وطنِ عزیز میں سب سے زیادہ زرخیز انڈسٹری افواہ سازی کی ہے لیکن سابقہ تجربات یہ بتاتے ہیں کہ تقریباً ہر افواہ کچھ عرصہ بعد خبر بن جاتی ہے۔ سو اب بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کب اور کس وقت افواہ حقیقی خبر بن جائے۔ آج کل بھی بہت سی افواہیں گرم ہیں۔ بعض تو اتنی گرم ہیں کہ ہاتھ لگائیں تو ہاتھ جل جائے۔ ان گرم والی افواہوں میں مزید سب سے گرم افواہ این آر او کے بارے میں ہے۔ اور اس افواہ کی مزیداری یہ ہے کہ ہر دو فریقین، یعنی این آر او مانگنے والے اور این آر او دینے والے اس سے منکر ہیں۔ زرداری اینڈ کمپنی اور نواز شریف اینڈ فیملی این آر او مانگنے سے انکاری ہیں اور عمران خان صاحب کسی قسم کے این آر او دینے پر روزانہ لعنت بھیجتے ہیں لیکن سیاستدانوں کی بات کا یقین نہیں کرنا چاہئے۔ ایسا کرنے والا اپنے نقصان کا خود ذمہ دار ہو گا۔
امریکہ کی ریاست وائے یومنگ (Wyoming) ایک دور افتادہ اور امریکہ کی پچاس ریاستوں میں سب سے کم آبادی والی ریاست ہے۔ حالانکہ رقبے کے اعتبار سے یہ دسویں نمبر پر ہے اور اس کی آبادی اپنے سے انتالیس چھوٹی ریاستوں سے بھی کم ہے۔ امریکہ کی اوسط آبادی ستاسی افراد فی مربع میل ہے۔ سب سے زیادہ گھنی آبادی ڈسٹرکٹ کولمبیا کی ہے جو بارہ ہزار فی مربع میل سے تھوڑی ہے۔ جبکہ وائے یومنگ کی آبادی چھ افراد فی مربع میل ہے۔ سیاستدانوں کی ایک ویگن اس انتہائی کم اوسط آبادی والی ریاست کے ایک اور مزید دور افتادہ اور پسماندہ قصبے کی طرف رواں دواں تھی۔ وہاں یہ لوگ ریاست کی پرائمری نامزدگی والی مہم کے سلسلے میں جا رہے تھے۔ ایک چٹیل اور بے آب و گیاہ وسیع و عریض میدان سے گزرتے ہوئے ڈرائیور سو گیا۔ ظاہر ہے نہ دور دور تک کوئی آبادی تھی اور نہ ٹریفک۔ ڈرائیور کو نیند تو آنی ہی تھی۔ سو ڈرائیور سو گیا۔ ویگن کافی تیز رفتاری سے جا رہی تھی۔ ڈرائیور کے سو جانے کے باعث ویگن سڑک سے اتری‘ کنارے پر لگے ایک کھمبے سے ٹکرائی اور قلابازیاں کھاتی ہوئی دور جا گری۔
خوش قسمتی سے جائے حادثہ کے قریب ہی ایک گیس سٹیشن تھا۔ امریکہ میں پٹرول پمپ کو گیس سٹیشن کہتے ہیں۔ اس گیس سٹیشن کو ایک بوڑھا شخص چلاتا تھا۔ نزدیک ترین دوسرا گیس سٹیشن بھی نوے میل کے فاصلے پر تھا (امریکہ میں ابھی بھی فاصلہ میلوں میں اور پٹرول گیلنوں میں ناپا جاتا ہے) قریب ترین آبادی دو سو میل کے فاصلے پر تھی۔ بوڑھے نے بمشکل اور بدقت تمام سیاستدانوں کو گیس سٹیشن کے ساتھ ہی دفن کر دیا۔ جب سیاست دانوں کی گاڑی طے شدہ وقت پر نہ پہنچی تو وہاں کے لوگوں کو تشویش ہوئی۔ سب کے موبائل فون بند تھے۔ اگلے روز انہیں پتا چلا کہ وہ سب لوگ تو اپنے شہر سے ایک روز قبل روانہ ہو گئے تھے۔ اب ان کو تلاش کرتے کرتے ایک گاڑی اس جگہ آن پہنچی جہاں حادثہ ہوا تھا۔ حادثے والی ویگن دیکھ کر سب لوگ وہاں رکے اور سامنے گیس سٹیشن پر جا کر بوڑھے مالک سے حادثے کے بارے میں دریافت کیا۔ اس نے بتایا کہ کل دوپہر کو یہ حادثہ ہوا تھا۔ میرے پاس اور کوئی چوائس نہیں تھی کہ میں ان لوگوں کو دفنا دیتا۔ یہاں کوئی کولڈ سٹوریج تو تھا نہیں کہ میتیں سنبھال رکھتا۔ سو میں نے سب کو ایک اجتماعی قبر میں دفنا دیا ہے۔ آنے والی ٹیم میں سے ایک شخص نے پوچھا کہ کیا سب لوگ مر گئے تھے؟ بوڑھا کہنے لگا: میرا خیال ہے کہ سب ہی مر گئے تھے۔ ایک شخص نے پوچھا کہ اس ”خیال‘‘ سے اس کی کیا مراد ہے؟ بوڑھے نے کہا: ان میں سے تین چار کہہ تو رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں‘ لیکن آپ کو تو بخوبی پتہ ہے کہ یہ سیاستدان سچ کب بولتے ہیں۔
