شاہ صاحب نے کپڑے کا کاروبار شروع کیا تو گھر پر سب دوستوں کو بلایا‘ میں نے مبارکباد دی اور پوچھا کہ ”شاہ جی! آپ کی فیملی تو ہمیشہ سے فرنیچر کے کاروبار سے وابستہ رہی ہے‘ یہ آپ کپڑے کے کاروبار کی طرف کیسے آ نکلے؟“ شاہ جی مسکرائے اور بولے ”یہی تو میری بدنصیبی ہے کہ مجھے پہلے علم ہی نہیں ہو سکا کہ کپڑے کا کاروبار کتنا کمال کا کاروبار ہے‘ والد صاحب نے بہت زور لگایا کہ فرنیچر کا کاروبار کرو لیکن میں نے انکار کر دیا‘ آج الحمدللہ دو ہفتے ہو گئے ہیں، کپڑے کی دکان کھولے اور دھڑا دھڑ گاہک آرہے ہیں“۔ تین ماہ بعد شاہ صاحب سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا ”شاہ جی دکان کیسی چل رہی ہے؟“ چہک کر بولے ”آپ کی دعا سے روز کی سو درجن مرغیاں سیل ہو رہی ہیں“۔ میں بوکھلا گیا ”مرغیاں؟؟؟ لیکن شاہ جی کپڑے کی دکان پر مرغیوں کا کیا کام؟؟؟“ شاہ جی چونک کر بولے ”کون سی کپڑوں کی دکان؟… اچھا وہ… یار وہ تو بڑا ماٹھا کام نکلا‘ ایک دوست نے بتایا تھا کہ مرغیوں کا کام شروع کرو‘ یقین کرو اتنا پرافٹ ہو رہا ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھلتا‘ بوتل منگواﺅں؟“ میں نے شکریہ ادا کیا اور واپس آ گیا۔ کافی دنوں بعد اتفاقاً شاہ صاحب مجھے ماڈل ٹاﺅن پارک میں جوگنگ کرتے ہوئے مل گئے‘ بہت خوش نظر آرہے تھے۔ میں نے پوچھا ”شاہ جی! کام کیسا جا رہا ہے؟“ آنکھ مار کر بولے ”پانچوں گھی میں ہیں‘ اب تو بچوں کا سائز بھی رکھ لیا ہے“ میں نے حیرت سے پوچھا ”یعنی چوزے بھی رکھ لیے ہیں؟“ چونک کر بولے ”چوزے… کون سے چوزے… اوہ! اچھا اچھا… وہ… مرغیوں والا کام… نہ بھائی نہ‘ انتہائی فضول کام تھا‘ بس ایسے ہی دوست کی باتوں میں آ گیا‘ اصل کام تو جوتیوں کا ہے‘ لبرٹی میں دکان کھولی ہے‘ زنانہ مردانہ اور بچگانہ جوتے رکھے ہیں‘ ہر وقت رش پڑا رہتا ہے“۔ مجھے یقین تھا کہ اگلی بار جب شاہ جی سے ملاقات ہو گی تو وہ یقیناً نیا کام شروع کر چکے ہوں گے لیکن اس کی نوبت ہی نہ آ سکی‘ اگلی دفعہ وہ ملے تو ایک کمپنی میں سیلز مین کی نوکری کر رہے تھے‘ پتا چلا کہ چھ مختلف کاروبار شروع کر کے 25لاکھ کا بیڑا غرق کر چکے ہیں اور اب گھر تک بک گیا ہے لہٰذا مجبوراً بارہ ہزار کی نوکری کر رہے ہیں۔
آپ کو بھی ایسے بہت سے لوگ ملتے ہوں گے جن کا آفس اور بزنس کچھ عرصے بعد تبدیل ہو جاتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ بھرپور محنت، پیسے اور ایمانداری سے شروع کیے گئے کاروبار بھی نہیں چل رہے؟؟؟ وجہ صرف یہ ہے کہ ہم ہر وہ کاروبار کرنا چاہتے ہیں جس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور جس کے بارے میں جانتے ہیں وہ کام ہمیں پسند ہی نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مارکیٹ میں ایک بندے نے جوس کی دکان کھولی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اتنا چل نکلی کہ اب ا±س نے چار دکانیں اور خرید لی ہیں‘ ہم فوراً فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم بھی جوس کی دکان کھولیں گے اور ا±سی کے برابر میں کھولیں گے‘ لیکن پتا نہیں کیوں‘ ا±س کی دکان چلتی ہے‘ ہماری نہیں چلتی۔ اسی طرح ہمیں کوئی رشتہ دار یا دوست آکے مشورہ دیتا ہے کہ آج کل یو پی ایس کا بزنس بہت چل رہا ہے‘ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ا±س کے پاس پیسہ ہوتا تو وہ یہ بزنس ضرور شروع کرتا‘ ہمارے ہاتھوں میں خارش شروع ہو جاتی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ یار اگر پیسہ میں لگاﺅں تو کیا تم ٹائم دو گے؟ وہ فوراً ہامی بھر لیتا ہے‘ ہم ا±س کے بھروسے پہ دکان میں سامان ڈالتے ہیں‘ شروع شروع میں ایک دوسرے پر جان چھڑکی جاتی ہے اور جونہی کاروبار چلنے لگتا ہے‘ رنجشیں بیدار ہونا شروع ہو جاتی ہے اور چند مہینوں میں دونوں علیحدہ ہو جاتے ہیں‘ دوست کسی اور کے ساتھ کام شروع کر دیتا ہے اور ہم ہونقوں کی طرح منہ اٹھائے بیٹھے رہ جاتے ہیں کہ نہ یو پی ایس کے کام کو جانتے ہیں، نہ اِس شعبے سے متعلقہ لوگوں کو۔ ہم آفس پہلے کھول لیتے ہیں اور یہ بعد میں سوچتے ہیں کہ اِس میں کام کیا کرنا ہے؟ ہماری ساری توجہ آفس کی ڈیکوریشن پر لگی رہتی ہے حالانکہ دنیا بھر میں آفس کا تصور ختم ہوتا جا رہا ہے‘ لوگ آپ کا کام دیکھتے ہیں‘ آفس نہیں۔ ہم کاروبار شروع تو کر لیتے ہیں اور کام نہ جاننے کے باوجود کچھ عرصہ تک ا±سے چلا بھی لیتے ہیں لیکن جیسے ہی ہمیں کام کی کچھ سمجھ آنا شروع ہوتی ہے‘ ہمارا صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتاہے اور ہم وہ کاروبار ختم کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک عجیب و غریب بات مشہور ہے کہ پاکستان میں اور کوئی کام چلے نہ چلے‘ کھانے کا کام ضرور چل جاتا ہے‘ یہ بالکل غلط ہے۔ کیا آپ نے اپنی گلی‘ محلے‘ شہر میں کئی ریسٹورنٹ کھلتے اور پھر بند ہوتے نہیں دیکھے؟ اِن کا کام کیوں نہیں چلا؟ وجہ صرف یہ ہے کہ ہم کاروبار کے انتخاب پر سوچ بچار ہی نہیں کرتے‘ بہت سے لوگ اپنا خاندانی کام نہیں کرنا چاہتے حالانکہ ا±س میں ان کے پاس مہارت بھی ہوتی ہے اور تجربہ بھی۔ کاروبار نہ چلنے کی ایک وجہ ہمارا ضرورت سے زیادہ خود پر اعتماد بھی ہے‘ بعض اوقات یہ اعتماد ضد کی شکل اختیار کر لیتا ہے‘ ہمیں صاف نظر آ رہا ہوتا ہے کہ ہمارا کاروبار اب مزید نہیں چل سکتا‘ اِسے بند کر دینا چاہیے لیکن ہم دنیا کے طعنوں کے خوف سے اسے مسلسل چلانے پر بضد رہتے ہیں‘ اپنا نقصان کرتے رہتے ہیں اور ہوش تب آتا ہے جب سب کچھ لٹ چکا ہوتا ہے۔ ناتجربہ کاری اور عدم برداشت دونوں کسی بھی کاروبار کو تباہ کر دیتی ہیں۔ میرے گھر کے قریب والی مارکیٹ میں میرے ایک محلے دار نے پیزا شاپ کھولی‘ دن رات ا±س کی دکان پر رش لگا رہتا تھا‘ پتا چلا کہ یہ سب رشتے دار اور دوست عزیز ہیں، جو مفت میں پیز ا کھانے کھنچے چلے آتے ہیں۔ موصوف بھی دل کے سخی تھے لہٰذا اپنی ٹور بنانے کے لیے دھڑا دھڑ مفت پیزے کھلاتے رہے… چھ ماہ بعد شاپ بند ہو گئی‘ آج کل ایک پیزا شاپ پر ڈلیوری بوائے کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ کاروبار کرنے کے کچھ اصول اور طریقے ہوتے ہیں‘ کسی بھی کاروبار کو شروع کرنے سے پہلے ا±ن لوگوں کو ضرور دیکھئے جو کامیابی سے کاروبار چلا رہے ہیں۔ اِن میں سے آپ کو اکثر ایسے لوگ ملیں گے جو برسوں سے ایک ہی کاروبار کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ا±ن کے Contactsبھی بن گئے‘ جان پہچان بھی ہو گئی اور کاروبار کے اسرار و رموز سے بھی آگاہی ہو گئی۔ ہونا بھی یہی چاہئے‘ جو کاروبار آپ شروع کر رہے ہیں ا±س کے متعلق آپ کو سب کچھ خود پتا ہونا چاہئے‘ مثلاً اگر آپ دہی بھلے کی دکان کھولنا چاہتے ہیں تو آپ کو شروع سے آخر تک دہی بھلے خود بنانے آنے چاہئیں ورنہ آپ ملازمین کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے اور آخری وقت تک پتا نہیں چلے گا کہ کاروبار میں نقصان کیوں ہو رہا ہے؟ یاد رکھئے! ہر وہ کام جو ہمیں پوری طرح آتا ہے وہی ہمارا بہترین کاروبار ہو سکتا ہے‘ تاہم اس میں جگہ کا انتخاب بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے‘ قبرستان میں پی سی او کھول لیں گے یا چوتھی منزل پر پٹرول پمپ بنا لیں گے تو گاہک نے خاک آنا ہے!!! آپ نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہوں گے جو پہلی دفعہ کوئی کاروبار شروع کرتے ہیں‘ ا±س میں ا±ن کا کوئی خاص تجربہ بھی نہیں ہوتا لیکن پھر بھی ان کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا ہے… جی ہاں! ایسا بھی ہوتا ہے لیکن بالکل ایسے ہی جیسے لاکھوں لوگوں میں سے کسی ایک کا پرائز بانڈ نکل آتا ہے‘ لہٰذا قسمت کا دروازہ کھلنے کا انتظار نہ کیجئے… دیوار توڑئیے اور راستہ بنا لیجئے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)