پاکستانی الیکشنز کے بعد پاکستان کے لیے سب سے اہم الیکشن امریکی الیکشن ہوتا ہے۔ پاکستان کی ساری اقتصادی پالیسی‘ سیاسی اتار چڑھائو اور خاص طور پر خارجہ پالیسی کا انحصار تو پاکستانی فارن آفس سے زیادہ کچھ اداروں اور پینٹاگون پر ہوتا ہے اس لیے میرے نزدیک امریکی الیکشن صرف امریکی الیکشن نہیں کہ دنیا کے دیگر الیکشنز کی طرح ہم ان سے لا تعلق ہوں تو ہمیں کوئی فرق نہ پڑے۔ امریکی اور بھارتی انتخابات براہ راست پاکستان کو متاثر کرتے ہیں اس لیے ان پر پوری طرح نظر رکھنی چاہئے۔ بلکہ یوں سمجھیں کہ دونوں انتخابات پاکستان کے منی الیکشن ہوتے ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ بھارت میں مودی کی جیت کے امکانات ابھی بھی روشن ہیں اور اس کی بنیادی وجہ بھی وہی ہے جو امریکہ میں ٹرمپ کو حاصل ہے۔ کانگریس کے پاس بھی کوئی کرشماتی لیڈر ایسا نہیں جو مودی کا توڑ ہو۔ گاندھی خاندان کا راہول اس وقت کانگریس کا مرکزی گھوڑا ضرور ہے مگر وہ بہر حال Winning Horse ہرگز نہیں ہے۔ پریانکا کانگریس کی جانب سے یہ کردار سر انجام دے سکتی تھی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ سو اب مودی کو اور اس کے روحانی کزن ٹرمپ کو اپنے آئندہ الیکشن میں مخالفین کی طرف سے تقریباً خالی میدان فراہم کر کے ان کی مدد کی جا رہی ہے۔
تاریخ میں شاید چار یا پانچ ہی امریکی صدر ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنی دوسری ٹرم کے لیے الیکشن لڑا ہو اور وہ ہار گئے ہوں وگرنہ یوں سمجھیں کہ دوسری ٹرم کے لیے امریکی صدر کے جیتنے کے امکانات نوے فیصد ہوتے ہیں بشرطیکہ کوئی غیر معمولی آفت نہ ٹوٹ پڑے۔ دوسری ٹرم ہارنے والے ان چار پانچ امریکی صدور کی شکست کی واحد وجہ یہ کہ ان کے زمانے میں امریکی معیشت کا کباڑا نکل گیا تھا۔ سو امریکیوں نے الیکشن میں ان کا کباڑا کر دیا۔ فی الوقت امریکہ میں صورتحال یہ ہے کہ بالکل غیر روایتی اور اپنی حرکتوں کے حساب سے سلجھے ہوئے امریکیوں کے لیے باعث شرم جناب ڈونلڈ ٹرمپ کے گزشتہ ساڑھے تین سال کے لگ بھگ عرصہ اقتدار میں امریکی معیشت مسلسل بہتری کی طرف گامزن رہی ہے اور ابھی بھی اوپر جا رہی ہے۔ بے روزگاری کم ہوئی ہے ۔لوگوں کی تنخواہوں میں بہتری آئی ہے اور قوم پرست امریکی اس کے تارکین وطن کے خلاف اقدامات اور میکسیکو کے بارڈر پر دیوار بنانے جیسے احمقانہ فیصلوں سے بے انتہا خوش ہیں۔ لہٰذا اس کے حامیوں میں گزشتہ انتخابات کی نسبت اضافہ ہوا ہے۔
حالت یہ ہے کہ پراپرٹی ٹائیکون امریکی صدارت کو بھی اسی طرح چلا رہا ہے جیسے وہ اپنا کاروبار چلاتا تھا اور بقول امریکیوں کے اس کا تب بھی پسندیدہ جملہ FIRE HIM تھا اور اب بھی اس کا پسندیدہ جملہ یہی ہے۔ یعنی ”اسے فارغ کر دو‘‘۔ امریکہ میں پراپرٹی کا بزنس مافیا سے بنائے بغیر چلانا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اور ٹرمپ اس سلسلے میں مافیا سے کام چلانے کے حوالے سے خاصا بدنام تھا۔ خواتین سے سکینڈل تو بالکل معمولی بات ہے۔ ٹرمپ کے آنے سے قبل یہ تصور ہی محال تھا کہ کسی امریکی صدارتی امیدوار کا پیشہ ور طوائفوں سے تعلق ہو اور وہ اس کا اقرار بھی کرتا ہو لیکن ٹرمپ نے یہ کارنامہ بھی کر دکھایا۔ صدارت کے بعد کئی طوائفوں اور بالغ فلموں کی اداکاراؤں نے ٹرمپ پر تعلقات کا دعویٰ کر دیا۔ لیکن ایسے معاملات کو ہینڈل کرنے کے ماہر ٹرمپ نے سارے معاملات کو سیدھا کر لیا۔ ایک خاتون نے پہلے خاموش رہنے کا معاوضہ لیا پھر دعویٰ کر دیا کہ جب اسے خاموش رہنے کا معاوضہ دیا گیا تھا تب ٹرمپ امریکہ کا صدر نہیں بنا تھا لہٰذا اس کی تب کی حیثیت کے مطابق اس نے معاوضہ وصول کیا تھا لیکن اب چونکہ وہ امریکہ کا صدر بن گیا ہے اور اس کی حیثیت پہلے کی نسبت بہت زیادہ اہم اور خاص ہو گئی ہے اس لیے اسے مزید معاوضہ دلایا جائے۔ ایسے معاملات اور ایسی خواتین سے نپٹنے کے ماہر ٹرمپ کی لیگل ٹیم نے الٹا اس خاتون کو عدالت سے جرمانہ کروا دیا۔ لیکن ایسی باتوں سے ٹرمپ شرمندہ ہونے کے بجائے الٹا خوش ہوتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس سے وہ خواتین میں مزید پاپولر ہو رہا ہے۔
