وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن پر ہم نے بلینک چیک دیا تھا، ان کی ایکسٹینشن پر کوئی سودے بازی نہیں کی تھی اور نہ کچھ مانگا تھا۔ان کے مطابق ’جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع لندن میں سینئر قیادت کا اجتماعی فیصلہ تھا۔ نواز شریف کی واضح ہدایت تھی کہ قمر باجوہ کی توسیع کے لئے ووٹ دیا جائے‘۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں کئے جانے والے اس ’انکشاف‘ میں یوں تو کچھ نیا نہیں ہے لیکن یہ پردہ داری بہر طوروا رکھی گئی ہے کہ سودے بازی کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا گیا ہے۔
خواجہ آصف بے لگام بولنے کے عادی اور اپنی زبان درازی پر نازاں بھی رہتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سینیٹ میں پی ٹی آئی کی خاتون ارکان کے بارے میں جو ’گوہر افشانی‘ کی تھی وہ انتہائی ڈھٹائی سے اس پرقائم ہیں ۔ اس گفتگو کو غیر پارلیمانی اور عورت دشمن ماننے کے باوجود وہ اس کے لئے دلائل کے انبار لگاکر اپنی اور پارٹی کی عزت افزائی کا سبب بھی بنے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے مطالبہ کیا کہ خواتین کے بارے میں انہوں نے جو ہتک آمیز گفتگو کی ، وہ تب ہی اس پر معافی مانگیں گے اگر تحریک انصاف ، مریم نواز کے بارے میں عمران خان کی غیر شائستہ گفتگو پر معافی مانگے۔ یا یہ کہ اگر عورتوں کو مردوں کے برابر کھڑا ہونے کا شوق ہے تو انہیں مردوں کی طرح گالیاں کھانے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ گویا خواجہ آصف جو مہذب معاشرہ پیش کرتے ہیں اس میں دشنام طرازی معمول کا فعل ہوگا۔ البتہ یہ طے ہونا باقی ہے کہ کیا عورتوں کو مردوں کے مساوی گالیاں دی جائیں یا چونکہ انہیں کم تر حقوق حاصل ہیں ، اس لئے ان کے ساتھ تھوڑی رعایت کی جائے۔
کسی مہذب ملک میں ایسی گفتگو کرنے والے کسی شخص کو وزارت دفاع تو کیا رکن اسمبلی کے طور پر بھی کام جاری رکھنا دشوار ہوجاتا۔ سب سے پہلے تو خود اس کی اپنی پارٹی گوشمالی کرتی اور اسے اخلاق سے گری ہوئی گفتگو کرنے پر معافی مانگنے اور اپنے طرز تکلم کی اصلاح کرنے کی ہدایت کی جاتی۔ البتہ پاکستان میں کسی بدکلامی پر خواہ اداریے لکھے جائیں، تبصرے ہوں اور یہ باور کروانے کی کوشش کی جائے کہ خواتین کے حوالے سے ہتک آمیز گفتگو کسی مہذب سیاسی مکالمہ کا حصہ نہیں ہوتی، اس کا تعلق بنیادی اخلاقیات اور شہریوں کے مساوی حقوق سے ہے۔ یادش بخیر ملک میں جمہوریت اسی اصول کی بنیاد پر استوار ہے کہ ہر شہری باعزت اور احترام کے قابل ہے اور اس کی رائے کو تسلیم کرنا چاہئے۔ اسی لئے ایک فرد ایک ووٹ کا اصول جمہوریت کی بنیاد بنا جو پاکستان میں بھی نافذالعمل ہے۔ البتہ خواجہ آصف جیسے افراد سیاسی جوڑ توڑ اور بعض شخصیات سے وفاداری کی بنیاد پر عہدوں پر سرفراز کئے جاتے ہیں۔
تاہم خواجہ آصف کے تازہ بیان میں جو ’گل فشانی ‘ کی گئی ہے ، اس سے مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو ضرور تشویش ہونی چاہئے۔اس وقت تو خیر شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) پاک فوج کے ساتھ ویسا ہی ’سانجھ‘ بنانے کی کوشش کررہی ہے جیسا تعلق عمران خان نے ’ایک پیج کی سیاست‘ کے نام پر فوج کے ساتھ استوار کیا تھا۔ لیکن خواجہ آصف نے جنوری 2020 میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو عہدے کی مدت میں توسیع دینے کے لئے جس قانون سازی کی طرف تازہ ٹی وی انٹرویو میں اشارہ کیا ہے، اس وقت مسلم لیگ (ن) مریم نواز کی قیادت میں ’ووٹ کو عزت دو ‘ کے لئے مہم جوئی کررہی تھی اور نواز شریف جلسوں میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کی اپنی حکومت کے خلاف سازشوں کا احول بیان کررہےتھے۔ گویا عوام کی تشفی کے لئے جمہوریت کا راگ الاپا جارہا تھا لیکن اقتدار میں واپسی کی حکمت عملی کے طور پر فوج کو خوش کرنے کے لئے ایک ناجائز قانونی ترمیم کی حمایت کرنے کا اہتمام ہورہا تھا۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی توسیع کے معاملہ کو غلط قرار دے کر نشاندہی کی تھی کہ اس حوالے سے کوئی قانونی جواز موجود نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے عدالت عظمی کی اس ہدایت کو تسلیم کرنے کی بجائے آرمی چیف کو توسیع دینے کے لئے آرمی ایکٹ میں ترمیم کا فیصلہ کیا اور مسلم لیگ (ن) جو بظاہر اسٹبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کی علامت بنی ہوئی تھی، بھیگی بلی بن کر اس ترمیم کو منظور کروانے میں شامل ہوگئی۔
اب خواجہ آصف یہ کہہ کر اپنی اور پارٹی کی پاک دامنی کا افسانہ سنانا چاہتے ہیں کہ ہاں ہم نے قانونی ترمیم کی حمایت تو کی تھی لیکن اس کے عوض کوئی مفاد حاصل نہیں کیا۔ اس دعوے میں سب سے پہلا نکتہ مفاد کے بارے میں نہیں بلکہ اصول کے بارے میں ہے۔ خواجہ آصف جہاں دیدہ پارلیمنٹیرین ہیں اور انہیں یہ باور کروانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ قومی اسمبلی کے ارکان کسی مفاد یا سودے بازی کی بنیاد پر قانون سازی نہیں کرتے بلکہ کسی بھی قانونی ترمیم یا نئے قانونی مسودے کو عوامی مفاد اور کسی پارٹی پروگرام کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی قانون کسی پارٹی کے سیاسی منشور کے مطابق ہو تو اس کی حمایت کی جاتی ہے اور یہ اس کے اصولوں خلاف ہو تو ایسی قانون سازی سے معذرت کرلی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں کے درمیان اگر کوئی سودے بازی ہوتی ہے تو وہ بھی اسی اصول کی بنیاد پر ہونی چاہئے۔ اپوزیشن جماعتیں ایسے موقع پر عام لوگوں کے مفاد اور ملکی ضرورتوں کو پیش نظر رکھتی ہیں۔ یہ کوئی ایسی سودے بازی نہیں ہوتی جس میں ایک پارٹی کو کسی قانون کی حمایت کرنے پر کوئی شخصی یا گروہی فائدہ پہنچانے کا وعدہ کیا جائے۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو سمجھ آتا ہے کہ جنوری 2020 میں تحریک انصاف اور عمران خان کیوں جنرل باجوہ کو مزید تین سال تک ملک پر مسلط رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن خواجہ آصف یا ان کے لیڈروں کو یہ اعتراف کرنے کے بعد کہ ’اس موقع سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا تھا‘ کی ضرور وضاحت کرنی چاہئے ۔ انہوں نے پھر کس بنیاد پر ایک ایسے آرمی چیف کی توسیع کے لئے میدان ہموار کرنے میں معاونت کی جس پر اب ملک میں عمران پراجیکٹ مسلط کرنے اور ملکی معیشت تباہ کرنے کا الزام عائد کیاجاتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ جنرل باجوہ نے فوجی اثر و رسوخ کے زور پر عمران خان کو 2018 کے انتخابات میں کامیاب کروایا، پھر چھوٹی پارٹیوں اور آزاد ارکان کو گھیر گھار کر لائے تاکہ عمران خان وزیر اعظم بن جائیں۔ شہباز حکومت کا کہنا ہے کہ عمران خان نے محض ساڑھے تین سال میں ملکی معیشت کا جنازہ نکال دیا ۔ اسی لئے فوج کو بھی ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچنا پڑا۔ اگر عمران خان ملکی معیشت کی تباہی کا سبب بن رہے تھے اور اس افسوسناک عمل میں جنرل باجوہ ان کی سرپرستی کرتے تھے تو مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف نے کیوں ایسے عناصر کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی تجویز قبول کی تھی؟ کیا وجہ تھی کہ اس ترمیم سے انکار کرکے جنرل باجوہ کی توسیع روکنے اور ملکی فوجی قیادت میں کسی مثبت تبدیلی کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوشش نہیں کی گئی؟