سو سیاستدان سچ کب بولتے ہیں؟ جس بات کی آج شد و مد سے تردید کریں‘ کل وہی بات ہو جاتی ہے اور اب تو ”یُو ٹرن‘‘ ویسے بھی اچھے سیاستدان کی پہچان بن چکا ہے۔ اس لیے سیاستدانوں کے کسی بیان کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے۔ لہٰذا حقیقت یہ ہے کہ اب افواہ اور خبر میں زیادہ فرق نہیں بلکہ دونوں ایک ہو چکے ہیں۔
ویسے اس وقت افواہوں پر لعنت بھیجیں اور دیکھیں کہ میاں شہباز شریف قومی اسمبلی کی پی اے سی کی سربراہی سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ ایک افواہ یہ ہے کہ انہوں نے لیڈر آف دی اپوزیشن کے عہدے سے علیحدگی کا بھی فیصلہ کر لیا ہے اور لیڈر آف اپوزیشن کے طور پر خواجہ آصف کو آگے لایا جا رہا ہے۔ اسی طرح پی اے سی کی چیئرمینی رانا تنویر کے پاس ہو گی۔ ممکن یہ افواہیں بھی آنے والے دنوں میں خبریں بن جائیں۔ آخر میاں شہباز شریف ان دونوں عہدوں سے برضا و رغبت اور بلا جبر و کراہ تو علیحدہ نہیں ہوئے ہوں گے کہ خاص طور پر چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی وہ جس طرح حکومت کو ناکوں چنے چبوا کر بنے تھے‘ وہ کافی زیادہ بد مزگی والی صورتحال تھی اور اب وہ بڑی خاموشی سے لندن کی سڑکوں پر مٹر گشت کرتے ہوئے، دکانوں پر ”ونڈو شاپنگ‘‘ کرتے ہوئے اور بس سٹاپ پر اکیلے بیٹھے ہوئے ٹھنڈے پیٹوں مستعفی ہو گئے ہیں۔ کیا یہ این آر او کی طرف والی پیش رفت ہے؟
بیان آیا ہے کہ وہ اس وقت بھی یہ عہدے نہیں لینا چاہتے تھے لیکن مسلم لیگ ن کی پارلیمانی ایڈوائزری کمیٹی نے ان کی مرضی کے خلاف یہ دونوں عہدے ان کے سر تھوپ دیئے تھے۔ اس بات پر مجھے بڑی ہنسی آئی کہ کسی پارٹی کی پارلیمانی ایڈوائزری کمیٹی کے ارکان میں یہ جرأت کیسے پیدا ہو گئی کہ وہ خاندانی طور پر پارٹی کے حکمران خاندان کے شخص کی مرضی کے خلاف اسے کسی کام کے لیے مجبور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ کافی جنگ و جدل اور قومی اسمبلی کی ساری سٹینڈنگ کمیٹیوں سے مستعفی ہونے کی دھمکی کے بعد حاصل کی گئی پی اے سی کی چیئرمینی اور آئینی طور پر اپوزیشن کے کسی رکن اسمبلی کے لیے محفوظ ترین عہدے‘ یعنی لیڈر آف دی اپوزیشن کے عہدے سے برضا و رغبت علیحدگی کی بات ہضم نہیں ہو رہی۔ تو کیا بات این آر او کی طرف جا رہی ہے؟
شروع میں این آر او کی افواہ کے ساتھ ایک اور افواہ اڑی کہ میاں نواز شریف بیس ارب ڈالر دے کر جان چھڑوانے پر تیار ہیں مگر عمران خان نہیں مان رہے۔ اب تازہ ترین افواہ یہ ہے کہ ”پلی بارگین‘’‘ کا ریٹ گرتے گرتے اب اڑھائی ارب ڈالر پر آ گیا ہے یعنی ایک بٹا آٹھ پر۔ یعنی پہلی افواہ کا محض ساڑھے بارہ فیصد۔ گمان ہے کہ اگر اور دیر ہوئی تو رقم مزید کم ہو جائے گی۔
لکھنٔو شہر میں نئی گانے والی چھمی بائی کی بڑی دھوم تھی۔ تقریباً نیم دیوالیہ نواب ببن میاں نے‘ جو رقص و سرود کے بڑے شوقین تھے، اپنے ملازم اچھن میاں کو بلایا اور کہا کہ وہ جا کر چھمی بائی کی محفل کا عوضانہ پوچھ کر آئے۔ اچھن میاں نے بتایا کہ گزشتہ ماہ تو پانچ ہزار روپے تھا مگر اب ”کساد بازاری‘‘ کے باعث تین ہزار روپے ہو چکا ہے۔ دو چار ماہ بعد پھر اچھن میاں کو بھیجا گیا اور تازہ ریٹ دریافت کیا گیا۔ اب یہ گر کر اٹھارہ سو پر آ چکا تھا۔ نواب ببن میاں نے اچھن میاں کو کہا کہ جب یہ ریٹ گر کر پانچ سو روپے پر آ جائے تو ہمیں خبر کیجئے گا‘ ہم تب اس کی محفل میں شریک ہوں گے۔ راوی کمبخت حسب معمول یہ بتائے بغیر غائب ہو چکا ہے کہ ببن میاں نے محفل میں شرکت کب کی اور کی بھی کہ نہیں۔
افواہ سازوں نے بھی یہ نہیں بتایا کہ پلی بارگین کی وہ کیا حد ہے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے؟ لیکن اس معاملے کو ببن میاں، اچھن میاں اور چھمی بائی پر چھوڑیں۔ فی الحال یہ سوال اہم ہے کہ کیا یہ ساری تبدیلیاں کسی این آر او کا آغاز ہیں۔
( بشکریہ : روزنامہ دنیا )
فیس بک کمینٹ