Close Menu
  • مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • عالمی خبریں
    • تجزیے
  • English Section
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • گوجرانوالا
      • سیالکوٹ
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
Facebook X (Twitter)
جمعہ, اکتوبر 24, 2025
  • پالیسی
  • رابطہ
Facebook X (Twitter) YouTube
GirdopeshGirdopesh
تازہ خبریں:
  • تحریک لبیک پر پابندی کا نوٹفیکیشن جاری : کالعدم جماعتوں کی فہرست میں شامل
  • ٹرمپ مودی "مْک مْکا” کے آثار : نصرت جاوید کا کالم
  • صاحبِ نقدِ ہنر ایاز صدیقی کاشعری رتبہ : امین جالندھری کا اختصاریہ
  • بلوچستان پولیس کے مغوی افسر کی لاش مل گئی: سات مزدور بھی اغوا ۔۔حکام
  • جمہوری سیاسی قیادت کا قحط : ارشد بٹ ایڈووکیٹ کا تجزیہ
  • پنڈی ٹیسٹ : جنوبی افریقا کی 18 سال بعد پاکستانی سرزمین پر فتح، سیریز 1-1 سے برابر
  • ٹی ایل پی پر پابندی عائد کرنے کی سفارش : اعلان آج ہی ہو گا : عظمیٰ بخاری
  • کسان کے "بھڑولے” کی گندم : نصرت جاوید کا کالم
  • سوری ارشد شریف : تیسری برسی پر حامد میر کا کالم
  • بخشیش دو یا بخشو بنو : وسعت اللہ خان کا کالم
  • مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • عالمی خبریں
    • تجزیے
  • English Section
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • گوجرانوالا
      • سیالکوٹ
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
GirdopeshGirdopesh
You are at:Home»تجزیے»سیدمجاہد علی کا تجزیہ عمران خان بتائیں ۔۔ فوج سے بات چیت میں کون سا قومی مفاد حاصل ہوگا؟
تجزیے

سیدمجاہد علی کا تجزیہ عمران خان بتائیں ۔۔ فوج سے بات چیت میں کون سا قومی مفاد حاصل ہوگا؟

رضی الدین رضیمئی 30, 202526 Views
Facebook Twitter WhatsApp Email
Share
Facebook Twitter WhatsApp Email

