ڈاکٹر اختر شمارکالملکھاری
موت کا ایک دن معین ہے:ڈاکٹراخترشمار

آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹاراہ میں یاں ہرسفری کا
موت برحق ہے ہرذی روح نے آخر کو جانا ہے۔ اور پھر جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی۔ بیگم کلثوم نواز رخصت ہوئیں ۔ محترمہ کی تدفین مکمل ہوئی۔ اچھا وقت گزارکے چلی گئیں اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے ۔کلثوم کئی ماہ سے اپنی بیماری سے نبردآزماتھیں۔ ان کے خاندان کے لیے ان کی جدائی ایک گہرا صدمہ ہے اور اس زخم جدائی کو بھرتے کچھ وقت تو لگے گا ۔ آفاق کی اس منزل سے ہرانسان کو اسی طرح جانا پڑتا ہے۔ سب کچھ یہیں دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔ موت کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ موت امیر غریب اور کمزور کو بھی نہیں دیکھتی۔ انتہائی دولتمند بھی اس گھڑی سے خود کو نہیں بچاسکتے ۔ اگر کوئی برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک کے ہسپتال میں علاج کراتے بھی موت سے نہیں بچ سکتا تو یقین رکھنا چاہیے کہ اتنی دولت جائیدادیں بینک بیلنس اسی دنیا میں پڑے رہتے ہیں کوئی شخص موت سے خود کو نہیں بچا سکتا۔
میاں نواز شریف سے تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا ہے۔ ہرشخص غم کی اس گھڑی میں اپنی شکل دکھا کر حاضری لگوانا چاہتا ہے۔ عزیزواقارب کی بات اور ہے وہ تو سبھی دکھی ہیں مگر تعزیت کرنے والے سیاستدان تاجر، صنعت کار ، اور ان کی پارٹی کے لوگ سبھی میاں صاحبان کو اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہتے ہیں۔ یہ دنیا کا دھندہ ایسے ہی چلتا ہے۔
تعزیت کے لیے بڑے بڑے سیاستدان بھی تشریف لائے۔ ایسے موقعوں پر کچھ دیر کے لیے انسان بالکل سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ وقت تدفین قبر کے اردگرد کھڑے لوگ بالکل ساکت ہو جاتے ہیں۔ سب کو اپنی ”اصل“ اور اوقات، بھلے چند لمحوں کے لیے سہی ، ضرور یاد آتی ہے۔ ظاہر ہے ایک انسان میت کی صورت میں مٹی میں دفن ہورہا ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر کچھ دیر بندہ اپنی موت کے بارے سوچتا تو ہے۔ابھی کچھ عرصہ قبل ہمارے ادبی قبیلے سے کچھ لوگ اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ مشتاق احمد یوسفی، یوسف حسن، منوبھائی کی وفات پر تو کئی کالم لکھے گئے گزشتہ دنوں اقبال ارشد ملتان میں انتقال کر گئے میں نے بھی کالم لکھا تو ایک محفل میں مرددرویش بولے ! ادیبوں شاعروں کی بیماری کے دنوں میں اس طرح کے کالم کیوں نہیں لکھے جاتے۔ ‘ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ ہم دوستوں کو لکھ کر یاد کرنے کے لیے ان کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ جیسے ہی کسی اہم ادیب شاعر کی موت کی خبر چھپتی ہے یار لوگ دھڑا دھڑا اس پر کالم باندھنے لگتے ہیں اور مرحوم کے ساتھ اپنے تعلقات کے ایسے ایسے تذکرے ہوتے ہیں کہ لگتا ایسا ہے جیسے مرحوم کے سب سے زیادہ قریب یہی ”موصوف“ تھے۔
