ماہ جولائی کا آغاز ہوچکا ہے۔ اردو ادب اس مہینے احمد ندیم قاسمی جیسی عہد ساز شخصیت سے محروم ہوا تھا۔ انھوں نے اپنی عملی زندگی کے پہلے دن سے ’ لکھنا‘ اختیار کیا تھا۔ ان کی انگلیوں اور انگوٹھے میں شاید کوئی مقناطیسی رو چلتی تھی، تب ہی قلم کبھی ان کی انگلیوں اور انگوٹھے کی گرفت سے جدا نہیں ہوا اور وہ زندگی کے آخری دن تک لکھتے رہے۔ یوں کہیے کہ قلم سے ان کا جنم جنم کا رشتہ تھا۔
شاعر، افسانہ نگار یا کالم نگار تو بہت سے ہوتے ہیں لیکن وہ صرف ادیب ہی نہیں، ادیب گر بھی تھے۔ برصغیر کی مسلم تاریخ میں سیدان بادشاہ گر کا نام ایک خاص اہمیت رکھتا ہے ۔ یہ وہ دو بھائی تھے جو ہندوستان کے تخت پر جسے چاہتے بٹھاتے اور جسے چاہتے اٹھاتے تھے۔ ساقی کے شاہد احمد دہلوی کی طرح احمد ندیم قاسمی بھی ایک شاندار ادیب گر رہے ہیں۔
پاکستان بننے سے برسوں پہلے وہ بچوں کے رسالے پھول، خواتین کے رسالے ’’ تہذیبِ نسواں‘‘ کے مدیر ہوئے تو بچوں اور عورتوں کو لکھنے کی ترغیب دیتے رہے۔ ادبِ لطیف، سویرا اور نقوش، کی ادارت ان کے سپرد ہوئی تو انھوں نے نئے ادیبوں کی تلاش اور تراش خراش شروع کردی۔ 1950 میں روزنامہ امروز کی ادارت سے وابستہ ہوئے تو نو آموز صحافیوں کے مضامین کی اصلاح کی ذمے داری اپنے سر لے لی۔
1963 میں حبیب اشعر کے ساتھ شراکت میں سہ ماہی ’’ فنون‘‘ نکالا تو یوں محسوس ہوا جیسے قسّام ازل نے نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ان کی تقدیر میں لکھ دی ہے جس طرح پرندے اپنے بچوں کو اُڑنا سکھاتے ہیں، اسی انداز سے وہ نئے لکھنے والوں کو سلیقۂ پرواز سکھاتے اور پھر انھیں شہرت کی بلندیوں پر لے جاتے، جس کی بڑی مثالیں فہمیدہ ریاض اور پروین شاکر ہیں۔ ان کی ادب پروری اور ادیب پروری نے انھیں لاہور کی علمی اور ادبی زندگی میں قطب الاقطاب کا درجہ دے دیا تھا کہ جس کے در پر حاضری کے بغیر لاہور کا سفر سپھل نہیں ہوسکتا تھا۔
اب سے پینتالیس، چھیالیس برس پہلے جب انھیں ایک تازہ کار شاعرہ منصورہ احمد ملیں تو ان کی جوہر شناس آنکھوں نے منصورہ میں چھپے ہوئے جوہرِ قابل کو پہچان لیا۔ ان کی تراش خراش نے منصورہ احمد کو عہد جدید کی ایک جانی مانی شاعرہ کے طور پر کوچۂ ادب میں متعارف کروایا۔
منصورہ ان لوگوں کی طرح نہیں تھیں جنھوں نے قاسمی صاحب سے کسبِ فیض کیا اور پھر اپنی راہ لی۔ وہ دوسروں سے بہت مختلف تھیں انھوں نے قاسمی صاحب کو ’’ بابا ‘‘ کہا اور28 برس کی طویل رفاقت میں ان کے رشتے کا حق ادا کر دیا۔ شعر کہنے والی دیگر لڑکیوں کی طرح وہ نہ سنہرے خوابوں کے ہرن کی تلاش میں نکلیں، نہ انھوں نے ہفت رنگ تتلیوں کا تعاقب کیا انھوں نے عمر عزیز کے 28 برس اپنے بابا کی خدمت گزاری اور فنون کی خاطر داری میں بسر کر دیے۔
