ہم اپنے آپ کو بہت خراج تحسین پیش کرچکے۔
اپنی ذہنی پختگی اور سماجی شعور کی تعریف کرچکے۔
مگر آئیے اب ہم اپنی کمزوریوں کا بھی جائزہ لے لیں۔
ایسا لگ رہا ہے کہ ہم بھی کامیابی کے غرور میں آرہے ہیں۔ ہمارے لہجے میں بھی کچھ تکبر آرہا ہے۔ پہلے تو ہم عاجزی کا مظاہرہ کریں تکبر سے توبہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوں۔ اس کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں شکست و ریخت سے بچایا۔ ہمیں عزت بخشی۔ دشمن کے ارادوں کو ناکام بنایا۔
یہ اچھی بات ہے کہ ہم نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی بلایا۔ اتحاد کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ وطن کو درپیش خطرات کا احساس نظر آیا۔ لیکن قومی سیاسی جماعتوں نے اس انتہائی سنگین معاملے پر اپنی مرکزی مجالس عاملہ کا اجلاس بلانے کی زحمت اب تک نہیں کی ہے۔ میں سخت تشویش میں مبتلاہوں کہ بھارت کے وزیر اعظم ہماری سالمیت کے در پے ہیں۔ ہماری بربادیوں کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ ہماری قیادت کی دعویدار قومی سیاسی جماعتوں۔ پاکستان مسلم لیگ(ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی،بلوچستان نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، جی ڈی اے کسی نے بھی ضروری نہیں سمجھا کہ اس نازک صورت حال پر سنجیدگی سے تبادلۂ خیال ہونا چاہئے۔ پارٹیوں کی سینئر قیادت کو بھارت کے ماضی کے رویوںکی روشنی میں حال کے اقدامات کاتجزیہ کرنا چاہئے۔ مجھے ہمیشہ حیرت ہوتی ہے کہ ہم جمہوری رویوں کے دعویدار ہیں لیکن جمہوری تقاضے پورے نہیں کرتے۔ آپس میں مشاورت نہیں کرتے۔ یہ بھی جائزہ نہیں لیتے کہ بھارت کی طرف سے دھمکیاں ،یہ خطرات وقتی ہیں یا آئندہ بھی جاری رہیں گے۔
بھارت نے آج تک پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جن سنگھ پریوار کی توسیع ہے، اپنی ہندو شدت پسندی اور مسلمان دشمنی کے لئے مشہور۔ آر ایس ایس اس کی سرپرست تنظیم ہے لیکن تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تینوں جنگیں کانگریس کے دَور میں ہوئی ہیں۔ بی جے پی صرف چھیڑ چھاڑ کرتی ہے۔ کانگریس باقاعدہ جارحیت کرتی ہے۔ یہ اس لئے یاد دلارہا ہوں کہ ہمیں یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اگر مودی الیکشن ہار گئے۔ کانگریس بر سر اقتدار آئی تو جنوبی ایشیا سے جنگ کے خطرات ٹل جائیں گے۔ بھارت کی سیاسی قیادتیں پاکستان کو ایک حقیقت تسلیم کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ کیا ہماری قومی سیاسی جماعتیں بھارت کے اس وقت کے سیاسی، عسکری اور سفارتی مزاج کو اہمیت نہیں دیتیں۔ وہ یہ تجزیہ نہیں کرنا چاہتیں کہ مودی پلوامہ جیسے واقعات کے ارتکاب کے لئے کیوں تیار ہوئے۔ کیا وہ اپنی داخلی کمزوریاں چھپانا چاہتے ہیں۔ غربت کے خاتمے میں اپنی غفلت پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ ایسے خودکش واقعے کے لئے کشمیر کو ہی کیوں چُنا گیا۔ ہندوستان کے کسی اور علاقے میں خودکش دھماکہ کیوں نہیں کروایا۔
کیا ہماری قومی سیاسی جماعتوں کو یہ جائزہ نہیں لینا چاہئے کہ بھارت میں کتنے انسان کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ کتنے کروڑ کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ بھارت نے کتنے شعبوں میں واقعی پیشرفت کی ہے۔ بھارت سے ہماری تجارت کے اعداد و شُمار کیا ہیں۔ اس تجارت سے کون فائدے میں ہے۔ بھارت یا پاکستان۔ ہم اگر بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں تو بھارت کو کوئی معاشی گزند پہنچے گی، ویسے پاکستانی اکثریت کا موڈ تو اس وقت یہی نظر آتا ہے کہ بھارت کی ہر چیز کا بائیکاٹ کیا جائے۔ عالمی تجارتی اداروں پر واضح کردیا جائے کہ جو ملک ہماری سالمیت کے در پے ہو اس سے تجارتی رابطے کیسے رکھے جاسکتے ہیں؟
