ہماری زمین سے قتل کا تعلق بہت ہی پرانا ہے۔ دھرتی پر سب سے پہلاقتل ہابیل کا تھا‘ جسے قابیل نے قتل کیا۔ گویا ابھی انسان کو زمین پر آئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ قتل کی ابتدا ہو گئی‘ پھر تو بس چل سو چل تھا۔ انفرادی قتل سے اجتماعی قتل تک۔ طاقت‘ حکومت اور زمین کے حصول کے لیے کی جانے والی جنگیں۔ حقیقی اور خود ساختہ دشمنوں کا قتل عام‘ لیکن عموماً قتل کا تعلق مخالف یا متحارب گروہ‘ فریق‘ ملک‘ قوم یا ریاست کے خلاف ہوتا ہے۔جنگ عظیم اوّل اور د±وم اس کی سب سے بڑی مثال ہیں‘ لیکن کبھی کبھار یہ قتل عام اپنے لوگ اپنے ہی لوگوں کے خلاف کرتے ہیں۔
دنیا میں اس حوالے سے سب سے ہولناک تین سال آٹھ ماہ اور بیس دن کمبوڈیا کی عوام نے دیکھے ہیں۔ یہ کمبوڈیا کے کمیونسٹ رہنما سالوتھ سار (Saloth Sar) المعروف پول پاٹ کے اقتدار کے دن تھے۔ 17 اپریل 1975ءکو پول پاٹ نے جنرل لان نول کی حکومت کے خلاف جاری گوریلا جنگ کے ذ ریعے کمبوڈیا کے دارالحکومت نام پنہہ (Phnom Penh) پر قبضہ کر لیا۔ جنرل لان نول نے کمبوڈیا کے بادشاہ نورو ڈم سمدک سہانوک کی حکومت کا تختہ الٹ کر 18 مارچ 1970ءکو حکومت پر قابض ہو گیا اور تقریباً پانچ سال کمبوڈیا کے سیاہ سفید کا مالک رہا ؛ تاوقتیکہ سابقہ موٹر مکینک اور کمیونسٹ رہنما پول پاٹ نے کمبوڈیا کی حکومت پر قبضہ کر لیا۔ یہ گوریلا جنگ کھمیر روج‘ یعنی کمبوڈیا کی سرخ پارٹی نے پول پاٹ کی سربراہی میں جیت کر ملک میں کمیونسٹ حکومت قائم کر دی۔ کھمیر "Khmer” کمبوڈیا کی غالب اکثریت نسلی آبادی کا نام ہے اور ”روج“ سے مراد سرخ‘ یعنی کمیونسٹ پارٹی تھا۔ ان تین سال آٹھ ماہ اور بیس دن میں ایک اندازے کے مطابق بیس سے تیس لاکھ کمبوڈین عوام کا قتل ہوا۔ تب کمبوڈیا کی کل آبادی اسی لاکھ تھی‘ یعنی ملک کی کل آبادی کا پچیس فیصد سے پینتیس فیصد قتل کر دیا گیا۔ یہ اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں آبادی کی شرح کے حساب سے دنیا کا سب سے بڑا اور ہولناک قتل عام تھا۔
میں اس قتل عام کے حوالے سے نام پنہہ میں قائم Tuol Sleng Genocide Museumمیں جانا چاہتا تھا اور نام پنہہ کے نواح میں واقع ایک میدان میں جو کبھی باغ تھا اور بعد ازاں قتل عام اور اجتماعی قبروں کے حوالے سے عالمی شہرت کا حامل Choeung Ek المعروف Killing Field کو دیکھنا چاہتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ میرے دونوں بچوں کو شاید ان دونوں چیزوں سے دلچسپی نہ ہو ‘اس لیے میں نے انہیں صاف کہہ دیا کہ اگر وہ خوش دلی سے میرے ساتھ جانا چاہیں تو ٹھیک ہے ‘وگرنہ ان کے لیے کوئی مجبوری یا پابندی نہیں کہ وہ میرے ساتھ ان دونوں جگہوں پر جائیں۔ میرے لڑکپن کی یادوں میں ابھی تک وہ خبریں تازہ تھیں جب پول پاٹ نے جنرل لان نول کا تختہ الٹ کر‘ بلکہ گوریلا جنگ جیت کر کمبوڈیا پر قبضہ کیا۔ تب کمبوڈیا کے بادشاہ پرنس سہانوک کا تختہ الٹنے والے جنرل لان نول کو امریکی آشیر باد حاصل تھی اور جنرل لان نول کے خلاف پول پاٹ کی گوریلا جنگ کو چین اور معزول بادشاہ سہانوک کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ یہ عالمی طاقتوں کی باہمی لڑائی تھی‘ جس کی نذر کمبوڈیا کے لاکھوں بے گناہ لوگ ہو گئے۔ اسد نے چھوٹتے ہی کہا کہ وہ کمبوڈیا آنے سے قبل کھمیر روج بارے کچھ نہ کچھ گوگل پر دیکھ چکا ہے‘ اس لیے وہ ہر حال میں میرے ہمراہ ان دونوں جگہوں پر جائے گا۔ انعم نے بھی کہا کہ وہ بھی ہمارے ہمراہ دونوں جگہوں پر جانا چاہتی ہے۔
ہمارا خیال تھا کہ ہم دونوں جگہیں ایک ہی دن میں دیکھ لیں گے‘ اس لیے پہلے ہم کلنگ فیلڈ چلے گئے۔ یہ نام پنہہ سے قریب سترہ اٹھارہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ کسی زمانے میں یہ باغ تھا‘ لیکن پول پاٹ کے دور میں یہ جگہ قتل گاہ اور مقتولین کو دفنانے کے لیے استعمال ہوئی۔ سارے کمبوڈیا میں اس قسم کے تقریباً بیس ہزار مقامات ہیں ‘جو اجتماعی قتل اور اجتماعی قبروں کے حوالے سے دریافت ہوئے۔ یہ کلنگ فیلڈ پورے کمبوڈیا میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ''چوئیونک ایک“ قتل گاہوں اور اجتماعی قبروں والے ان بیس ہزار مقامات میں سے ایک اور سب سے مشہور ہے۔ صرف اس ایک جگہ سے ملنے والی اجتماعی قبروں میں سے آٹھ ہزار آٹھ سو پچانوے لوگوں کی باقیات ملی ہیں۔ ان نو ہزار کے لگ بھگ لوگوں میں نوجوان‘ بوڑھے‘ عورتیں اور بچے تمام شامل ہیں۔ سینکڑوں عورتوں کے ساتھ ان کے بچے بھی ان اجتماعی قبروں سے نکلے ہیں۔ اس جگہ پر دو اجتماعی قبروں کے گرد لکڑی کا جنگلہ لگایا ہوا ہے۔ سب سے بڑی اجتماعی قبر سے چار سو پچاس مقتولین کی ہڈیاں نکلی تھیں‘ جبکہ دوسری نشان زدہ قبر سے ایک سو چھیاسٹھ انسانی ڈھانچے نکلے تھے۔ وہاں پر ایک درخت تھا جس پر لوگوں کو رسی سے لٹکا کر پھانسی دی جاتی تھی۔ ایک اور درخت تھا‘ جس کے تنے پر شیر خوار اور چھوٹے بچوں کو ٹانگوں سے پکڑ کر ان کا سر اس درخت کے تنے پر مار کر انہیں موت کے گھاٹ اتارا جاتا تھا۔ اس درخت پر یہاں آنے والوں نے رنگین ربن اور دھاگے لٹکا کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔
ایک جگہ پر ابھی بھی ایک ڈھانچہ آدھا زمین میں اور آدھا اوپر نکلا ہوا پڑا ہے اور اس کے اوپر شیشے کا شوکیس لگایا ہوا ہے۔ ایک اور شیشے کے شوکیس میں مقتولین کے کپڑے پڑے ہیں‘ جن میں کئی چھوٹے چھوٹے کپڑے بتاتے ہیں کہ اس جگہ قتل ہونے والوں کی عمریں کتنی چھوٹی تھیں‘ جو صرف اپنے ماں باپ کے ناکردہ گناہوں کے طفیل موت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ لکڑی کے چھوٹے سے شیڈ کے نیچے دو شو کیس ہیں‘ جن میں یہاں سے نکلنے والی تازہ ہڈیاں رکھی ہوئی ہیں۔ گائیڈ بتا رہا تھا کہ اس سارے میدان میں ہر جگہ مقتولین دفن ہیں اور اجتماعی قبروں کی دریافت کے باوجود ابھی بھی بارش کے بعد بعض جگہوں سے انسانی ڈھانچے اور ہڈیاں نکل آتی ہیں۔ یہ ہڈیاں وہ ہیں‘ جو تازہ دریافت ہوئی ہیں۔
