اس کام کی ابتدا آفتاب عالم نے کی۔ طارق کا واٹس ایپ پر پیغام ملا کہ اپنی کلاس کا گیٹ ٹو گیدر کیا جائے۔ پھر طارق نے واٹس ایپ پر ایک گروپ بنا دیا اور اس کا نام Get Together at Multan رکھ دیا۔ یہ کوئی بائیس تیس دن پہلے کی بات ہوگی۔ میں تب آذربائیجان کے شہر ”باکو‘‘ جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ میں، شوکت گجر، شوکت اسلام، رانا شفیق اور کامران۔ باکو جانے کا پروگرام بھی بس ایسے بیٹھے بیٹھے ہی بن گیا۔ میں نے بھی باکو کا نام سنتے ہی بلا سوچے سمجھے ہاں کر دی۔ لیکن اس ہاں کے پیچھے بھی پرانی کہانی تھی۔ باکو کا نام تو ہزار بار سنا تھا لیکن اس سے محبت دراصل قربان سید کی کتاب ”علی اور نینو‘‘ پڑھنے کے بعد ہوئی۔ یہ شاندار کتاب میرے ہاتھ شاہکار کتاب سلسلہ کے توسط سے لگی تھی۔ اللہ جنت نصیب کرے سید قاسم محمود کو۔ ان کے اس انتہائی سستے کتابی سلسلے نے زمانہ طالبعلمی میں بھی کتاب خریدنے کے قابل رکھا۔ دنیا کے ادب کا بہترین انتخاب اور کوڑیوں کے مول۔
یہ اردو میں ترجمہ شدہ کتاب تھی۔ اور دو ہاتھ سے ترجمہ ہوتی ہوئی اردو تک آئی تھی۔ اصل میں یہ کتاب قربان سید نے جرمن زبان میں لکھی تھی۔ جرمن سے انگریزی اور پھر انگریزی سے اردو میں۔ سید قاسم محمود والی کتاب کم و بیش دو تین بار پڑھی۔ پھر یہ کتاب ایک دوست نے مانگی اور پھر وہی ہوا جو مانگی کتاب کے ساتھ ہوتا ہے۔ واپس نہ ملی۔ ایمانداری کی بات ہے اس تین روپے والی کتاب کے گم ہونے کا ملال ختم ہونے میں ہی نہ آتا تھا۔ پھر مقبول اکیڈمی نے ایک کتاب چھاپی۔ ”محبت کے چار ناول‘‘ اس میں ایک ناول ”علی اور نینو‘‘ بھی تھا۔ میں نے جھٹ یہ کتاب خرید لی۔ یہ کتاب میری لائبریری سے چوری ہو گئی۔ دو چار سال بعد لاہور مال روڈ سے گزرتے ہوئے دیال سنگھ بلڈنگ میں مقبول اکیڈمی کے شو روم پر نظر پڑی۔ اندر جا کر میں نے ”محبت کے چار ناول‘‘ بارے پوچھا۔ پتا چلا کہ آؤٹ آف پرنٹ بھی ہے اور اس کی کوئی کاپی بھی موجود نہیں۔ اندر دفتر سے ایک صاحب اٹھ کر آئے اور میرا نام لیا۔ میں نے سلام کیا۔ پتا چلا کہ یہ مقبول اکیڈمی کے مالک ڈاکٹر ارشد مقبول صاحب ہیں۔ پوچھنے لگے کیا بات ہے؟ میں نے عرص کی ”محبت کے چار ناول‘‘ نامی کتاب درکار ہے، کہنے لگے شاید ایک آدھ کاپی سٹور میں موجود ہو۔ آپ اپنا پتا دے دیں میں ملتان بھجوا دوں گا۔ دو تین بعد حسب وعدہ کتاب میرے ہاتھ میں تھی۔ اب یہ کتاب لائبریری کی الماری میں موجود ہے اور محفوظ بھی۔
انیسویں صدی کا باکو۔ علی اور نینو کی محبت، جوبالشو یک انقلاب کے دوران ہونے والی لڑائی میں علی کی شہادت پر ختم ہوئی۔ کتاب کا اختتام دل پر افسردگی طاری کر دیتا ہے۔ ”سوا پانچ بجے‘‘ گند شا کے پل پر، علی خان شیروان شیر اپنی مشین گن کے پیچھے ہلاک ہو گیا۔ میں اس کی لاش اٹھانے گیا اس کے جسم پر آٹھ گولیوں کے نشان تھے۔ اس کی جیب میں میں نے ڈائری پائی۔ میں یہ ڈائری اس کی بیوی نینو تک پہنچا دوں گا۔ ہم نے اسے علی الصبح دفنا دیا۔ اس کے بعد روسیوں نے ہم پر آخری حملہ کیا۔ علی خان شیروان شیر کی موت کے ساتھ ہی ہمارے وطن کی آزادی ختم ہو گئی۔کیپٹن الیاس بیگ ولد سینال آغا،سکنہ موضع بنیادی، نزد باکو