عمران خان نے ایک بار پھر اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کی پیش کش کو دہرایا ہے اور کہا ہے کہ وہ قومی مفاد میں غیر مشروط بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس سے قبل ان کی ہمشیرہ علیمہ خان کہہ چکی ہیں کہ عمران خان ’کچھ لو کچھ دو‘ کی بنیاد پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ اس فقرے کے ذریعے علیمہ خان درحقیقت عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کررہی تھیں جو اگست 2023 سے قید ہیں۔
اب تحریک انصاف کے لیڈر بیرسٹر علی ظفر نے اڈیالہ جیل میں عمران خان کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا ہے کہ تحریک انصاف کے بانی کوئی ڈیل نہیں کرنا چاہتے بلکہ قومی مفاد میں اتحاد کے نقطہ نظر سے اسٹبلشمنٹ یا فوج سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ بیرسٹر علی ظفر کے مطابق عمران خان نے اگر کوئی رعایت لینی ہوتی تو وہ بہت پہلے معاملات طے کرچکے ہوتے۔ وہ تو صرف قومی مفاد میں بات چیت کے دروازے کھلےرکھے ہوئے ہیں کہ کوئی چاہے تو بات کرلے۔
تحریک انصاف اور عمران خان اس وقت مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ ایسے وقت میں عمران خان پر تنقید کرنے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ انہیں ہمدردی اور سہولت کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ سہولت وہ خود اپنے طرز عمل سے حاصل کرسکتے ہیں۔ وہ جس دن سے قید ہوئے ہیں ، ان کی طرف سے دباؤ کی دھمکی کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھلا رکھنے کی بات کی گئی ہے۔ اس دوران میں تحریک انصاف کے سرگرم کارکنوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے حکومت ہی نہیں بلکہ فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف ہر قسم کی جھوٹی سچی خبریں پھیلائیں اور انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی۔ حتی کہ بھارت کے ساتھ حالیہ جھڑپوں سے پہلے اور دوران بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ البتہ جب 10 مئی کو پاکستانی سپاہ نے بھارت کو فیصلہ کن ضرب لگائی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعے جنگ بندی ہوگئی تو عمران خان اور تحریک انصاف نے بھی انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کی اور بھارت کے خلاف اور پاک فوج کی حمایت میں بیانات جاری ہوئے۔
یہ بات قابل فہم ہے کہ پونے دو سال تک قید رہنے اور سینکڑوں مقدمات کا سامنا کرنے کی صورت حال میں اعصاب جواب دینے لگتے ہیں۔ تاہم عمران خان نے مسلسل حوصلہ مندی کا ثبوت دیاہے اور کوئی ایسی ڈیل نہیں کی جس کی وجہ سے ان پر انگلی اٹھائی جاسکے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے شروع دن سے ہی کسی بھی طرح فوج کے ساتھ تعلق استوار کرنے کی کوشش کی جو فیلڈ مارشل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے بعد سے تعطل کا شکار ہے۔ گویا اگر ڈیل نہیں ہوئی تو اس میں عمران خان کا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ فوج اس طرف آنے پر آمادہ نہیں ہوئی۔
عمران خان اور ان کی پارٹی ملک میں جمہوریت کی بحالی، منتخب حکومت کے قیام اور بنیادی حقوق کے احترام کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس کے لیڈر وقتاً فوقتاً اعلان بھی کرتے رہتے ہیں کہ اس سے کم پر کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ تحریک انصاف مسلسل موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے اور اسے جعل سازی کے ذریعے مسلط شدہ حکومت کہتی ہے۔ البتہ عمران خان اور ان کے ساتھ ابھی تک اس صورت حال سے نکلنے کے لیے کوئی حکمت عملی سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ان کی واحد امید یہی ہے کہ کسی طرح فوج کے ساتھ مراسم بحال ہوجائیں اور عسکری قیادت شہباز شریف کی بجائے عمران خان کو ملک کا ’غیر متنازعہ لیڈر‘ قبول کرلے۔ اس صورت میں تحریک انصاف کے سارے گلے شکوے دور ہوجائیں گے۔ لیکن یہ مقصد حاصل کرنے کا کوئی ایکشن پلان موجود نہیں ہے۔ شروع میں اسلام آباد پر دھاوے بول کر موجودہ حکومت کو کمزور کرنے یا بھگانے کی کوششیں کی گئی تھیں لیکن ایسی ہر کوشش ناکام رہی ۔