ان کے لیے قاسمی صاحب کا چلا جانا ایک بڑا سانحہ تھا لیکن وہ با ہمت تھیں، بہادر تھیں ’’فنون‘‘ خانوادہ قاسمی کی ذمے داری ہوا اور خود منصورہ نے ایک نئے ادبی سہ ماہی جریدے ’’ مونتاج‘‘ کا ڈول ڈالا جس کا پہلا شمارہ انھوں نے ’’ نذرِ ندیم ‘‘ کیا۔ اس شمارے کو مرتب کرنے میں منصورہ نے کیسی کیسی کٹھنائیاں سہی ہوں گی، لوگوں کے یاد خزانے سے قاسمی صاحب کی ذات کا مرقع مرتب کرتے ہوئے وہ کیسی اذیتوں سے گزری ہوں گی، اس کا اندازہ بھلا ہم کیسے کرسکتے ہیں۔
’’ مونتاج‘‘ کے اس شمارے میں منصورہ نے ’’ میر ے بابا‘‘ کے عنوان سے چند صفحے لکھے ہیں اور ان میں اپنی اور ان کی گہری وابستگی کا ذکر اتنے والہانہ انداز میں کیا ہے کہ اس رشتے پر رشک آتا ہے۔ وہ لکھتی ہیں : وہ میرے باپ تھے، میرے استاد تھے، میرے دوست تھے اور سب سے بڑھ کر میری روحانی قوت تھے، وہ ایک ایسا ستون تھے جو زمین سے آسمان تک بلند تھا، اس سے ٹیک لگائے لگائے میں لڑکپن سے مڈل ایج تک آگئی۔ باپ وہ ایسے تھے جس کی شفقت کے سمندر کا دوسرا کنارہ دیکھا ہی نہیں جاسکتا۔
باپ بیٹیوں کا سہارا ہوتے ہیں لیکن بابا کا سہارا تو ہزاروں باپوں کے سہارے سے مل کر بنا تھا۔ ہر پریشانی پر کہتے ’’ پریشان کیوں ہوتی ہو میں ہوں نا، کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیں گے۔‘‘ اور میں بے فکر ہوجاتی ۔ اب تو صدیوں سے میں نے یہ فقرہ نہیں سنا اور مصیبتیں ہیں کہ جوق در جوق چلی آرہی ہیں۔
’’ مونتاج ‘‘ کی ابتدا محمد خالد اختر کے مضمون ’’ ایک آدمی۔ احمد شاہ نامی‘‘ سے ہوئی ہے۔ خالد اخترکا کیا کمال جملہ ہے کہ ’’ ہر انسان اپنی ذات میں ایک جزیرہ ہے اور محبت ہی دو انسانوں کو ملانے کا واحد پل ہے۔‘‘ یوں تو قاسمی صاحب پرکئی ادبی جریدوں نے ان کی زندگی میں ہی ضخیم شخصیت نمبر شایع کیے لیکن ان کی ذات اور ان کے ذہنی سفر کا جائزہ ’’ مونتاج‘‘ کے اس شمارے کے بغیر مکمل نہ ہوسکے گا۔
’’مونتاج‘‘ میں منصورہ نے کس کس کی تحریریں اور تاثرات جمع نہیں کیے۔ ان میں چند گزرے ہوئے لوگوں کے مضامین کا انتخاب بھی شامل کیا گیا ہے اور موجودہ لوگوں میں بہت سے بڑے نام اس کے صفحوں پر قاسمی صاحب کو یاد کرتے نظر آتے ہیں۔ قاسمی صاحب کے دو اہم انٹرویو بھی اس میں شامل ہیں جن میں سے ایک ان کی زندگی کا آخری انٹرویو ہے۔
قاسمی صاحب صف اوّل کے افسانہ نگار اور شاعر تھے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ پاکستان بننے کے فوراً بعد صحافت سے وابستہ ہوئے ’ امروز ‘ کے مدیر رہے ۔ متعدد اخباروں میں کالم لکھے اور زندگی کی آخری سانس تک صحافت ان کا اوڑھنا بچھونا رہی۔ ’’ مونتاج ‘‘ میں ان کا ایک انٹرویو شایع ہوا ہے جو اصغر عبد اللہ نے کیا اور اس میں آزادیٔ صحافت کے حوالے سے قاسمی صاحب نے کئی باتیں کی ہیں جو آج آزادیٔ صحافت دینے کے دعویداروں کو آئینہ دکھاتی ہیں۔
