حکیم فیثا غورث ایک جید مسلمان سائنسدان تھے۔ کم از کم نام سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہمارے نصاب میں لکھا ہے کہ تاریخ میں جو بھی اچھا ہوا، وہ یا تو مسلمانوں نے کیا یا مسلمانوں سے استفادہ کیا گیا۔ یہ کلیہ ٹھیک اسی طرح درست ہے جیسے یہ قول زریں کہ دہشت گرد مسلمان نہیں ہوتا۔ فیثا غورث کے ضمن میں البتہ تقویم کی الجھن پائی جاتی ہے کہ موصوف 570قبل مسیح میں پیدا ہوئے اور 495قبل مسیح میں وفات پائی۔ فیثا غورث نے علم ہیئت، اقلیدس اور ریاضی میں درک پایا تھا۔ یہ وہی شخص تھا جس نے کائنات کے جزو اور کل کو ایک خوبصورت جملے میں سمو دیا تھا۔ ساز کے تاروں کی لرزش میں اقلیدس کے اصول کار فرما ہیں اور ستاروں کے باہم فاصلے میں موسیقی پائی جاتی ہے۔ پاکستان کے بیشتر اچھے بچوں کی طرح درویش کا ہاتھ بھی ریاضی میں تنگ ہی رہا۔ بہت دماغ لڑانے پر بھی ریاضی میں کبھی سو فیصد نمبر نہ مل سکے۔ جیومیٹری کے Theoremکو ہم اپنی دیہی زبان میں مسئلہ کہتے تھے اور چونکہ ہم سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تھا، اس لئے اسے سمجھنے کے بجائے بار بار دہرا کر رٹ لیا جاتا تھا۔ انہی مسائل میں کہیں فیثا غورث کا نام بھی آیا تھا۔ اب یہی یاد رہ گیا ہے کہ فیثا غورث نے قائمہ زاویہ مثلث کے تین اضلاع کا تناسب بیان کیا تھا۔ ہماری قوم کو ان دنوں بحران کی مثلث نے گھیر رکھا ہے، سو مناسب معلوم ہوا کہ فیثا غورث کو یاد کیا جائے۔
روایت کی جاتی ہے کہ ہمارے ملک میں ایسا زمانہ بھی گزرا ہے جب صحافی براہ راست اپنی بات کہہ سکتا تھا۔ قلم گواہ ہے کہ ہماری نسل کی یادداشت میں کوئی موسم ایسا خوشگوار نہیں گزرا۔ ہم نے شعور کی آنکھ کھولی تو اخبار کا آدھا صفحہ سفید تھا جہاں سے ناپسندیدہ خبریں اکھاڑ لی جاتی تھیں۔ ابراہیم جلیس کی موت ہمارے دل و دماغ پر ایسی نقش ہوئی کہ خیال ٹھٹھر کر رہ گیا۔ ہم نے اشارے کنائے کی ایک زبان ایجاد کی۔ اس میں اخبار کا ادارہ بھی مطمئن رہتا تھا اور صحافی بھی کٹے پھٹے بیان میں کچھ نہ کچھ کہہ لیتا تھا۔ کیا تھا شعر کو پردہ سخن کا۔ اب مگر شہر صحافت میں ایسا بجوگ پڑا ہے کہ کسی لیلیٰ کو سنسر کی بدنامی مول لینے کی حاجت نہیں رہی۔ اب نہیں لیتے پری رو زلف لہرانے کا نام… لکھنے والے کے قلم کی نوک پر سنسر اتر آیا ہے۔ اگر کہیں کوئی چلبلا خیال قلم سے سرزد ہو بھی جائے تو برادران صحافت ایسے سقم شناس واقع ہوئے ہیں کہ ایک ہزار لفظ کی تحریر سے وہ ایک جملہ حذف کر دیتے ہیں جس کے گرد لکھنے والے نے ریشم کا جال بُن رکھا ہو۔ گویا مثلث کا قاعدہ موقوف ہو جاتا ہے، ارتفاع میں تزلزل آ جاتا ہے اور فیثا غورث کے ہاتھ خالی ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں اقلیدس کے مجرد تصورات کا سہارا لیا جائے، حکیم لقمان کی حکایات سے استفادہ کیا جائے یا حب وطن کا منظور شدہ آموختہ دہرایا جائے، پڑھنے والے کی آنکھ بہرصورت معنی کشید کر لیتی ہے۔ آنکھ ہے دل تو نہیں، ساری خبر رکھتی ہے۔ اس نقصان کا البتہ ازالہ نہیں ہو پاتا کہ اسپن (Spin) اور پوسٹ ٹروتھ (Post Truth) کے گرداب میں گھری صحافت کھرے پن کی کھنک سے محروم ہو جاتی ہے۔ ہم پڑھنے والے کو یہ نہیں بتا سکتے کہ آئی ایم ایف کی دہلیز پر بیٹھے ہمارے سرکاری وفد کی پکار مستجاب ہوئی یا نہیں؟ پاٹ دار آواز اور فتح یاب لہجے میں یہ خبر ضرور دی جا سکتی ہے کہ بھارت نے ہمارے کون سے ترانے کی دھن چرا لی ہے۔ سانحہ ہزار گنجی کے پسماندگان کے آنسو پونچھنے کی ہمیں فرصت نہیں کیونکہ ہم تو کوئٹہ میں قانون کی بستی اجاڑنے والوں کی نشاندہی کرنے والے جج قاضی کی خبر لینا چاہتے ہیں۔ ایسے موسم میں لکھنے والے کے دل پر مہاجرت اتر آتی ہے۔ مرے دل، مرے مسافر، ہوا پھر سے حکم صادر، کہ وطن بدر ہوں ہم، تم…
دسمبر 2017کا اداس موسم تھا۔ ہم ایک ایسے سیاسی امتحان کی طرف بڑھ رہے تھے جس کا نتیجہ پہلے سے لکھا جا چکا تھا بلکہ سنسر کیا جا چکا تھا۔ درویش عارف کے پاس بیٹھا تھا۔ سوال کیا کہ اس آزمائش کا نتیجہ کیا ہوگا؟ عارف نے سر اٹھایا اور ملال بھرے لہجے میں کہا ’’بحران مزید پیچیدہ ہو جائے گا، گتھی مزید الجھ جائے گی، کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی تلافی مشکل ہو جاتی ہے‘‘۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں۔ سولہ مہینے ہی تو گزرے ہیں۔ توجہ فرمائیے کہ موجودہ حکومت روزِ اول سے عدم استحکام کا شکار ہے، معیشت کا بحران گمبھیر ہو رہا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ پارلیمانی امور کے نئے وفاقی وزیر عوام کو شدید گرمی میں چھترول کی چتاؤنی دے رہے ہیں۔ پارلیمانی امور کے وزیر کے اس غیر پارلیمانی لہجے سے قطع نظر، ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ریاست اور عوام میں تصادم سے اچھا نتیجہ برآمد نہیں ہوا کرتا۔ مار دھاڑ کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات کم ضرور ہوئے ہیں لیکن بلوچستان کے حالیہ واقعات سے معلوم ہوگیا ہے کہ سانپ کی دم پر ڈنڈا مارنے سے خطرہ دور نہیں ہوتا، سانپ مزید ہٹیلا ہو جاتا ہے۔ مذہب کے نام پر دہشت گردی ختم کرنے کے لئے یہ تاثر دور کرنا ضروری ہے کہ ریاست مذہبی کارڈ استعمال کرنے سے شغف رکھتی ہے۔ ہم تو صدارتی نظام بھی اسلامی بناکر بیچنا چاہتے ہیں۔ اگر ریاست تقدیس کی اوٹ سے اختیار کا کھیل کھیلنا چاہتی ہے تو مذہبی دہشت گردی کا مورچہ فتح نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی عدم استحکام سے نکلنے کے لئے سیاسی عمل میں غیر سیاسی مداخلت ختم کرنا لازم ہے۔ مداخلت سے پاک سیاسی عمل ہی ایسی فیصلہ سازی کر سکتا ہے جو معیشت کی بحالی کو یقینی بنا سکے۔ ہماری معیشت کو درپیش مسائل کی بنیادی وجہ غیر متناسب معاشی ترجیحات ہیں۔ ہمیں اپنے اخراجات پر نظر ثانی کر کے معاشی ترجیحات کو معقول خطوط پر استوار کرنا چاہئے۔ قومی سلامتی، سیاسی استحکام اور معیشت کی اس مثلث کے اضلاع میں وہی راست تناسب پایا جاتا ہے جو فیثا غورث نے اڑھائی ہزار برس پہلے بتا دیا تھا۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