یا مسلم لیگ اور نواز شریف اس وقت خود بھی اسی خوف میں مبتلا تھے جس کا الزام ، وہ اس وقت عمران خان پر عائد کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا مؤقف ہے کہ عمران خان نے جنرل عاصم منیر کی تقرری میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے اسلام آباد پر چڑھائی کرنے اور ملک کو شدید بحران میں مبتلا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے اور موجودہ حکومت سینئر ترین جنرل کو آرمی چیف بنانے کی ’خوشگوار‘ روایت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اگر یہ ساری ’کہانی‘ حقائق پر مشتمل ہے اور اب خواجہ آصف کے ’انکشافات‘ بھی سچے حقائق سامنے لارہے ہیں تو کیوں نہ یہ مان لیا جائے کہ ملک کو تباہی کی طرف دھکیلنے میں مسلم لیگ (ن) ، نواز شریف اور ان کے سب ساتھی بھی یکساں طور سے ملوث تھے۔ ایک ’ناکام اور ملکی معیشت تباہ کرنے والا شخص ‘ وزیر اعظم تھا اور ایک ایسے جنرل کی توسیع کے لئے آرمی ایکٹ میں ترمیم کروانا چاہتا تھا جو مسلم لیگ (ن) کے بقول ملکی سیاست میں سازشوں کے جال بن رہا تھا۔ لیکن اس کے باوجود پارٹی نہایت معصومیت سے اس ترمیم کے حق میں ووٹ ڈال دیتی ہے۔ سوال کیا جائے تو اسے قومی مفاد قرار دیا جائے گا۔ لیکن جب خود ہی ان دو نوں افراد کو ’ملکی مفاد کے برعکس کام کرنے والا‘ قرار دیا جاچکا ہو، تو کس جواز پر جنوری 2020 کے اس فیصلے کے لئے دلیل دی جائے گی۔ کیا اسے عوام کی کمر میں خنجر گھونپنے کے مترادف نہ سمجھا جائے؟
یہ بھی ممکن ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت ایک طرف عوام کو بااختیار بنوانے اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا کر لوگوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کررہی تھی لیکن دوسری طرف کسی نہ کسی سطح پر فوج کے ساتھ سیاسی ساز باز میں مصروف تھی تاکہ مستقبل کے مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔ اس کا پھل بھی اپریل 2022 میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور کروانے کے بعد شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوا کر وصول کرلیا گیا۔ خواجہ آصف کو جواب دینا چاہئے کہ کیا اپریل 2022 کے سیاسی منظر نامہ میں جنوری 2020 میں ہی رنگ بھرنا شروع کردیے گئے تھے؟ یا جنرل باجوہ کی توسیع میں سہولت کاری اس ’احسان ‘ کا بدلہ اتارنے کے کی گئی تھی جو انہوں نے نومبر 2019 میں کوٹ لکھپت جیل میں قید نواز شریف کو عمران خان کے چنگل سے نکال کر بیرون ملک ’فرار‘ کروانے کی صورت میں کیا تھا؟ خواجہ آصف منہ پھٹ اور بدکلام ضرور ہیں لیکن سارا سچ بولتے ہوئے ان کے بھی پر جلتے ہیں۔
اب یہ سچ سامنے آنا چاہئے۔ عوام کو معلوم ہونا چاہئے کہ جس وقت سیاسی پارٹیاں عوام کے سیاسی حقوق کے نام پر مہم جوئی کررہی ہوتی ہیں تو بند کمروں میں کہیں نہ کہیں کوئی سودے بازی بھی کی جارہی ہوتی ہے۔ اس سودے بازی کا سارا احوال بیان نہ کیا گیا تو آج نہیں تو مستقبل قریب میں اس کا کچا چٹھا سامنے آکر رہے گا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )