زمانہ طالب علمی کی بات ہے جب سرکاری طور پر لوگوں کے ”ایمان “ کو پرکھا نہیں جاتا تھا اور نہ ہی ملاؤ ں کی اتنی جرات تھی کہ کسی کو لٹھ کے زور پر ” ایمان ” سے فارغ کردیں ۔۔جب کرسمس آتاتو ہم لاہور کی مال روڈ پر واقع خوبصورت چرچ میں عیسائی بھایئوں کے ساتھ عبادت میں شریک ہوتے ، بسنت آتی تو بادامی باغ لاہور میں ایک ہندو مندر ہماری منزل ہوتی خوب تیاری سے مندر جاتے اور گھنٹیاں بجاتے کسی کی مجال نہیں تھی ہمارے ” ایمان ” پر سوال اٹھاۓ ۔۔ بابا گرونانک جی مہاراج کا جنم دن آتا تو ہندوستانی سکھوں کے کسی بھی جتھے میں شامل ہوجاتے اور ان کے ساتھ شاہی قلعے کے نزدیک رنجیت سنگھ کی سمادھی جاتے کبھی کبھی ننکانہ بھی چلے جاتے ، کراچی جانا ہوتا تو آغا خانی دوستوں کے ساتھ آغا خانی مرکز چلے جاتے کبھی ایمان نہ ڈگمگایا ۔۔ ایک دفعہ پارسیوں کے ” سائلنٹ ٹاور ” میں جاگھسے پارسیوں نے بہت آؤ بھگت کی ،معلومات دیں چاۓ پلائی اور گلے لگا کر رخصت کیا . ایک مخصوص مذہبی جنونی گروہ کی جانب سے ” زکریوں ” کے خلاف مہم شروع ہوئی تو ” تربت ” میں زکریوں کی عبادت گاہ چلے گئے اور ان کی عبادت میں شامل ہوۓ ، مجال ہے کسی زکری نے کوئی اختلافی مسئلہ چھیڑا ہو اور تو اور ایک بار اسلام آباد میں موجودگی کے باعث علم ہوا کہ 24 مئی کو مہاتما گوتم بدھ کا جنم دن آنے والا ہے جاپان سے بدھ بھکشوں کا ایک وفد ٹیکسلا آرہا ہے بس پھر کیا تھا بندہ ناچیز 24 مئی کی صبج ٹیکسلا میں موجود تھا وہاں بڑی تعداد میں ” بدھا ” کے پیروکار موجود تھے جو اپنی عبادات میں مشغول تھے ہم بھی ان کے ساتھ عبادت میں شامل ہوۓ کسی بھکشو نے یہ نہیں کہا تمہاری وجہ سے ہمارا ایمان بھرشٹ ہو رہا ہے یہاں سے ”دفع “ ہوجاؤ ۔۔۔
فیس بک کمینٹ