ایمانداری کی بات ہے کہ میں اس جگہ پر بہت افسردہ اور ملول ہوا۔ یہی حال بچوں کا تھا۔ اسد اور انعم بار بار ایک ہی سوال کر رہے تھے کہ ان لوگوں کا کیا قصور تھا؟ عورتوں اور بچوں کو کس جرم کی سزا دی گئی؟ قتل کرنے والوں کو رحم نہیں آتا تھا؟ عورتوں بچوں اور بے گناہوں کی منتیں‘ آہ زاری اور آہ و بکا سے ان کے دل نرم نہیں پڑتے ہوں گے؟ کیا کوئی انسان ‘جس کے سینے میں دل ہو ‘اتنا شقی القلب ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے سامنے جیتے جاگتے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ ان تمام سوالات کا کوئی منطقی جواب تو نہیں دیا جا سکتا‘ سوائے اس کے کہ ایسا صرف ذہنی بیمار ہی کر سکتا ہے۔ تشدد پسند اور اذیت پسند ذہنی بیمار۔
میں گھر آ کر انہیں اس بارے تفصیل سے کچھ بتانا چاہتا تھا کہ نیٹ کے ذریعے ساہیوال میں چار بے گناہوں کے قتل کی خبر نظر سے گزری۔ چار اور تیس لاکھ لوگوں کے قتل میں کوئی مقابلہ نہیں‘ لیکن یہ اس ذہنی کیفیت کی نشاندہی کرتا ہے‘ جو سی ٹی ڈی کے ان اہلکاروں اور پول پاٹ اور اس کے حواریوں کے درمیان یکساں ہے۔ یہ ایک ذہنی میلان کی بات ہے ‘وگرنہ فرق صرف اس طاقت کا ہے‘ جو دونوں کو حاصل ہے۔ پول پاٹ اینڈ کمپنی کے پاس تیس لاکھ لوگوں کو قتل کرنے کی طاقت تھی‘ سو انہوں نے تیس لاکھ لوگ قتل کر دیے۔ سی ٹی ڈی کے ان اہلکاروں کے پاس چار لوگوں کو قتل کرنے کی طاقت تھی ‘انہوں نے یہ چار بے گناہ مار دیے۔ تیرہ سالہ بچی کو درجن بھر گولیاں مار دیں۔ ''ریاست مدینہ“ میں اس قتل کی ایف آئی آر کٹوانے کے لیے لوگوں کو سڑک بلاک کرنی پڑی۔
''ریاست مدینہ“ میں بمشکل ایف آئی آر درج ہوئی تو سنا ہے کہ یہ ایف آئی آر سولہ افراد کے خلاف کٹی ہے۔ قاتل چار تھے اور ایف آئی آر سولہ لوگوں کے خلاف درج ہوئی ہے۔ یہ وہ حربے ہیں‘ جو اصل چار قاتلوں کو بعد ازاں شک کا فائدہ دیں گے۔ یہ بالکل سادہ سا کیس ہے کہ کس نے حکم دیا اور کس نے گولی چلائی؟بس یہ دو ڈائریکٹ ملزم ہیں اور دو اِن ڈائریکٹ ملزم ہیں۔ متعلقہ ایس پی اور آئی جی پولیس پنجاب کہ وہ اپنی فورس کو قابو کرنے میں مکمل ناکام ہوئے ہیں۔ ایس پی اور آئی جی کو تو بلاتاخیر نوکری سے برخواست کر دینا چاہیے کہ اس کا یہی کم سے کم حل ہے اور صرف اسی صورت میں ہی آئندہ کے لیے ایسے واقعات کا سدباب ہو سکتا ہے۔
بہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ سولہ افراد کے خلاف ایف آئی آر کا کیا مقصد ہے؟ ایسی صورت میں شک کا سارا فائدہ ملزمان کو ملے گا۔ بالکل ویسے ہی جیسا کہ ہمارے ہاں عموماً ایسی ایف آئی آرز کا نتیجہ نکلتا ہے۔ مجرم نمبر ایک وہ ہے‘ جس نے حکم دیا اور مجرم نمبر دو وہ ‘جنہوں نے گولیاں چلائیں۔ یہ صرف چار لوگ تھے‘ باقی بارہ کو کس لیے ایف آئی آر میں باراتی بنایا جا رہا ہے؟
یہ ''ریاست مدینہ“ کا ایک اور ٹیسٹ کیس ہے۔ دیکھتے ہیں‘ ساہیوال کے نزدیک والے اس کلنگ فیلڈ کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