(گزشتہ سے پیوستہ)
میر ی زندگی کےبہترین سال مرشد احمدندیم قاسمی، محبت کرنیوالے، ٹیلنٹ کو پروموٹ کرنے والے، ادب واحترام کے پورے ماحول میں بے تکلفی،صف اول کے افسانہ نگار، شاعر، تنقیدنگار، کالم نگار، نئی نسل کی ذہنی تربیت کرنے والے ، پکے سچےپاکستانی،انجمن ترقی پسند مصنفین کے آخری جنرل سیکرٹری کیساتھ بسر ہوئے۔ جب ہم سفر ہوتے تو سفر کا ’’سواد‘‘ دگنا ہو جاتا ۔میں نے ان کیساتھ جتنے سفر کئے ہیں صرف ان کی روئیداد لکھنے بیٹھوں تو ندیم صاحب کی مکمل شخصیت آپ کے سامنے آ جائے خواہ آپ زندگی میں کبھی ان سے ملے ہی نہ ہوں فی الوقت مجھے جو باتیں یاد آ رہی ہیں ان میں سے ایک برمنگھم کے مشاعرے میں شرکت کے حوالے سے ہے۔ تنظیم نے ندیم صاحب کیلئے بزنس کلاس کی ایئر ٹکٹ ارسال کی اور ان کے ہمراہ، ہم نوجوانوں کیلئے لندن سے برمنگھم تک ایک قیمتی گاڑی کا اہتمام کیا مگر ندیم صاحب نے شکریے کیساتھ ایئر ٹکٹ واپس کر دیا اور کہا میں اپنے دوستوں کیساتھ سفر کرونگا۔ چلیں یہ سب کچھ ہوگیا ہم نے لندن سے برمنگھم کا راستہ خوش گپیوں کےساتھ طے کیا۔ اسکاٹ لینڈ میں داخل ہوتے ہی قطار در قطار جھیلیں تقاضا کر رہی تھیں کہ ہم اپنی آنکھیں ان کے پاس مستعار رکھ دیں واپسی پر لینا چاہیں تو لے لیں۔برمنگھم اسکاٹ لینڈ سے واپسی کے سفر میں ایک سروس اسٹیشن پر رکے اور چائے وغیرہ پینے کیلئے اندر چلے گئے ایک ہم سفر ایسے بھی تھے جو ساتھ ہونے کے باوجود بیگانے بیگانے سے تھے ہم نے ان کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دی مگر انہوں نے کہا میں چائے نہیں پیتا۔بہرحال جب ہم اپنی تمام ’’حاجات‘‘پوری کرنے کے بعد اپنی گاڑی کے پاس پہنچے تو دیکھا ہمارے وہ ہم سفر شاعر پوری سیٹ پر لیٹے ہوئے ہیں میں نے ان سے عرض کی کہ وہ زحمت کریں اور اٹھ کر بیٹھ جائیں تاکہ باقی ساتھی بھی اپنی نشستوں پر بیٹھ جائیں بولے میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے میں بیٹھ نہیں سکتا ،میں نے کہا برادر اللہ آپ کو ہمیشہ صحت مند رکھے مگر یہاں تو کوئی ڈاکٹر دستیاب نہیں ویسے آپ یہ بھی دیکھیں کہ ندیم صاحب کتنی دیر سے آپ کے اٹھنے کے انتظار میں باہر کھڑے ہیں، بولے میں نے آپ کو بتایا ہےناکہ میری طبیعت خراب ہے ان کا یہ حتمی جواب سن کر میں نے بہت پیار سے ان کے ہاتھ کو اوپر کی طرف کھینچااور کہا ’’اٹھ تیری….‘‘ اور وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئے اور لندن تک مکمل ٹھیک ٹھاک رہے ۔
یہ بھی لندن کا واقعہ ہے ہم سب کیلئے ایک بہت مہنگی جگہ پر بہت اعلیٰ فلیٹ لیا ہوا تھا، میں ایک صبح جوانی کی گہری نیند سویا ہوا تھا کہ کچھ دیر بعد میرے کانوں میں ایک محبت بھری آواز سنائی دی ’’عطاصاحب، عطا صاحب ’’ دو چار منٹ کے بعد میری آنکھ کھلی تو دیکھا ندیم صاحب میرے لئے ہاتھوں میں چائے کا کپ لئے کھڑے ہیں میں شرم سے پانی پانی ہوگیا اس سے زیادہ شرم کا موقع کوئی ایک گھنٹے بعد آیا میں شاور لیکر اور چینج کرکے بغیر استری شدہ دو تین جوڑے ہاتھوں میں اٹھائے باہر نکلا تو دیکھا ندیم صاحب اپنے کپڑے استری کر رہے ہیں ۔انہوں نے میرے ہاتھ میں کپڑے دیکھے تو پوچھا کہ کہاں جا رہے ہیں میں نے عرض کی نیچے ایک لانڈری ہے وہاں یہ کپڑے استری کیلئےدینے جا رہا ہوں۔ یہ سن کر ندیم صاحب نے کپڑے میرے ہاتھ سے لے لئے اور کہا چھوڑ جائیں میں اپنے کپڑوں کے ساتھ یہ بھی آئرن کر دوں گا۔میں نے کہا ندیم صاحب پلیز یہ سوچئے بھی نہیں کہ ایسی گستاخی مجھ سے ہو سکتی ہے آپ آرام کریں میں آپ کے کپڑے بھی تیار کراکے لاتا ہوں مگر ندیم صاحب بضد تھے کہ آپ بھی اپنے کپڑے لانڈری کے پاس نہ لے کر جائیں مگر جب میں نہ مانا تو بالآخر ندیم صاحب نے کہا میں جانتا ہوں کہ میری بات آپ کبھی نہیں مانیں گے کیونکہ آپ سامراج کے حامی ہیں اور کپڑوں کی استری کے بہانے آپ برطانیہ کی معیشت کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں ۔ وہ یہ کہتے ہوئے زیر لب مسکراتے رہے میں نے جرات تو نہیں کی کہ اس کے جواب میں کچھ کہوں ؎
نکالا چاہتا ہے کام تو طعنوں سے کیا غالب
والا مصرعہ دل ہی دل میں دہراتا ہوا لانڈری کے پاس پہنچ گیا۔ یہ قصہ بھی لندن کا ہے ساقی فاروقی، ندیم صاحب مجھے اور خالد احمد کو اپنی کار میں لندن کی سیر کرا رہے تھے اور اس کے ساتھ کمنٹری بھی کر رہے تھے کہ یہ وہ ریستوران ہے جہاں برٹرینڈ رسل ،جان اسٹورٹ بل، جینا وولن، جارج برنا ڈشا، ایچ جی ویلز، جوزن کوریڈ، ٹی ایس ایلیٹ، ہنری جیمز اور ای ایم فارسٹر ایسے افسانہ نگار، فلاسفر اور شاعر بیٹھ کر گپ شپ کرتے رہے ہیں ۔اس وقت چار بج رہے تھے بھوک سے سب کا براحال تھا تب میں نے ساقی کو مخاطب کیا اور کہا ساقی بھائی یہ سب جگہیں تو ہم نے دیکھ لی ہیں کسی ایسی جگہ لے جائیں جہاں لوگ کھانا کھاتے ہوں اس پر سب سے بلند قہقہہ خود ساقی کا تھا …باقی کل۔
( بشکریہ : روزنامہ جنگ )
فیس بک کمینٹ