اگلے روز اکادمی ادبیات پاکستان نے لکھاریوں کے نامورنقاد محقق اور ماہر تعلیم ڈاکٹر سلیم اختر کے گھر جاکر ان کی عیادت کرنے کا جتن کیا ۔ ایسے جتن کا آئیڈیا ہمیشہ سرفراز سید یا حسین مجروح کا ہوتا ہے۔ میں نے ڈاکٹر سلیم اختر کا اسی کمرے میں انٹرویو کیا۔ جس سے احباب کو ان کے صاحب فراش ہونے کا پتہ چلا ،کئی دوستوں نے میرا انٹرویو پڑھ کر انہیں فون کیے تھے۔ انٹرویو میں ڈاکٹر سلیم اختر نے بیمار ولاچار ادیب شاعر کی حالت زار اور خاص طورپر ”احساس تنہائی“ کا ذکر کیا تھا۔ ظاہر ہے ایک زندہ دل اور محفلوں کی جان سمجھا جانے والا متحرک ادیب شاعر ایک کمرے تک محدودہوکر رہ جائے اوپر سے بیماریوں سے نبرد آزما بھی ہو ۔ اس کی سوچ کا اندازہ لگانا چنداں آسان نہیں۔ یہ تو جس تن لاگے سوتن جانے۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ اس وقت ڈاکٹر سلیم اختر ہی ایک کمرے میں چار برس سے تنہائی کا عذاب نہیں سہ رہے بلکہ چند اور اہل قلم بھی ہیں جو شدید علیل ہیں ۔
اکادمی ادبیات پاکستان اور اہل قلم کو جاننا چاہیے کہ اسی شہر میں انور سجاد جیسا ڈرامہ نگار، فنکار اور ناول نگار بیمار ہے۔ اور وہ گمنامی کی حدتک بالکل الگ تھلگ ہے۔ وہ جو محفلوں کی جان ہوتے ہیں ان سے زیادہ کون جانے کہ تنہائی کا احساس اور پھر بیماری کے عالم میں، کیا عذاب ہوا کرتا ہے۔ سائرہ ہاشمی بھی شدید علیل ہیں۔ اور بھی لوگ ہوں گے ہم اپنے ادیبوں شاعروں کی خبر نہیں رکھتے۔ ان دنوں تو شہر میں دس بارہ دس بارہ کی ٹکڑیاں بنی ہوتی ہیں۔ انہیں بزرگ سینئر اور خاص طوربیمار اہل قلم کی کیا پروا ہوسکتی ہے۔ ہرشعبے میں ایسے لوگ موجود ہوں گے، صحافیوں میں فوٹو گرافرز میں فنکاروں میں کتنے ہی لوگ بیمار ہوں گے ہوسکتا ہے ہمیں خبر ہی نہ ہو۔ اگر ان کی زندگی میں انہیں نہ ملا جائے، ان کی مزاج پرسی نہ کی جائے۔ خبرگیری کا خیال نہ رکھا جائے تو ان کی موت پر بھی ہمیں کالم لکھنے کا حق نہیں ہے۔
موت برحق ہے اور ہرذی روح نے جانا ہے لیکن بروقت کسی کو پوچھنا اور خوش کرنا بعد میں رونے سے کہیں بہتر ہے۔ بات بیگم کلثوم نواز سے شروع ہوئی تھی ۔ ہم سب نے مرجانا ہے بس یہ بات یاد رکھی جائے اگر موت ہروقت آنکھوں کے سامنے ہوتو بندہ پٹڑی پر رہتا ہے۔ موت فراموش کردی جائے وہ سفاک اور ظالم ہی نہیں، لالچی اور خودغرض بھی بن جاتا ہے۔ ان دنوں جیسے حالات ہیں اس میں دیکھ لیں ہرطرف اپنی اپنی پڑی ہوتی ہے۔ ٹریفک سے سماج کی ایک جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ حرص وہوس نے ہمیں تباہ وبرباد کردیا۔ خواہشات کی غلامی نے ہمیں سفاک کردیا ہے۔ ہم محبت بھی کریں تو وہ بھی دکھاوے کی ہوتی ہے۔ بقول ابوالعلامعرّی
دل پانی سے بھرا ہوا برتن ہے اور خواہشات ، اس پر پانی کے بلبلوں کی طرح چھارہی ہیں نہ میری پیدائش میرے اختیار میں ہے نہ میرا بڑھاپا ، نہ زیست ….کیا اس پر بھی میرا کسی چیز پر اختیار ہے ؟؟
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)