اصغر عبداللہ کے ایک سوال کے جواب میں قاسمی صاحب نے کہا ’’ ہمارے دور میں امروز آزاد اخبار تھا اور ہمیں لکھنے کی مکمل آزادی تھی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے اداریہ لکھا ہوا اور میاں افتخار الدین نے اسے غلط کہا ہو۔ 58 میں مارشل لا کی آمد کے ساتھ ہی امروز پر حکومت نے قبضہ کر لیا۔ میں نے انتظامی افسر سرفراز احمد کی خواہش کے برعکس استعفیٰ دے دیا۔
قدرت اللہ شہاب نے مجھے قائل کرنے کی کوشش کی، میں راضی نہ ہوا۔ اس کے بعد نیشنل پریس ٹرسٹ نے لٹیا ہی ڈبو دی۔‘‘ ان سے جب پوچھا گیا کہ آزادی ٔ اظہار کے اعتبار سے مثالی دور حکومت کون سا رہا تو انھوں نے کہا کہ اگست47 سے اکتوبر58 تک مثالی آزادی رہی۔ میں اس زمانے میں اپنے لکھے ہوئے کالم پڑھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ حکومت وقت نے اسے کیسے برداشت کرلیا آج اگر دو سطریں بھی لکھیں تو اربابِ اقتدار پکڑ کر اندر کردیں۔
اس وقت آزادیٔ اظہار اس لیے بھی تھی کہ تازہ تازہ جمہوریت ملی تھی آزادی ٔاظہار کے حوالے سے بھٹو اور ضیا الحق دورکا موازنہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بھٹو صاحب کے دور میں ہمیں بڑی آزادی حاصل تھی بھٹو پر جو اعتراضات ہیں ان کی نوعیت سیاسی ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس شخص نے گرے ہوئے طبقے کو حیرت انگیز شعور دیا، میں دیہات کے اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھتا ہوں میرے آباواجداد دولت کے بل پر تو نہیں البتہ روایت کی وجہ سے بڑے بااثر لوگ تھے۔
میں گاؤں کے اسٹیشن پر اترتا تو کئی کمی میرا بریف کیس اٹھانے کے لیے لپکتے لیکن اب کبھی ایسا نہیں ہوتا پھر چوپال میں ہم پلنگ پر بیٹھتے اور وہ زمین پر مگر اب وہ ہمارے ساتھ پلنگ پر بیٹھتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس شخص کا کنٹری بیوشن ہے جسے ہم ذوالفقار علی بھٹو کہتے ہیں۔ اس نے غریبوں کو احساس دلایا کہ تم بھی انسان ہو اور دولت مند اور بااختیار طبقے سے کم نہیں۔
احمد ندیم قاسمی کے شاہکار افسانے ’’ پرمیشر سنگھ‘‘ کو ہم کیسے فراموش کرسکتے ہیں۔ اس افسانے کی آخری سطریں پڑھنے والوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔
’’ مجھے کیوں مارا تم نے … میں تو اختر کے کیس کاٹنا بھول گیا تھا ۔ میں اختر کو اس کا دھرم واپس دینے آیا تھا یارو۔‘‘
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