ٹرمپ کی شادیوں کا ریکارڈ تو ملتا ہے کہ اس نے تین عدد شادیاں کیں۔ ایوانا ٹرمپ‘ مارلا میپلز اور میلانیا ٹرمپ۔ تاہم اس کے دوسری خواتین سے افیئرز کا کوئی حساب کتاب نہیں۔ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے ان تمام افیئرز پر نہ تو کبھی شرمندہ ہوا ہے اور نہ ہی انکار کیا ہے‘ حتیٰ کہ وہ اپنی ٹیکس چوری کو بھی اپنی خوبی قرار دیتا ہے۔ ایک ٹی وی شو میں اس سے سوال ہوا (الیکشن سے قبل) کہ وہ تو ٹیکس بھی پورا نہیں دیتا‘ اس نے اس بات کی نفی کرنے کے بجائے جواب دیا: جی ہاں! نہیں دیتا۔ کیونکہ میں ”سمارٹ ‘‘ ہوں۔ اب بھلا ایسے شخص کا کیا کیا جا سکتا ہے۔
مودی اور ٹرمپ کا ماضی ایک دوسرے سے بالکل الٹ لیکن حال بالکل ایک جیسا ہے۔ ٹرمپ تین شادیوں کا اقراری ہے مودی اپنی ایک شادی (جو واقعتاً ہوئی بھی تھی) سے بھی انکاری ہے۔ ٹرمپ اپنے باپ کی طرف سے ہی ارب پتی تھا جبکہ مودی کا بچپن چائے بیچتے گزرا ہے لیکن دونوں قوم پرست ہیں اور ان کا ووٹ بینک انتہا پسندوں پر مشتمل ہے۔ دونوں کے زمانہ اقتدار میں ان کا ملک معاشی طور پر بہتری کی طرف گامزن ہوا ہے۔ دونوں کے مخالفین کے پاس کوئی تگڑا امیدوار نہیں ہے اور دونوں کے اگلا الیکشن جیتنے کے امکانات روشن ہیں۔ تاہم ٹرمپ کی پوزیشن مودی کی نسبت خاصی بہتر ہے۔
بقول سلمان آفتاب اگر ڈیموکریٹک پارٹی اوبامہ دور کے سابقہ وائس پریذیڈنٹ جو بائیڈن کو ٹکٹ دے دیتی ہے تو مقابلہ نسبتاً بہتر ہو سکتا ہے مگر یہ بات طے ہے کہ جوبائیڈن بہر حال ہیلری کلنٹن سے زیادہ بہتر اور مضبوط امیدوار نہیں ہے جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے شکست دی تھی اور اب تو خود ٹرمپ کی پاپولیرٹی میں مزید تین فیصد کے لگ بھگ اضافہ ہوا ہے جو الیکشن کے قریب جا کر مزید بڑھ سکتا ہے‘ لیکن اگر یہ نہ بھی ہو تو تب بھی ٹرمپ خاصے محفوظ مقام پر ہے اور اس کی اگلی صدارتی ٹرم موجودہ صورتحال میں بالکل پکّی نظر آرہی ہے بشر طیکہ کوئی انہونی نہ ہو جائے۔ سیاست بہر حال انہونیوں سے بھری ہوئی شے ہے۔ جب عمران خان نے چار حلقوں کو کھولنے کی بات کی تھی تب کسی کو اندازہ تھا کہ معاملہ نواز شریف کی نا اہلی‘ اقامہ اور پانامہ کی بنیاد پر سیاست سے فراغت اور قید کی سزا تک چلا جائے گا مگر سیاست محیر العقول واقعات سے بھری ہوئی ہے۔
امریکی صدر کی دوسری ٹرم دو انتہائوں کا نام ہے۔ کئی صدر اپنی دوسری ٹرم بڑے سکون سے گزارتے ہیں۔ نئی نسل کی زبان میں یوں سمجھیں کہ بڑے ”Chill‘‘ ہو کر گزارتے ہیں مگر کئی صدور نے اپنی دوسری ٹرم جو آخری ہوتی ہے بڑی ہنگامہ خیز اور ایڈونچرز سے بھری ہوئی گزاری ہے‘ لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر (جس کا امکان غالب ہے) ٹرمپ دوسری ٹرم لے گیا تو سب کو ‘ جی ہاں! سب کو بشمول امریکہ خوار اور برباد کر کے رکھ دے گا۔ مسلم دنیاکا حال سب سے خراب ہوگا اور خصوصاً ایران کا۔ ایران کے بارے شفیق کا پورا تھیسس ہے مگر اس پر پھر سہی۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر بندر کے ہاتھ ماچس لگ جائے تو یہی کچھ ہوتا ہے۔
امریکی صدر کی دوسری ٹرم دو انتہاؤں کا نام ہے۔ کئی صدر اپنی دوسری ٹرم بڑے سکون سے گزارتے ہیں۔ نئی نسل کی زبان میں یوں سمجھیں کہ بڑے ”Chill‘‘ ہو کر گزارتے ہیں مگر کئی صدور نے اپنی دوسری ٹرم جو آخری ہوتی ہے بڑی ہنگامہ خیز اور ایڈونچرز سے بھری ہوئی گزاری ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