جنوبی پنجاب میں ادب کی راہ میں حائل مشکلات۔۔ہمارا آج کا یہ موضوع گفتگو۔ ایک سوال کی صورت میں جواب کا متقاضی ہے۔آج کی رائج اصطلاح میں جنوبی پنجاب کہلانے والا یہ خطہ جسے ہم وسیب کہتے اور سمجھتے ہیں۔اس کا مرکز و محور ہمیشہ سے ملتان رہا ہے۔اور۔ اس میں کوئی دو آراءنہیں کہ ملتان صدیوں نہیں۔ہزاروں سال پہلے بھی علم و ادب۔دانش و آگہی۔تہذیب و ثقافت ۔ فکر و ہنر اور دیگر اصناف فنون کا مرکز تھا۔دنیابھر سے لوگ اپنی علمی اور ادبی پیاس بجھانے کے لیئے یہاں کھنچے چلے آتے تھے۔یہ ایک سچائی ہے جس سے انکار ممکن نہیں کہ فروغ پاتا اور ترقی کے زینوں پر قدم قدم آگے بڑھتا ہوا ادب کسی بھی سماج کی تہذیب کی بنیاد رکھتا ہے اور پھر یہ تہذیب سماج کی ثقافت میں ڈھل کر سماج کے عمومی رویوں کو جنم دیتی ہے۔اس ساری بات کا مطلب یہ ہوا کہ سماجی رویوں کے جنم اور پھر ان کی افزائش و ارتقاءکے لیئے ادب کا فروغ ناگزیر ہے۔
اب آتے ہیں ا ٓج کے موضوع میں موجود اس سوال کی طرف کہ جنوبی پنجاب میں ادب کے فروغ کی راہ میں کون کون سی اور کیا کیا مشکلات حائل ہیں؟جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ،یہ خطہ ہمیشہ سے علم و ادب اور عرفان و آگہی کا مرکز رہا ہے۔گویا یہ خطہ تخلیقی صلاحیتوں کے وصف سے بھرپور اور مالا مال رہاہے۔ہاں ۔ یہ الگ بات اور موضوع ہے کہ گردش زمانہ نے اس خطے کی اس علمی اور ادبی مرکزی حیثیت کو برقرار نہیں رہنے دیا جو اس کا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا۔اسے ہم تاریخ کا جبر ہی کہیں گے۔مگر تاریخ کے اس جبر کے باوجود جنوبی پنجاب کی یہ دھرتی کبھی بھی تخلیقی صلاحیتوں سے محروم نہیں رہی۔اور تخلیقی صلاحیتوں کا بانجھ پن جنوبی پنجاب کی دھرتی کو اپنا شکار بنانے میں ناکام رہا۔تاریخ کے مختلف ادوار کی طرح نا صرف ماضی قریب میں بلکہ آج بھی جنوبی پنجاب تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہے اور یہاں کے ادیب ۔شاعر۔موسیقار ۔ فنکار۔اور دیگر ہنر مند اپنی اپنی تخلیقات کا لوہا منوا رہے ہیں۔یہ تو ادب کے فروغ کے لیئے کی جانے والی کاوشوں کا ذکر ہے۔ اب ذرا بات کرتے ہیں ادب کے فروغ میں حائل ہونے والی مشکلات کی۔۔ادب تو تخلیق ہو رہا ہے ۔تواتر کے ساتھ لکھا جا رہا ہے۔ہر سطح پر اور ہر صنف میں ادبی کاوشیں جاری ہیں۔مگر ان کے اظہار کے مواقع اس خطے میں بہت کم بلکہ محدود ہیں۔۔جنوبی پنجاب کا ادیب۔ شاعر ۔قلمکار اور فنکار اپنی بہترین تخلیقات کے باوجود اپنی شناخت اور مقام قومی سطح پر اس لیئے نہیں بنا پاتا کہ جنوبی پنجاب کا یہ خطہ ایسے اشاعتی اداروں سے محروم ہے جو ان تخلیقات کو شائع کر کے ادب کے قارئین اور عوام تک پہنچا سکیں۔۔ سرکاری اداروں کو تو چھوڑیئے کہ ارباب اقتدار تو علم و ادب کے معاملے میں اکثر تہی دامن ہوتے ہیں۔پرائیویٹ اشاعتی اداروں جن میں اخبارات خاص طور پر شامل ہیں۔وہ بھی ادب کے فروغ میں اپنا موئثر کردار ادا نہیں کر پاتے، جس کی ضرورت ہے۔ان اخبارات میں کہیں کہیں ہفتہ وار ادبی ایڈیشن ضرور شائع کیئے جاتے ہیں۔مگر وہ جنوبی پنجاب میں ہونے والی ادبی سرگرمیوں کا مکمل احاطہ نہیں کر پاتے۔اور پھر ملتان سے شائع ہونے والے یہ اخبارات لاہور میں بیٹھے ہوئے اپنے مالکان کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے بھی پابند ہوتے ہیں۔یہ تو ہے پرنٹ میڈیا کی بات۔۔اس کے علاوہ کچھ دیگر ادارے بھی ہیں۔جن میں ریڈیو پاکستان ملتان۔۔سرکاری ٹی وی سنٹر ملتان۔۔اور دو پرائیویٹ ٹی وی چینلز شامل ہیں۔۔ان اداروں میں اگر ریڈیو پاکستان ملتان کے کردار پر نظر ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ستر کی دہائی میں اپنے قیام سے لے کر آج تک ریڈیو پاکستان ملتان ادبی سرگرمیوں کے فروغ میں بہت اہم اور مثبت کردار ادا کرتا رہا ہے اور نامساعد حالات کے باوجود آج بھی کر رہا ہے۔ ریڈیو پاکستان ملتان کایہ کردار قابل ستائش اور سراہے جانے کا مستحق ہے۔ مگر پی ٹی وی ملتان سنٹر جنوبی پنجاب میں ادب کے فروغ کے لیئے ان توقعات پر پورا نہیں اتر پا رہا جو اس کے قیام کے وقت اس سے وابستہ کی گیئں تھیں۔رہے باقی دونوں پرایویٹ ٹی وی چینلز تو وہ اپنی بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ حصہ ڈالتے رہتے ہیں جو جنوبی پنجاب کے وسیع خطے میں ہونے والی ادبی سرگرمیوں کے لیئے قطعی ناکافی ہے۔
