جولائی 2021 میں ڈسٹرکٹ ہسپتال خانیوال کے شعبہ ایمرجنسی میں شام کی ڈيوٹی پر تعینات تھی میں اور ایک ساتھی ڈاکٹر بمشکل مریضوں کا رش کنٹرول کرنے میں جتے ہوۓ تھے اور میں نے دو گھنٹے کی کوششوں کے بعد ایمرجنسی وارڈ میں بمشکل کچھ بستر نئے آنے والے مریضوں کے لیے خالی کر ائے تھے ۔۔کسی کو شفٹ کرایا چند کو ریفرکیا ۔۔بعض کی نگہداشت میں ردوبدل کیا کسی کی تشویش ناک حالت کے متعلق نرسنگ سٹاف کو خصوصی نصیحت کی sick notes ڈالے لواحقین کو آگاہ کیا چند ایک کو فوری بحالی کے بعد او پی ڈی میں معائنے کی تاکید کے ساتھ رخصت کا پرچہ بنا کے دیا اور معمولی مسائل کے ساتھ داخل مریضوں کو تفصیلاً تسلی اور تشفی سے سمجھایا کہ ہسپتال داخلے کی ضرورت نہیں۔۔۔ ساتھی ڈاکٹر ڈيوٹی روم میں نئے آنے والوں کو ٹریٹمنٹ دے رہے تھے۔۔۔۔اسی دوران ریسکیو 1122 ایمبولنس کی آمد کی مخصوص آواز آئی اور ہمارے تھکے ہوۓ جسم اور مصروف ذہن فوراً نئے مریض کو recieve کرنے کیلئے تیار ہو گئے کہ آنے والے کو فوری طور پر چیک کیا جاۓ کہ مريض کی کیفیت کس نوعیت کی ہے اور کسں طرح فوری طبی امداد پہنچانی ہے۔۔۔معمول کے مطابق اٹھ کر مریض کو فوراً دیکھا ،داخلہ فارم بنا کر مریض کی آمد کی وجہ اس کے ظہور اور دیگر علامات کی موجودگی اور تبدیلیوں کو درج کیا ادویات تجویز کیں خون اور دیگر جسمانی معاملات کی جانچ کیلئے ٹیسٹ کرنے کی نصیحت تحریر کی اور واپس سیٹ پر آئی تو ریسکیو اہلکار کو منتظر پایا مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا میم دو مریض لایا تھا دوسرا بھی دیکھ لیں یہ کہہ کر اس نے ایک پندرہ ، سولہ سالہ بچے کی طرف اشارہ کیا۔۔۔گول چہرہ عمر کی نسبت وزن اور صحت کم اور بدن زردیوں میں گھلا ہوا نقاہت کی وجہ سے چہرے پر صرف آنکھیں ہی آنکھیں نمایاں تھیں۔۔۔سہما سہما سا خاموش سا آنکھوں سے دل کے ہزاروں وسوسوں کا رنگ جھلکتا تھا۔۔۔۔دل ڈانوا ڈول ہوا لیکن اصول بھی ہاتھ باندھے کھڑے نظر آۓ۔۔۔میں نے پر ہجوم ایمرجنسی کی طرف دیکھا اور ریسکیو اہلکار کو کہا منہاس آپ جانتے ہیں یہ کنسلٹنٹ او پی ڈی کیس ہے آپ ان کو صبح آنے کا کہتے۔۔۔وہ آگے آيا اور کہنے لگا میم بہت ہی سادو لوح ہیں بچے کو دو ماہ سے بخار ہے یہ جانتے نہیں کہ کہاں اور کب معائنہ کرانا ہے آج ان کے محلے میں مریض لینے گئے تو ہم سے درخواست کرنے لگے ہمارے بچے کو بھی سرکاری ہسپتال لے چلو۔۔۔میں نے مرض دریافت کیا اور بخار کا سن کر او پی ڈی کا مشورہ ہی دیا لیکن ان کے اصرار پر جب گھر بچے کو ديکھنے گیا تو میں انکار نہیں کر سکا خون کی کمی واضح تھی اور گھر کے حالات ایسے تھے کہ مجھے نہیں لگتا گھر میں کھانے کے لیے بھی کچھ ہو گا ایسے میں دوا کہاں سے آسکتی ہے میں انکار نہیں کر سکا آپ کچھ کریں۔۔۔
