میرے باز پرس کرنے پر میرے سابقہ شوہر نے طلاق نامہ میرے ہاتھ میں تھمایا اور کہا کہ رفعت بیگم تم خواتین چاہے جتنا بھی حقوق نسواں کا واویلا مچا لو، یہ معاشرہ مردوں کا تھا، ہے اور رہے گا۔صدیوں کی یہ قدیم سوچ تم خواتین کے واویلے سے کبھی ختم نہیں ہوگی۔چاہے جتنی مرضی آواز بلند کرلو۔ہوا کچھ یوں تھا کہ میرے میاں (سابقہ) کی علیک سلیک مرد حضرات کے ساتھ ساتھ خواتین کے ساتھ بھی تھی۔اور میرے میاں کا حلقہ مستورات بہت ہی وسیع تھا۔جس پر مجھے بے حد اعتراض رہتا۔میں انھیں اکثر سمجھاتی رہتی کہ آپ خواتین سے دوستی نہ رکھیں۔جس پر وہ کبھی کان نہ دھرتے۔میرے روز روز کہنے پر بھی نہ مانے۔اکثر ہم میاں بیوی کے درمیان پیار و محبت سے شروع ہونے والی گفتگو کا اختتام تلخ کلامی پر ہوتا۔میں انھیں اکثر سمجھاتی رہتی کہ بچے جوان ہورہے ہیں اب تو اپنی حرکات سے باز آجائیں۔لیکن وہ میری بات یونہی چٹکیوں میں نظرانداز کر دیتے۔ اب تو ان خواتین میں اکثر گھر بھی تشریف لے آتیں اور میاں صاحب کی بابت پوچھتیں اور میرا خون جلاتیں۔جب میرے میاں ان سے مہمان خانے میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف ہوتے تو میں جلے پیر بلی کی طرح مہمان خانے کے گرد چکر لگاتی اور کلستی رہتی۔میاں کی ایسی حرکات دیکھ کر میرے اندر انتقام کی ایسی آگ بھڑکی کہ میں نے انٹرنیٹ پر غیر مردوں سے روابط قائم کر لئے۔اب ہر وقت میں ان سے باتیں کرتی رہتی۔جب بھی میاں گھر آتے تو میں انھیں کمپیوٹر کے سامنے براجمان ملتی۔اب آہستہ آہستہ میں نے میاں صاحب کو فراموش کرنا شروع کر دیا۔ایک دن میں کسی صاحب سے محو گفتگو تھی کہ اچانک میاں نے چھاپہ مار ا۔ اور ایک زناٹے دار تھپڑ میرے گال پر رسید کیا۔اور کہا کہ تم جیسی بدچلن اور حرافہ عورت اب ایک سیکنڈکے لئے بھی برداشت نہیں۔میں عبد الماجد بقائم و ہوش و حواس رفعت بیگم تمہیں طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں ، طلاق دیتا ہوں ۔
فیس بک کمینٹ