ڈھاکہ : بنگلہ دیش میں اگلے سال عام انتخابات ہوں گے لیکن اس سے قبل ڈھاکہ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی جیت نے ایک نئے رجحان کی جانب اشارہ کیا ہے جسے انڈیا میں تشویش کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔
بنگلہ دیش کی ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے انتخابات کے نتائج کا اعلان بدھ کو کیا گیا تھا جس میں جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ کے حمایت یافتہ پینل نے بڑی کامیابی حاصل کی۔ دوسری جانب بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے لیے یہ نتائج مایوس کن رہے۔
ماہرین کے مطابق 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کسی اسلامی طلبہ تنظیم نے اتنی بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر منجری سنگھ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے انتخابات کے نتائج کو جماعت اسلامی کے لیے بہت اہم سمجھتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ڈھاکہ یونیورسٹی کو بنگلہ دیش میں ایک بہت ترقی پسند یونیورسٹی سمجھا جاتا ہے اور جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ کے امیدواروں کی جیت کا مطلب ہے کہ ایک بنیاد پرست تنظیم نے ترقی پسند یونیورسٹی میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔‘
ماہرین کے مطابق جماعت اسلامی کو اس وقت بنگلہ دیش میں ایک مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن میں فارن پالیسی کے نائب صدر پروفیسر ہرش وی پنت کہتے ہیں کہ ’اگر ہم معاشرے میں جماعت اسلامی کے کردار کو دیکھیں تو آج یہ ایک مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر نظر آتی ہے، جب کہ اس سے قبل صرف دو بڑی سیاسی قوتیں جیسے عوامی لیگ اور بی این پی نظر آتی تھیں۔‘
پروفیسر ہرش وی پنت کا کہنا ہے کہ ’عوامی لیگ کا اب کوئی اثرورسوخ باقی نہیں ہے اور بی این پی میں قیادت کا بحران ہے۔‘
کیا بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی اقتدار میں آ سکتی ہے؟
عام انتخابات سے قبل ملک کی بڑی یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ کی جیت اس بات کا اشارہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بنیاد پرست اسلامی رہنماؤں کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔
ہرش پنت کہتے ہیں کہ ’اگرچہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے انتخابات سے بنگلہ دیش کے سیاسی مزاج کے بارے میں کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے لیکن جماعت اسلامی نے عوامی لیگ اور بی این پی جیسی مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے ٹوٹنے سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کیا ہے۔‘
جنوبی ایشیائی ممالک میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی پر زور دیتے ہوئے ڈاکٹر منجری سنگھ کہتی ہیں کہ ’آج کے دور میں کسی بھی ملک کی ترقی اور سیاست میں نوجوانوں کی شرکت بہت ضروری ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ایسی صورت حال میں ایک بنیاد پرست تنظیم کے یوتھ ونگ کی جیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کی نوجوان آبادی کا زیادہ تر حصہ اس تنظیم کے نظریے سے متفق ہے اور اس سے متاثر بھی ہو رہا ہے۔‘
ڈاکٹر منجری سنگھ کے مطابق ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کی اکثریتی آبادی میں جماعت اسلامی نے اپنا تسلط قائم کر لیا ہے۔
2017 میں بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے جماعتِ اسلامی کے چھ ارکان کو 1971 کی پاکستان کے خلاف جنگِ آزادی کے دوران جنگی جرائم کے لیے موت کی سزا سنائی تھی۔
اس سے صرف ایک سال قبل جماعت اسلامی کے امیر 72 سالہ مطیع الرحمان نظامی کو سنہ 1971 کی جنگ آزادی کے دوران جنگی جرائم کے ارتکاب پر پھانسی دے دی گئی تھی۔
مطیع الرحمان نظامی 1971 میں جماعت اسلامی کی ایک ذیلی تنظیم سے منسلک تھے اور ان پر الزام تھا کہ انھوں نے ‘البدر’ نامی ملیشیا کے کمانڈر کے حیثیت سے آزادی پسند بنگالی کارکنوں کی نشاندہی کرنے اور انھیں ہلاک کرنے میں پاکستانی فوج کی اعانت کی تھی۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )

