اقوام متحدہ کے دورے پر گئے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سرگرمی سے خطے میں امن کا مقدمہ پیش کررہے ہیں۔ الجزیرہ کو دئیے گئے تازہ انٹرویو میں انہوں نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لئے جنگ آپشن نہیں ہے۔ انہی خیالات کا اظہار پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی کرتے رہے ہیں اور ان کی خواہش رہی ہے کہ بھارت کے ساتھ امن مذاکرات شروع ہونے چاہئیں کیوں کہ جنگ اس خطے کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے 25 جولائی کے انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے بعد جو بیان دیا تھا ، اس میں بھی اسی خواہش کا اظہار موجود تھا کہ امن کے لئے بھارت اگر ایک قدم آگے بڑھاتا ہے تو ہم دو قدم آگے بڑھیں گے۔
محنت سے تیار کی گئی سیاسی بساط پر چلی جانے والی کامیاب چالوں کی وجہ سے بالآخر ملک کو ایسی حکومت میسر آچکی ہے جو فوج ہی کی زبان بولتی ہے اور اسی کے ایجنڈے کو لے کر آگے بڑھنا چاہتی ہے کیوں عمران خان کے نزدیک یہی ایجنڈا کامیابی سے وزارت عظمیٰ کی مدت پوری کرنے کا راستہ ہے اور اسی طرح وہ کسی بڑے سیاسی بحرا ن سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اسی لئے وزیر اعظم تواتر سے فوجی قیادت سے ملتے رہتے ہیں اور سول ملٹری یگانگت کا گمشدہ باب درخشندہ ستارے کی مانند جگمگاتا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن کیا پاکستان میں سول ملٹری تنازعہ ختم ہونے سے اس کے علاقائی اور خارجہ مسائل حل ہوجائیں گے۔ جبکہ سول حکومت کسی نئی حکمت عملی کی بجائے فوج کے بتائے ہوئے نسخہ کو اپنی زبان میں دہرا رہی ہو اور اسے امن کی خواہش اور روڈ میپ قرار دیا جا رہا ہو۔
بھارت سے دوستی کرنے اور علاقے میں امن اور بھائی چارہ قائم کرنے کے مقدس عسکری مشن کو آگے بڑھانے کے لئے وزیر اعظم نے اس ماہ کے وسط میں بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو ایک ’امن مراسلہ‘ بھی روانہ کیا تھا جس میں دہشت گردی کے بارے میں کھل کر بات کرنے کے علاوہ اقوم متحدہ کے اجلاس کے موقع پر دونوں ہمسایہ ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کےلئے کہا گیا تھا۔ اس سےپہلے 18 اگست کو وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری کے موقع پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت سے آئے ہوئے سابق کرکٹر اور بھارتی پنجاب کے وزیر نجوت سنگھ سدھو کو گلے لگاتے ہوئے امن کی جوت جگانے کی کوشش کی تھی اور بھارتی کانگرس پارٹی کے اس لیڈر کو بابا گرو نانک کے550 ویں جنم دن کے موقع پر کرتار پور میں گردوارہ دربار صاحب تک سکھ زائرین کی بلا روک ٹوک آمد کی فراخدلانہ پیش کش بھی کی تھی۔ اس پیشکش کا بھی تقریباً وہی حشر ہؤا جو بعد میں وزیر اعظم عمران خان کی وزرائے خارجہ کی ملاقات کا کیا گیا۔ بھارت نے ’غور و خوض‘ کے بعد عمران خان کی تجویز قبول کرتے ہوئے واضح کیا کہ ٹھیک ہے کہ سشما سوراج نیویارک میں شاہ محمود قریشی سے مل لیں گی لیکن یہ ملاقات غیر رسمی ہوگی، اسے کسی صورت باقاعدہ مذاکرات کا آغاز نہ سمجھا جائے۔
ابھی تحریک انصاف اور ان کے ہو نہار وزیر عمران خان کی بصیرت اور کامیاب سفارت کاری کے قصیدے پڑھنے کی تیاری ہی کررہے تھے کہ اگلے ہی روز نئی دہلی کی طرف سے پاک بھارت وزرائے خارجہ کی ملاقات منسوخ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان کے ذریعے پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم پر ذاتی حملے کئے گئے اور انہیں دہشت گردی کے ایجنڈے کا حصہ قرار دیا گیا۔ بھارتی وزارت خارجہ نے یہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے حجت کے طور پر پرانے واقعات کو بیان کرنا ضروری خیال کیا لیکن دراصل یہ اعلان مودی حکومت کی ملک کے انتہا پسند عناصر کے سامنے ہتھیار پھینکنے کا اعتراف تھا۔