عمران خان اور تحریک انصاف نے اب تک انتشار پھیلانے، حکومت کو عاجز کرنے اور پارلیمنٹ کے اندر و باہر عدم تعاون کے ذریعے نظام تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کوششوں میں ترپ کا پتہ اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کی پیش کش ہے۔ حالانکہ یہ پیش کش اگر اسٹبلشمنٹ کی طرف سے آئے ، تب ہی بارآور ہوسکتی ہے۔ کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے ایسی پیشکش کی کوئی سیاسی، اخلاقی یا قانونی اہمیت نہیں ہے۔ اگرچہ سابق آرمی چیف اور عمران خان کے سابق ’سرپرست‘ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے اپنے عہدے کے آخری دنوں میں اعلان کرنا شروع کردیا تھا کہ فوج نے اب سیاست میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ البتہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے آرمی چیف بننے کے بعد سے اس اصول پر اس حد تک عمل کیا ہے کہ انہوں نے سیاسی لیڈروں سے ملاقاتیں کرنے یا میڈیا کے نمائیندوں کے ساتھ امور حکومت پر تبادلہ خیال کا سلسلہ بند کردیا ہے۔ فوج کی طرف سے واضح کیا جاتا ہے کہ جو سیاسی پارٹی بھی فوج سے بات کرنا چاہتی ہے، اسے حکومت سے رابطہ کرنا چاہئے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود رہے گی کہ اس وقت ملکی سیاسی، انتظامی اور معاشی معاملات میں فوج حکومت کے ساتھ برابر کی شراکت دار ہے اور تمام اہم فیصلوں میں شامل ہے۔ یا شاید اس بات کو یوں کہنا مناسب ہوگا کہ حکومت ہر قیمت پر فوج کو خوش رکھنا چاہتی ہے اور کسی معاملہ کو اصولی یا وقار کا مسئلہ بنا کر کوئی اختلاف پیدا کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے شہباز شریف فوج کے لیے آئیڈیل وزیر اعظم ہیں۔ ایسے وزیر اعظم کی موجودگی میں فوج دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ راہ و رسم کیوں بڑھائے گی؟
اس معاملہ کو جمہوری و قانونی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بھی عمران خان کا رویہ ناقابل قبول ہے۔ اگر وہ ملک میں عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس راستے میں اسٹبلشمنٹ سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو وہ اسی کے ساتھ بات چیت میں کون سا مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے یا تو سیاسی جد و جہد کی جائے اور نئے انتخابات کا انتظار کیا جائے۔ یا حکومت کے ساتھ بات چیت میں کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش ہو ۔ اگر یہ دونوں کام ممکن نہ ہوں تو پھر عدالتوں کے دروازے کھلے ہیں۔ تحریک انصاف متعدد بار عدالتوں کو فریق بنانے کی کوشش بھی کرچکی ہے لیکن موجودہ تنازعہ عدالت کو فریق بنا کر حل نہیں ہوگا بلکہ اس سے قانون و آئین کے مطابق انصاف مانگنے سے طے ہوسکے گا۔ البتہ عدالت سے انصاف مانگتے ہوئے یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ ہو، اسے منظور کیا جائے گا۔ حکومت نے بھی عدالتوں کے متعدد سیاسی فیصلے قبول نہیں کیے لیکن تحریک انصاف کا ریکارڈ بھی اس حوالے سے اچھا نہیں ہے۔
تحریک انصاف کی ایک بڑی غلطی بیک وقت دو طرح کے اشارے دینا بھی ہے۔ اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت کی خواہش کرتے ہوئے ، دھمکیوں و دباؤ کی زبان استعمال کرنے کی کوششش کی جاتی ہے۔ جیسا کہ اس وقت ایک طرف قومی مفاد کی بات کرتے ہوئے اپنے لیے ’انصاف‘ مانگا جارہا ہے اور اسٹبلشمنٹ کو بات چیت کی دعوت دی جارہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔ علیمہ خان ’کچھ لو کچھ دو‘ کی بات کرتی ہیں۔ لیکن سینیٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ ہم تو صرف قومی اتحاد کے لیے اسٹبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ اس قومی اتحاد کے لیے عمران خان اور تحریک انصاف حکومت یا دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ کیوں بات چیت نہیں کرتے؟ کیا اس کی واحد وجہ یہ نہیں ہے کہ عمران خان اسٹبلشننٹ سے ویسی ہی سیاسی مراعات چاہتے ہیں جو انہیں 2018 کے انتخاب کے دوران اور پہلے حاصل ہوئی تھیں؟
عمران خان کو سمجھنا چاہئے کہ سیاسی معاملات سیاسی شراکت داروں کے ساتھ بات چیت سے ہی حل ہوسکتے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ اس معاملہ میں فریق نہیں ہے اور نہ ہی سیاسی پارٹیوں کو اسے فریق بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ آج تک ملک میں فوج اور سیاست کے حوالے سے جتنی خرابی دیکھنے میں آئی ہے، اس کی ایک ہی وجہ نوٹ کی جاسکتی ہے کہ سیاسی لیڈر اپنے مفاد کے لیے فوج کو فریق بناتے ہیں اور اس کے بعد سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کرتے ہیں۔ یہ کام ماضی قریب میں عمران خان کرچکے ہیں اور اب شہبا ز شریف کررہے ہیں۔ نہ عمران خان سیکھنا چاہتے ہیں کہ اسٹبلشنٹ سے سیاسی بات چیت کرکے اسے فریق نہ بنایا جائے اور نہ شہباز شریف یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان کو سیاسی مخالفت کی بنیاد پر قید رکھ کے ملک میں نہ جمہوریت آئے گی اور نہ ہی سیاسی استحکام پیدا ہوگا۔
حالیہ پاک بھار جنگ کے بعد تحریک انصاف کی سیاسی پوزیشن مزید کمزور ہوئی ہے۔ سیاسی احتجاج کے دعوؤں اور فوج کو رجھانے کی کوششوں میں اسے مزید خراب نہ کیا جائے۔ عمران خان کے لئے سب سے بہتر حکمت عملی یہی ہوگی کہ وہ عدالتوں سے ریلیف کی کوشش کریں اور حکومت کو جلد انتخابات پر راضی کیا جائے۔ اس دوران تحریک انصاف کی تنظیم سازی کی جائے اور اپنے ووٹر کو مایوس ہونے سے بچایا جائے۔ اگر پی ٹی آئی کا ووٹر مایوس ہوکر تتر بتر ہوگیا تو ایک بار پھر اقتدار حاصل کرنے کا خواب بھی منتشر ہوجائے گا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )

فیس بک کمینٹ

  • 0
    Facebook

  • 0
    Twitter

  • 0
    Facebook-messenger

  • 0
    Whatsapp

  • 0
    Email

  • 0
    Reddit

آرمی چیف جنرل عاصم منیر عمران
Share. Facebook Twitter WhatsApp Email
Previous Articleاسرائیل نے غزہ جنگ بندی کیلئے امریکا کی نئی تجویز پر دستخط کر دیے: وائٹ ہاؤس کا اعلان
Next Article وزارت ریلوے نے ریکارڈ 17 ہزار سے زائد اسامیاں ختم کر دیں
رضی الدین رضی
  • Website

Related Posts

جمہوری سیاسی قیادت کا قحط : ارشد بٹ ایڈووکیٹ کا تجزیہ

اکتوبر 23, 2025

علیمہ خان کے چوتھی بار ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری: ’ وہ روپوش ہیں تو میڈیا ٹاکس کیسے کرتی ہیں ؟ ‘ عدالت

اکتوبر 22, 2025

تحریک انصاف کے خلاف پاک فوج کا جواب دعویٰ : سید مجاہد علی کاتجزیہ

اکتوبر 11, 2025

Comments are closed.

حالیہ پوسٹس
  • تحریک لبیک پر پابندی کا نوٹفیکیشن جاری : کالعدم جماعتوں کی فہرست میں شامل اکتوبر 24, 2025
  • ٹرمپ مودی "مْک مْکا” کے آثار : نصرت جاوید کا کالم اکتوبر 24, 2025
  • صاحبِ نقدِ ہنر ایاز صدیقی کاشعری رتبہ : امین جالندھری کا اختصاریہ اکتوبر 24, 2025
  • بلوچستان پولیس کے مغوی افسر کی لاش مل گئی: سات مزدور بھی اغوا ۔۔حکام اکتوبر 24, 2025
  • جمہوری سیاسی قیادت کا قحط : ارشد بٹ ایڈووکیٹ کا تجزیہ اکتوبر 23, 2025
زمرے
  • جہان نسواں / فنون لطیفہ
  • اختصاریئے
  • ادب
  • کالم
  • کتب نما
  • کھیل
  • علاقائی رنگ
  • اہم خبریں
  • مزاح
  • صنعت / تجارت / زراعت

kutab books english urdu girdopesh.com



kutab books english urdu girdopesh.com
کم قیمت میں انگریزی اور اردو کتب خریدنے کے لیے کلک کریں
Girdopesh
Facebook X (Twitter) YouTube
© 2025 جملہ حقوق بحق گردوپیش محفوظ ہیں

Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.