کامران میرے ماموں کا لڑکا ہے اور اپنے تئیں دنیا کی عجیب و غریب خاصیتوں کا مالک ہے۔ اس کی عمر 30سال ہے جس میں سے اس نے 50سال علم سیکھنے میں لگائے ہیں۔ اس کے بقول وہ کالا علم بھی سیکھنے ہی والا تھا لیکن ایک پیپر میں سپلی آگئی۔ یہ ہپناٹزم کا بھی ماہر ہے لیکن اس کا ہپناٹزم ذرا مختلف نوعیت کا ہے۔ عام طور پر ہپناٹزم کے ماہر اپنے موکل کے سامنے پنڈولم گھماتے ہیں جس سے وہ سو جاتا ہے لیکن میرے ماموں کا لڑکا لوگوں کو سلانے کی بجائے پہلے سے بھی زیادہ ہوشیار کر دیتا ہے۔ یہ پنڈولم ان کی پڑپڑی پر مارتا ہے جس سے سامنے والا بندہ کربناک چیخ مار کر ’بونتر‘ جاتاہے۔ دنیا کا ہر ناممکن کام میرے ماموں کے لڑکے نے کیا ہوا ہے مثلاً پچھلے دنوں اس نے ایک تصویر فیس بک پر شیئر کی جس میں یہ نیویارک میں ایفل ٹاور پر چڑھا ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ جرمنی میں اہرام مصر کی سیر کر چکا ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس کا پاسپورٹ تو نہیں بنا لیکن یہ آدھی سے زیادہ دُنیا دیکھ چکا ہے۔
اس کے بقول جنات اسے مختلف ممالک کی سیر کرانے لے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ میں نے پوچھا کبھی کوئی جن تمہیں ’کوہ قاف‘ بھی لے کر گیا؟ کچھ سوچ کر بولا ایک دفعہ ایک جن سے یہ فرمائش کی تھی لیکن وہ کہنے لگا کہ میرے آقا چونکہ مجھے کوہ قاف سے نکالا جا چکا ہے لہذا میرے پاسپورٹ پر تحریر ہے کہ ’اِس جن کا پاسپورٹ کوہ قاف کے علاوہ ہر ملک کے لیے کارآمد ہے‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’تمہارے (جن کا) پاسپورٹ بھی ہے؟‘ اطمینان سے بولا ’ہاں! لیکن ایکسپائرڈ ہو چکا ہے‘۔ میرے ماموں کے لڑکے نے میٹرک میں پچاس ہزار نمبر حاصل کیے تھے۔ دلیل یہ دیتا ہے کہ ایک پرچے میں پانچ نمبر تھے اور باقیوں میں صفر۔ اِس کے مطابق یہ تین چار دفعہ وفات بھی پا چکا ہے۔ تفصیل اِس بکواس کی یہ بتاتا ہے کہ رات کو سویا تو صبح فوت ہو چکا تھا‘ اس دوران ایک بزرگ اس کے پاس آئے اور کہنے لگے ’اوئے کامی! اُٹھ جا‘۔ تاہم تصدیق سے پتا چلا کہ جس دن کا یہ واقعہ ہے اس دن اُس کے دادا جان اسے اٹھانے آئے تھے اور انہوں نے کامی کی بجائے اسی وزن پر ایک اور ناقابل اشاعت لفظ بولا تھا۔
کامران سے میں جب بھی ملتا ہوں مجھ پر حیرتوں کے نئے در وا ہوتے ہیں۔ مثلاً پچھلے دنوں اس نے بتایا کہ اس نے بد روحوں کو بلانے کا علم سیکھ لیا ہے۔ میں نے اشتیاق ظاہر کیا تو کہنے لگا ’میں نے ایسا پرفیوم تیار کیا ہے جو بد روحوں کو بہت پسند ہے لہٰذا جونہی میں عمل کے دوران وہ پرفیوم خود پر چھڑکتا ہوں بدروحیں دیوانہ وار دوڑی چلی آتی ہیں‘ میں نے جلدی سے پوچھا ’پرفیوم کانام کیا رکھا ہے؟‘ اطمینان سے بولا ’بدروح افزا‘۔ کامران دنیا کا وہ واحد شخص ہے جو برمودا ٹرائی اینگل کے اندر کا وزٹ بھی کرچکا ہے۔ میں نے پوچھا ’اندر کیا دیکھا‘۔ جھرجھری لے کر بولا ’بھائی جان کچھ نہ پوچھیں! اندر جدید ترین مخلوق موجود تھی اور پانچ ہزار جی بی اسپیڈ کا وائی فائی لگا ہوا تھا۔‘ میں گڑبڑا گیا ’اتنی تیز اسپیڈ والا وائی فائی‘ تم نے چلا کر دیکھا؟‘ نفی میں سرہلا کر بولا ’نہیں! وہ پاس ورڈ کسی کو نہیں دیتے‘۔
