاڑیاں اوراسلحہ لے کردیاتاکہ اشرافیہ کو بہترپروٹوکول دیاجاسکے ۔اشرافیہ اوران کے اہل وعیال کی حفاظت کی جائے لیکن اگرتین بارمنتخب وزیراعظم اوراشرافیہ میں اعلی درجہ پرفائزشخص کوسیکورٹی حکام ایک چھترسے نہیں بچاسکے توپھر انہیں مراعات دینے اورمحکمہ کو جدید بنانے سے کیا حاصل ۔پنجاب حکومت کی جانب سے پروٹوکول کے ساتھ فیض آباد پہنچائے جانے والے دھرناکے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کئی مقررین نے دعویٰ کیاتھاکہ سیاستدان جب جلسوں سے خطاب کرنے آئیں گے تو ان کی چھترول کی جائے گی اورجس کی ابتداسیالکوٹ اورلاہورسے ہوگئی ہے۔حکومت کوچاہیے تھاکہ جہاں ان کے بیسیوں مطالبات من وعن تسلیم کرلئے گئے وہاں اپنا ایک مطالبہ بھی تسلیم کرالیتے ۔اب تومطالبہ تسلیم کرانے کاوقت گزرگیااب توایک ہی حل ہے کہ جب کوئی بھی سیاستدان خطاب کرناچاہے توپہلے تین چار سپاہی جوشیلڈسے مسلح ہوں ان کے حصار میں خطاب کریں ۔جوشیلڈپتھرروک سکتی ہیں یقیناچھتر بھی روک لیں گی ۔یہ اشرافیہ میری اس رائے کو عام آدمی کی رائے سمجھ کرنظرانداز نہ کرے ۔مجھے میاں نوازشریف کامسلم لیگ ن کی جنرل کونسل سے”مایوس “خطاب سن بڑادکھ ہواہے۔کیونکہ ایسے حالات میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کسی بھی وقت شیخ مجیب الرحمن والا روپ دھارسکتے ہیں۔میں اس عدالت کی تعریف کئے بغیربھی نہیں رہ سکتا جس نے قانون کی حکمرانی قائم کرنے کانعرہ لگاتے ہوئے جوتامارنے والے ملزم کااکٹھا چودہ یوم کاریمانڈ دے دیا۔تاکہ پولیس کو دوسراجوتا برآمدکرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔
فیس بک کمینٹ