اس ایک بات کے آگے تمام اصول ہار گئے ۔۔۔بچے کو داخل کیا اور بخار کش ادویات شروع کیں ساتھ ہی خون کے نمونے سرکاری لیبارٹری بھیجے۔۔۔خون کی رپورٹ اپنی جگہ ایک دل گرفتہ اور قابل توجہ معاملہ تھی۔۔۔خون کی طاقت یعنی HB صرف 2 تھی خون کے تمام خلیے خطرناک حد تک کم تھے۔۔۔بچے کی رپورٹ دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ میں نے چند ماہ پہلے ایک22 سالہ کم عمر لڑکی کو خون کی کمی کی تشخيص میں قلت وسائل کی وجہ سےتاخير ہونے پر اپنے سامنے زندگی ہارتے دیکھا تھا جس کا ایک سالہ بیٹا اور بے حد محبت کرنے والے شوہر کے آنسو آج بھی میرے دل میں ٹیس کی طرح اٹھتے ہیں۔۔ہم سب ڈاکٹرز نے اپنے تئيں اس کے بڑے ہسپتال میں پیچيدہ ٹیسٹوں کے لیے انتظامات بھی کر لیے تھے لیکن اس کو ہم تک پہنچنے میں دیر ہو چکی تھی ہم عائشہ کو نہیں بچا سکے تھے۔۔۔اس کمسن بچے کو دیکھ یہی لگا کہ ہمیں دوسرا موقع ملا ہے ہم اس بار کسی معصوم جان کو ایسے مرض سے جان گنوانے نہیں دیں گے جس سے بچاؤ ممکن ہے۔۔۔عبداللہ کو بچانا مشن بن گیا۔۔واٹس ایپ گروپ میں ساتھی ڈاکٹرز نے ایک دوسرے کو خبردار کیا کہ کوئی عبداللہ کو مکمل تشخيص کے بغیر گھر نہیں بھیجے گا۔۔کسی نے عبداللہ کے ضعیف العمر دادا کو چپکے سے پیسے تھماۓ کسی نے کھانے کی اشیا ملازم کے ہاتھ بھجوائی کسی نے مہنگے ضروری ٹیسٹ کے اخراجات اٹھاۓ کسی نے اپنا خون عطیہ کیا کسی نے خون کا انتظام کر دیا۔۔گویا وارڈ کا ہر اہلکار عبدالستار ایدھی بن گیا ۔
عبداللہ کے ساتھ صرف اس کے دادا تھے جو ٹیسٹ جمع کرانے اور رپورٹ وصول کرنے کی سمجھ بوجھ بھی نہیں رکھتے تھے۔۔ڈاکٹروں کی لگن دیکھ کر وارڈ کے درجہ چہارم کے ملازمین کے خون نے بھی جوش مارا ۔۔عبداللہ کے لیبارٹری اور بلڈ بنک کے کام اپنے ذمے لے لیے۔۔۔سب کی کاوشوں سے جب تمام سلسلہ وار ٹیسٹوں کی رپورٹیں وصول ہوئيں تو نتیجہ یہ آیا کہ عبداللہ کو folic acid اور vitamin B12 کی شدید کمی ہے جس وجہ خون بننے کا عمل تشویش ناک حد تک کم ہے۔۔۔ریسکیو اہلکار منہاس کی بات ثابت ہوگئ۔۔عبداللہ شدید غذا ئی قلت کی وجہ سے اس حال کو پہنچا تھا۔۔انتقال خون اور ادویات سے عبداللہ کے چہرے پر زردی اور خوف کی جگہ ایک شناسائی نے لے لی تھی۔۔ڈاکٹرز نے عبداللہ کے علاج کیلۓ تجویز کردہ تین ماہ کے ٹیکوں اور گولیوں کا انتظام بھی کر دیا جسے عبداللہ قبول کرتے ہوۓ ہچکچا رہا تھا بہت مشکل سے اسے ادویات وصول کرنے پر راضی کیا طریقہ استعمال سمجھایا اور فالو اپ کی تلقین کی۔۔۔عبداللہ جاتے ہوۓ شکریہ کہنے آیا تو مجھے سمجھ نہیں آيا کہ زيادہ خوش وہ ہے یا میں۔۔۔کتنے ہی عبداللہ اور عائشہ ہماری اجتماعی اور انفرادی غفلتوں کی وجہ سے غذ ا اور دوا سے محرومی کےباعث جگنو پکڑنے کی عمر میں اندھیری قبر میں جا سوتے ہیں لیکن ہمارا سویا ہوا قومی ضمیر نہیں جاگتا دوسری صرف یہ تجربہ بھی ہوا کہ اس دن منہاس کی نیکی اور ڈی ایچ کیو کے عملے کی انسانیت نے عبداللہ کی جان بچا کر پوری انسانیت کی جان بچا لی اور مجھے یقین آگيا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخيز ہےساقی ۔۔
عائشہ کے خون کا جو قرض مجھے اپنے دل پر محسوس ہوتا ہے اسے یکبارگی چکانا ممکن بھی نہیں اور خواہش بھی یہی ہے کہ قسط بہ قسط تمام زندگی میں يہ قرض ادا کرتی رہوں کہ اس ادائيگی سے جو سکون حاصل ہوتا ہے وہ خواب آور ادویات سے نہیں مل سکتا ۔۔۔خریدا نہیں جا سکتا ۔۔بیچا نہیں جا سکتا ۔۔۔ اور وہ سکون کوئی چھین بھی نہیں سکتا ۔