پچھلے دنوں اس نے ایک اور ہولناک دعویٰ کر دیا۔ کہنے لگا میں منہ سے آگ نکال سکتا ہوں۔ یہ سن کر سب اچھل پڑے۔ مذاق اڑایا لیکن یہ اپنی بات پر اڑا رہا۔ بالآخر طے پایا کہ اگر موصوف منہ سے آگ نہ نکال سکیں تو انہیں ایک ہزار روپے جرمانہ کیا جائے۔ یہ فورا ًمان گیا اور کہنے لگا ’پہلے میں دس منٹ کا عمل کروں گا‘ اس دوران بالکل خاموشی رہنی چاہئے۔ پھر میں ایک گول دائرہ بناؤں گا لیکن کوئی اس کے اندر نہیں آئے گا۔ اور سب سے آخر میں مجھے گرم گرم دودھ کا ایک گلاس چاہئے ہو گا۔ دودھ پیتے ہی میں منہ سے آگ نکال کر دکھاؤں گا اور اگر ایسا نہ کرسکا تو ایک ہزار روپے جرمانہ دوں گا۔‘‘ تجویز اچھی تھی لہٰذا فوری طور پر ہامی بھر لی گئی۔ قبلہ نے سب سے پہلے اپنا عمل شروع کیا۔ اس دوران ہم سب دم سادھے اسے دیکھتے رہے۔ عمل ختم ہوا تو اس نے کمرے کے درمیان میں ایک گول دائرہ بنایا اور اس کے اندر نہایت احتیاط سے بیٹھ کر دودھ کی ڈیمانڈ کی۔ فوری طور پر گرم گرم دودھ کا گلاس پیش کیا گیا۔ موصوف نے ایک ہی گھونٹ میں دودھ ختم کیا اور ڈکار مارتے ہوئے بولے ’اب غور سے دیکھنا‘ میں منہ سے آگ نکالوں گا‘۔ اتنا کہا اور بلند آواز بولے’آگ‘ اور مقابلہ جیت لیا۔ کامران کو ٹیلی پیتھی بھی آتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ٹیلی پیتھی کا علم اصل میں شہر قصور سے پھیلا ہے۔ بقول اس کے‘ ٹیلی پیتھی کا اصل نام ’ٹیلی میتھی‘ تھا اور یہ قصوری میتھی کھا کر سیکھی جاتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک اسے لے اڑے اور میتھی کو پیتھی میں تبدیل کر کے اپنی اجارہ داری قائم کر دی۔ میں نے ایک دن کامران سے فرمائش کی کہ مجھے اپنی ٹیلی پیتھی‘ سوری ٹیلی میتھی کا کوئی عملی نمونہ دکھائو۔ کہنے لگا ’میں تمہارے دماغ میں جا کر ایک حکم دوں گا اور دیکھنا تم فوراً عمل کرو گے‘ میں نے پوری دلچسپی سے کہا ’ٹھیک ہے‘ اس کے بعد اُس نے آنکھیں بند کر لیں۔ میں انتظار کرنے لگا کہ کب میرے دماغ کو کوئی حکم موصول ہوتا ہے۔ جب دس پندرہ منٹ اسی کیفیت میں گزر گئے تو میں نے پہلو بدلا ’یار ابھی تک تو کوئی حکم نہیں آیا‘ یہ سنتے ہی اس نے مسکراتے ہوئے آنکھیں کھولیں اور قدرے متانت سے جواب دیا ’میں نے ہی تمہارے دماغ کو یہی حکم دیا تھا کہ مجھ سے یہ سوال پوچھو‘ یہ سنتے ہی میں نے دانت پیسے ’اچھا ایسا کرو میرے دماغ میں جا کر مجھے مجبور کرو کہ میں تمہارے لیے پانی لے کر آؤں‘ اس نے سر کھجایا اور دوبارہ آنکھیں بند کر لیں۔ میں آہستہ سے اٹھا‘ گلاس میں پانی بھرا اور واپس آکر اُس کے سر پر انڈیل دیا۔ وہ چھلانگ مار کر کھڑا ہوگیا ’یہ کیا حرکت ہے؟‘۔ میں نے اطمینان سے کہا ’میرا قصور نہیں یار! تم نے میرے دماغ کو حکم دیا کہ میرے اوپر پانی پھینک دو‘ میں نے پھینک دیا‘۔ اس دن کے بعد کامران نے مرد حضرات پر ٹیلی پیتھی کا علم آزمانے پر سخت پابندی عائد کردی ہے۔
اتنا ٹیلنٹڈ ہونے کے باوجود کامران ابھی تک بے روزگار ہے۔ میٹرک میں ہائی تھرڈ ڈویثرن لینے کے باوجود کوئی ملٹی نیشنل کمپنی اسے برانڈ مینجر بنانے پر آمادہ نہیں۔ کامران کا کہنا ہے کہ چونکہ ہر جگہ سفارش اور رشوت چلتی ہے اسی لیے اس کی قدر نہیں۔ میں نے اسے آفر کی کہ اگر وہ چاہے تو میں اسے ایک جگہ انٹرٹینمنٹ مینجر لگوا سکتا ہوں۔ اس نے خوشی کا اظہار کیا۔ سو میں نے اسے اپنے ایک جاننے والے دوست کے دفتر میں رکھوا دیا ہے۔ وہاں وہ آنے جانے والوں کی انٹرٹینمنٹ کرتا ہے یعنی ان کے لیے چائے بناتا ہے۔
دوست بتا رہا تھا کہ جب کامران کو انٹرٹینمنٹ مینجر کہہ کر بلایا جاتا ہے تو وہ زیادہ اچھی چائے بناتا ہے۔ آج کافی دنوں بعد کامران سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا ’کیسی جارہی ہے جاب؟‘ نہایت خوشی سے بولا ’بہترین بھائی جان! دفتر کا ہر بندہ مجھ سے متاثر ہے۔ کئی لڑکیاں مجھے اپنا ہاتھ دکھا کر مستقبل کا حال پوچھ چکی ہیں‘ میں سمجھ گیا کہ ٹیلنٹ اپنے اصل مقام پر پہنچ گیا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