دنیا کے کچھ ملک شاید اس یک طرفہ اور غیر حقیقی بھارتی رویہ کے بارے میں رائے بنانے کی کوشش کرتے اور پاکستانی سفارت کاروں کو عالمی سطح پر بھارت کی ہٹ دھرمی اور پاکستان کی امن دوستی کا ایجنڈا پیش کرنے کا موقع مل جاتا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ’ ادنیٰ لوگ اعلیٰ عہدوں‘ والے ٹویٹ کے ذریعے بھارت کے ساتھ حساب برابر کردیا۔ اب دونوں ملک سینگ پھنسائے اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں وہ گزشتہ ایک دہائی سے موجود ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں دونوں ملکو ں کے درمیان سرد مہری کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھیں ۔ نواز شریف نے دو مرتبہ بھارت میں نریندر مودی جیسے وزیر اعظم کی موجودگی کے باوجود نئی دہلی کو مذاکرات پر راضی کرنے کی کوشش کی۔ ایک بار نئی دہلی کے ہائی کمیشن میں حریت لیڈروں کو مدعو کرنے پر بھارت بدک گیا اور دوسری بار پٹھان کوٹ اور اڑی حملوں کی وجہ سے بھارت کے سیکرٹری خارجہ کا دورہ اسلام آباد منسوخ کردیا گیا۔
دھرنا 2014 کے بعد پاناما پیپرز نے تحریک انصاف اور عمران خان کی مہم میں نئی زندگی ڈال دی اور نواز شریف اپنی حکومت بچانے کے چکرمیں پہلے’ مودی کے یار‘ بنے پھر نااہل ہو کر مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے اڈیالہ جیل کی سیر کر آئے۔ اب قوم کو پاکستانی سیاست دانوں میں مودی کے ایجنٹوں کا پتہ دینے والے عمران خان وزیر اعظم ہیں اور فوجی کمان ایک ایسے جرنیل کے ہاتھ میں ہے جو بار بار بتاتے رہے ہیں کہ ان دونوں ہمسایہ ملکوں کے پاس امن کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اب گرم جوش اور خوش گفتار شاہ محمود قریشی نیویارک میں ہر فورم پر اس مؤقف کو سامنے لانے کی حتی الامکان کوشش کررہے ہیں تاکہ وطن واپس آکر وہ اپنی سفارتی کامیابی اور نواز حکومت میں وزیر خارجہ نہ ہونے کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان کی داستان الف لیلی تفصیل سے بیان کرسکیں ۔ لیکن مسئلہ یہ کہ سرحد کے دونوں طرف ایک دوسرے کی فوجوں اور چوکیوں کو نشانے پر لینے والی توپیں شاہ محمود یا ان جیسے خوش گمانوں کی باتوں سے متاثر نہیں ہوتیں۔
بھارت میں انتہا پسند سیاسی لابی اب اتنی طاقتور ہو چکی ہے کہ وہ حکومت کو پاکستان کی طرف قدم بڑھانے سے پہلے ہی روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس لابی کو مودی حکومت کی فرقہ وارانہ پالیسیوں اور پاکستان دشمنی پر مبنی بیان بازی نے ہی مضبوط کیا ہے۔ لیکن اب وہ ان گروہوں کے ہاتھوں اس قدر مجبور ہو چکے ہیں کہ ان کی حکومت 24 گھنٹے بھی پاکستانی وزیر خارجہ سے سشما سوراج کی غیر رسمی ملاقات کے بیان پر قائم نہیں رہ سکی۔ مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کی تحریک اور اسے دبانے کے لئے بھارتی فوج کے غیر انسانی ہتھکنڈوں سے ایک طرف بھارت کا جمہوریت اور انسان دوستی کا امیج متاثر ہورہا ہے تو دوسری طرف کشمیر میں سیاسی حل تلاش کرنے میں ناکام ہونے کے بعد بھارتی حکومت کے پاس پاکستان کے خلاف زیادہ تند و تیز لب و لہجہ اختیار کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اگلے برس بھارت میں انتخابات ہونے والے ہیں اور سیاسی پارٹیوں کو جیتنے کے ایسے پاپولسٹ نعروں کی ضرورت ہوگی جو انہیں کامیابی دلوا سکیں۔ پاکستان کی ’دہشت گردی ‘کے مقابلے میں سخت رویہ اختیار کرنے والی حکومت بہرحال اپنے عوام کو یہ تو باور کروا سکتی ہے کہ بھلے وہ سب کا پیٹ بھرنے اور سب کو یکساں مواقع دینے کا اقدام نہیں کر سکی اور خواہ کرنسی بدلو جیسے ڈرامائی فیصلہ سے بلیک منی کا سراغ بھی نہیں لگایا جا سکا لیکن وہ پاکستان کے خلاف کامیاب ’سرجیکل اسٹرائیک ‘ کے ذریعے ہندوستان کے علاوہ کشمیر کے عوام کو بھی دہشت گردوں سے بچانے میں کامیاب ہوئی ہے۔
سستے جذبات کو فروغ دینے والا منہ زور بھارتی میڈیا بھارتی حکومت کے اس خالی ڈھول کو پیٹنے میں مہارت رکھتا ہے اور اب ملک میں ایسے ناظرین و سامعین کی بہت بڑی تعداد تیار کرلی گئی ہے جو پاکستان دشمنی کو ہی اپنی تکلیفوں اور مسائل کا حل سمجھتی ہے۔ گو کہ ورلڈ بنک نے ایک بار پھر قرار دیا ہے کہ اگر یہ دو ہمسایہ ملک ایک دوسرے سے دست و گریبان ہونے کی بجائے مصالحت کا کوئی راستہ تلاش کرسکیں تو ان کی باہمی تجارت کا حجم 37 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ یعنی جو غربت دشمنی کے نعرے لگانے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں کرنے سے دور نہیں ہو پائی ، اس کا اہتمام دوستی اور تجارت کے ذریعے تلاش کیا جاسکتا ہے۔
شاہ محمود قریشی ان پیچیدہ مسائل کو سادہ لوحی سے بیان کرتے ہوئے بھارت کو مذاکرات کی دعوت تو دے رہے ہیں لیکن انہوں نے اس سلسلہ میں ہوم ورک نہیں کیا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ بھی ہے کہ امریکہ بھی اس خطے میں امن چاہتا ہے لیکن اس کا امن بھی پاکستان کو دبانے اور افغانستان میں سیاسی حل کی تلاش تک محدود ہے۔ امریکہ کو نہ کشمیر میں بھارتی استبداد اور مظالم دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے خلاف مسلسل جنگ کی نعرے بازی پر اسے تشویش ہوتی ہے۔ امریکہ کو اس پر بھی تشویش نہیں کہ بھارت نے افغانستان کو پاکستان کے خلاف پراکسی وار کا ٹھکانہ بنارکھا ہے۔ جو جنگ وہ براہ ارست سرحدوں پر کرنے کا حوصلہ نہیں کرتا اسے یا تو افغانستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے جیتنے کی کوشش کرتا ہے یا سرجیکل اسٹرائیک کا متھ کھڑا کرکے اپنے عوام کو خوش ہونے اور نعرے لگانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس صورت حال میں جنگ آپشن نہیں ہے کا نفیس سا بیان نہ تو پالیسی تبدیل کرنے کا سبب بنے گا اور نہ ہی اس سے مسائل حل ہونے کی طرف پیش رفت ہو سکتی ہے۔
پاکستان کو بھارت کے ساتھ مصالحت کا مقصد حاصل کرنے کے لئے کام کا آغاز اپنے گھر سے کرنا ہو گا۔ اگر پاکستان واقعی جنگ کی بجائے امن کو ریاستی پالیسی کے طور پر اختیا رکرنے کا تہیہ کر چکا ہے تو اسے یقین ہونا چاہئے کہ دیانت داری سے اختیار کی جانے والی یہ پالیسی ناکام نہیں ہو سکتی۔ امن چاہنے اور جنگ نہ کرنے کا عزم کرنے والی کسی قوم کو کسی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہو تا۔ یہ خطرہ اس وقت پیدا ہو تا ہے جب امن کا نام لیتے ہوئے جنگ کی تیاری کی جائے اور موقع ملنے پر دشمن پر وار سے بھی نہ چوکا جائے۔ امن کا حتمی فیصلہ کرنے والے ملک کو سب سے پہلے اپنی سرحدوں کے اندر امن قائم کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ملک کے عوام میں اعتماد پیدا کرنا ہوگا کہ انہیں زندہ رہنے اور اپنے طور طریقے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق اور موقع فراہم کیا گیا ہے۔ ماضی میں کی گئی سیاسی اور اسٹریجک غلطیوں کا تدارک صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ان کی عذر خواہی میں وقت اور صلاحیت صرف کرنے کی بجائے نئے لائحہ عمل کے مطابق عدم مداخلت کی پالیسی کا عملی مظاہرہ کیا جائے اور ان عناصر سے فاصلہ اختیار کیا جائے جن سے دوستی اس حد تک وبال جان بن چکی ہے کہ مشرق اور مغرب میں ہمسایوں کے علاوہ دنیا کی سپر پاور بھی ناراضگی کے بعد دھمکیوں پر اتری ہوئی ہے۔ اس تلخی کو نرم خو بیانات کی بجائے عملی اقدامات سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔
اس ہوم ورک کا ایک پہلو اس ہفتہ کے شروع میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی بین العقائد کانفرنس میں سامنے آیا ہے۔ اس کانفرنس میں مقررین نے یکساں طور سے مذہبی شدت پسندی کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ملک میں اقلیتوں کے لئے حالات مشکل ترین ہو چکے ہیں اور ان کی زندگیوں کی حفاظت اور حقوق کا تحفظ ممکن نہیں رہا۔ ہمسایوں سے امن کا خواہش مند کوئی ملک اگر اپنی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کا اہتمام کر لے تو سرحدوں پر اس کے لئے خطرات از خود ختم ہونے لگیں گے۔
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