لیکن باکو جانا شاید مقدر میں نہیں تھا۔ پہلے ایک دو ضروری کام آن پڑے۔ پھر بکنگ کروائی مگر غلام قادر کی بیٹی کی شادی آ گئی۔ سوچا باکو تو پھر بھی جایا جا سکتا ہے مگر یہ موقعہ گزر گیا تو اس کی تلافی ممکن نہ ہو گی سو باقی لوگوں کو بتائے بغیر بکنگ کینسل کروا دی۔ ادھر یہ ہوا کہ میری ایم بی اے کی کلاس کے ایک دو دوستوں نے ملتان اکٹھے ہونے کا شوشہ چھوڑ دیا، پہلے تو یہ صرف واٹس ایپ گروپ کی حد تک تھا پھر نہ جانے کیا ہوا؟ ہم سب سیریس ہو گئے۔ 1984ء میں ہم لوگ جدا ہوئے تھے۔ اس دوران میرا تو پھر بھی دوستوں سے کسی نہ کسی حوالے سے رابطہ رہا، لیکن کئی دوستوں نے پھر ایک دوسرے کو دوبارہ دیکھا تک نہ تھا۔ آفتاب عالم نے چونتیس سال بعد ایک آئیڈیل فلوٹ کر دیا اور طارق اس کو لے کر چل پڑا۔ درمیان میں میں کود پڑا اور طے پایا کہ سب لوگ چودہ ستمبر کو ملتان آئیں گے۔ پندرہ کو صبح یونیورسٹی جائیں گے۔ یونیورسٹی سے تو کسی کو خاص لگاؤ نہیں تھا، کہ ہم اولڈ کیمپس میں ہی پڑھائی سے فارغ ہو گئے تھے۔ نیو کیمپس کا ایم بی اے ڈیپارٹمنٹ جو بعد میں آئی ایم ایس، یعنی انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز بن گیا، ہمارے فارغ ہونے کے بعد کی چیزیں تھیں۔ ہمارا زیادہ دھیان ابو بکر ہال میں لگا ہوا تھا جو تب واحد رہائشی ہوسٹل تھا، اور سب اسی میں رہتے تھے۔ حتیٰ کہ شہر میں رہنے والے کلاس فیلو بھی امتحانوں کے دنوں میں پڑھائی کرنے وہیں آ جاتے تھے۔ سو سب کا کسی نہ کسی حوالے سے اس ہوسٹل سے رشتہ تھا۔
سب دوستوں کی رہائش کا اہتمام میرے ذمہ تھا۔
اب سب سے رابطہ شروع کیا۔ بہت سے دوست پاکستان سے باہر جا چکے تھے، تین اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔ نورین، محمود اور عطاء اللہ صدیقی، باقی تیرہ لوگوں نے ملتان اکٹھے ہونے کی ہامی بھر لی۔ آٹھ نو ملتان سے اور پانچ باہر سے۔ راجہ الطاف اور عمران یوسف اسلام آباد، طارق اور قادر لاہور سے، راؤ اعجاز عابد بہاولپور سے، فرحت شاہین، نجم اللہ، محمد صدیق، شاہد حمید، امجد سعید، جمیل ارشد، آفتاب عالم اور میں۔ ہم ملتان والے تھے۔ راجہ الطاف، عمران یوسف، قادر اور طارق محمود رات ہی ملتان آ گئے۔ صبح ہم یونیورسٹی روانہ ہو گئے۔ ہفتے کا دن تھا۔ یونیورسٹی بند تھی لیکن ہمیں اس سے غرض نہ تھی۔ خالی یونیورسٹی میں گھومتے رہے۔ اکا دکا نوجوان طالب علم ہم سفید بالوں والے دس بارہ لوگوں کو حیرانی سے دیکھ رہے تھے کہ یہ کون ہیں جو چھٹی والے دن یونیورسٹی میں اس مزے سے گھوم رہے ہیں۔ کئی دوست دوبارہ چونتیس سال بعد یہاں آئے تھے۔ سارا نقشہ تبدیل ہو چکا تھا۔ کینٹین کی جگہ عمارتیں تھیں، ایک لڑکا کسی لڑکی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ طارق نے عمران یوسف کو کندھے سے پکڑ کر ہلایا اور کہنے لگا۔ عمران! وہ دیکھو تم بیٹھے ہو۔ عمران تھوڑا سا کھسیانہ ہو گیا۔ ہم سب نے اتنے زور سے قہقہہ لگایا کہ وہ لڑکا ایکدم گڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ پوچھنے لگا آپ کون ہیں؟ دل کیا کہ اسے کہوں ہم سب دراصل ”تم ‘‘ ہیں لیکن میں خاموش رہا۔ عمران یوسف نے اسے بتایا ہم سب کلاس فیلو ہیں اور یونیورسٹی میں آج چونتیس سال بعد اکٹھے ہو کر آئے ہیں۔ وہ لڑکا ہمارے یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے شاید ڈیڑھ عشرے بعد پیدا ہوا تھا۔ ہم سب کو حیران ہو کر دیکھنے لگ پڑا۔
وہاں سے ہم سب ابوبکر ہال کی طرف چل پڑے۔ سب نے ہاسٹل کے باہر بائیں ہاتھ والی کینٹین کو دیکھ کر خوشی سے نعرہ لگایا۔ اوئے! کینٹین وہیں پر ہی ہے۔ طارق کہنے لگا لیکن اس کی حالت ٹھیک ہونے کے بجائے خراب ہو چکی ہے۔ ہاسٹل کے اندر داخل ہوئے تو سب اپنے اپنے کمرے کی طرف چل پڑے۔ سب سے پہلے راؤ اعجاز کا کمرہ تھا۔ کمرہ نمبر بیس، دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے ایک لڑکا نکلا۔ اسے رائو نے بتایا کہ یہ میرا کمرہ تھا۔ لڑکا کہنے لگا اندر آئیں۔ رائو اسے بتانے لگا کہ میں اس کمرے کا قانونی اور میری طرف اشارہ کر کے کہنے لگا یہ غیر قانونی رہائشی تھا۔ کمرے میں دو چار پائیاں تھیں، راؤ نے پوچھا اب اس کمرے میں کتنے لڑکے رہتے ہیں۔ اس نے بتایا دو دو لڑکے رہتے ہیں۔ آگے راجہ الطاف کا کمرہ تھا۔ دائیں مڑے تو آگے مرحوم عطا اللہ صدیقی کا کمرہ تھا۔ طارق نے اپنا کمرہ ڈھونڈ لیا۔ عمران یوسف نے اپنے کمرے کے دروازے پر سیلفی لی۔ ہاسٹل کے سارے لڑکے ہم کو حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔ ہاسٹل کلرک نے مجھے پہچان لیا اور ہم سب کو دفتر میں لے گیا۔ چائے پر بڑا اصرار کیا مگر ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا۔
راہداری میں کھڑے سب اپنی اپنی یادیں تازہ کر رہے تھے۔ میرے بگل بجانے کا قصہ۔ رائو کے کریکر چلانے کی سٹوری۔ ہاسٹل کے صحن میں لڑکوں کے کپڑے سوکھ رہے تھے۔ میں نے کہا عمران یوسف اپنے کپڑے پہچان لو۔ سب ہنسنے لگ پڑے۔ ہم سب چونتیس سال پیچھے چلے گئے۔ ہاسٹل کے کمروں میں سب مقیم لڑکے ہم جیسے تھے۔ رتی برابر فرق نہیں تھا۔ ہمیں لگا یہ کوئی اور نہیں۔ ہم ہیں۔ یہ وہ لمحات تھے جب چونتیس برس کہیں اڑن چھو ہو گئے تھے۔
اچانک کسی نے قادر کے ہاتھ میں پکڑی سٹک کو ٹہوکا دیا اور ہم سب حقیقت کی دنیا میں آ گئے۔ سارا دن چند لمحوں میں گزر گیا۔ خدا جانے اب ہم سب دوبارہ کب ملیں گے اور خدا جانے تب ہم میں سے کتنے اس جہان رنگ و بو میں موجود ہوں گے۔ تاہم وعدہ کیا ہے کہ اگلے سال دوبارہ اکٹھے ہوں گے۔ یار زندہ صحبت باقی۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