اس لیئے ہم دیکھتے ہیں کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ادیب۔شاعر ۔ قلمکار اور فنکاراپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار اور انہیں منوا کر اپنی شناخت بنانے کے لیئے اپنی دھرتی چھوڑ کر بڑے مراکز ۔لاہور۔ کراچی اور اسلام آبادکا رخ کر لیتے ہیں اور پھر وہیں کے ہو رہتے ہیں۔ایسے بہت سے نام گنوائے جا سکتے ہیں، جنھوں نے اپنی علمی اور ادبی شناخت تو بنا لی مگر اپنی دھر تی کو اپنی سرپرستی سے محروم کر دیا۔۔جنوبی پنجاب میں ادبی سفر کا آغاز کرنے والی نئی نسل ان حضرات کی راہنمائی کی منتظر رہتی ہے۔میری نظر میں یہ بھی ادبی فروغ کی راہ میں ایک مشکل ہے۔
اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے ادبی افق پر معدودے چند خواتین ہی نظر آتی ہیں۔خواتین کی نمائیندگی بہت کم اور محدود دکھائی دیتی ہے۔ایسا ہرگز نہیں ہے کہ جنوبی پنجاب کی خواتین ادبی تخلیقی عمل میں بانجھ ہیں اور تخلیقی صلاحیت اور شعور نہیں رکھتیں۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کا سماجی رویہ اور پس منظر ،خواتین کو اپنی ادبی صلاحیت کے اظہار کے مواقع نہیں دیتا۔کوئی خاتون اگر اس میدان میں قدم رکھ کر اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر آگے بڑھنے لگے تو قدم قدم پر اسے مشکلات بلکہ الزامات تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اور یوں بہت سی باصلاحیت خواتین بھی سماج کے جبر کی وجہ سے ادب کے فروغ میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتیں۔
جنوبی پنجاب میں ادب کا فروغ تو رہا ایک طرف۔۔جنوبی پنجاب کو پسماندگی سے نکال کر لاہور۔کراچی ۔اسلام آباد اور ملک کے دیگر حصوں کے برابر لانا، کبھی بھی سرکار کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔۔۔یہاں چند ادارے تو بنا دیئے گئے۔جیسے ستر کی دہائی میں ریڈیو پاکستان ملتان،جو واقعی اس خطے کی آواز بنا۔۔اس کے بعد ملتان آرٹس کونسل کا قیام عمل میں آیا جو آج ایک خوبصورت عمارت کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔مگر اس کی ادبی اور دیگر سرگرمیوں کا معیار آج بھی الحمراءآرٹ کونسل لاہور کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مالی معاونت ہو یا دیگر امور۔۔ان پر سرکار کی طرف سے الحمراءآرٹس کونسل جتنی توجہ نہیں دی جاتی۔۔ان مشکلات کے باوجود۔صد شکر کہ موجودہ ڈائیریکٹرسجاد جہانیہ نے اسے گزشتہ تمام ادوار سے زیادہ فعال اور متحرک رکھا ہوا ہے۔اس کے علاوہ کئی ادبی تنظیمیں فروغ ادب کو درپیش مشکلات کو دور کرنے میں اپنااپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔میں یہاں سخن ور فورم نامی تنظیم کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گاجو ایک تسلسل کے ساتھ ہفتہ وار ادبی بیٹھک کا انعقاد کر کے ادب کے فروغ میں لیڈنگ رول ادا کرتی دکھائی دیتی ہے۔اس کے ساتھ ہی ملتان ٹی ہاﺅس کے قیام نے بھی ادیبوں اور شعراءکو بیٹھنے کے لیئے ایک اچھا ماحول فراہم کیا ہوا ہے۔
ان چند مثبت اقدامات کے باوجود ، جنوبی پنجاب میں ادب کے فروغ میں حائل بہت سی مشکلات دور کرنے کے لیئے ، سرکاری سطح پر ادیبوں اور شعراءکے علاوہ دیگر قلمکاروں کی تخلیقی صلاحیتوں کے پروان چڑھنے کے مواقع اس سطح پر ہرگز میسر نہیں ہیں جو ادبی مراکز کہلانے والے دیگر شہروں کو میسر ہیں۔جب کہ جنوبی پنجاب کا خطہ ادبی قد کاٹھ میں کسی سے کم نہیں ہے۔اقبال نے تو کہا تھا”’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی“‘۔۔مگر میرا یہ ماننا ہے کہ جنوبی پنجاب کی پیاسی مٹی ۔نم نہ ہونے کے باوجود ادب تخلیق کرنے میں بہت زرخیز ہے۔اگر اس کی اظہار کی ضروریات کی آبیاری اس کی ضروریات کے مطابق کی جائے تو جنوبی پنجاب میں جو اعلیٰ پائے کا ادب تخلیق ہو تا رہا ہے اور ہو رہاہے، وہ ایک خطیر ادبی سرمائے کی صورت میں اپنا مقام حاصل کر لے گا۔۔
فیس بک کمینٹ