ان چند دنوں نے یہ تو ثابت کردیا ہے کہ ہم دفاعی طور پر ناقابل تسخیر ہیں۔ پاکستان کی بری افواج ہوں فضائیہ یا بحری۔سب اپنی اپنی جگہ مستعد۔ تربیت یافتہ اور ہر معرکے کےلئے تیار۔ پاک فضائیہ نے تو اپنی پیشہ ورانہ مہارت کی دھاک بٹھادی۔پاک بحریہ بھی بھارتی جارحیت کے مقابلے کے لئے پوری طرح تیار تھی اور تیار ہے۔دفاعی مضبوطی میں سب سے بڑا اعتماد ہمارے ایٹمی پروگرام نے ہمیں دیا ہے۔ہمیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات کو ہر لمحے یاد رکھنا چاہئیں۔دفاعی طور پر مضبوطی اپنی جگہ مسلّمہ۔ لیکن کیا ہم اقتصادی طور پر بھی اتنے طاقت ور ہیں۔ ہم پر قرضوں کا بوجھ چڑھا ہوا ہے۔ ماہرین معیشت کہتے ہیں، ہمیں اپنے روز مرہ کے اخراجات پورے کرنے کے لئے اندرونی اور بیرونی قرضے لینا پڑتے ہیں۔ بیرونی قرضے کسی بھی ملک کی خود مختاری پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ آپ اپنے فیصلے آزادی سے نہیں کرسکتے۔ کیا ہم اس اقتصادی کمزوری کے حوالے سے کچھ تدبیریں کررہے ہیں۔ کیا ہم خود کفالت کے لئے کوئی منصوبہ بنارہے ہیں۔
یہ بھی ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے یکے بعد دیگرے آنے والے حکمرانوں نے حکمرانی کا کوئی سسٹم تشکیل نہیں دیا ہے۔ ادارے مضبوط نہیں کئے ہیں۔ بلکہ انگریز سے جو ٹھیک ٹھاک سسٹم ورثے میں ملا تھا اسے بتدریج سبوتاژ کردیا ہے۔ میرٹ کو فوقیت نہیں دی جاتی۔ اسی لئے ہمارے نوجوان ٹورنٹو، لاس اینجلز، لندن، دبئی کا رُخ کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔
فروری 2019کے آخری ہفتے جیسے شب و روز ہمارے نوجوانوں کو بھی فخر کا احساس دیتے ہیں۔ ایسے قابل فخر واقعات کی پائیداری کے لئے تدابیر اختیار کرنا بھی قومی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ اتنے اہم اور حساس معاملات پر بھی ان قیادتوں کی طرف سے کوئی جامع پیغام قوم کو نہیں ملتا۔
اگر ہماری سیاسی جماعتیں مرکزی سطح پر تبادلۂ خیال کے لئے اپنی ایگزیکٹو کے اجلاس طلب کرتیں تو یقیناًوہ اس پہلو پر بھی غور کرتیں کہ پلوامہ نے کشمیر کے مسئلے کو پھر عالمی اہمیت دے دی ہے اور یہ حقیقت اُجاگر ہورہی ہے کہ کشمیر کے حریت پسند اس وقت صرف اپنی آزادی اور خود مختاری کے لئے نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں انسانیت کی سر بلندی کی لڑائی لڑرہے ہیں۔ پوری دُنیا نے محسوس کیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اگر کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل نہیں کیا گیا تو صرف جنوبی ایشیا کا ہی نہیں عالمی امن خطرے میں رہے گا۔ کیا یہ سیاسی جماعتیں وقت کی نزاکت اور اہمیت کو نہیں سمجھتیں کہ اس وقت کشمیر کے مسئلے کے مستقل حل پر عالمی رائے عامہ کو ہموار کیا جاسکتا ہے۔
ہمیں اس کمزوری کا بھی احساس کرنا چاہئے کہ بین الاقوامی میڈیا پر ہمارا موقف بھرپور انداز میں پیش نہیں کیا جاسکا ہے۔ کیا حکومت کے متعلقہ محکمے کمزور ہیں یا ہمارے سفارت خانے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کررہے۔ تاریخ نے ہمیں یہ شاندار موقع دیا تھا کہ بھارتی قیادت کی غلط فہمیوں سے بھارت کو اخلاقی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے نتائج اور اثرات کو مستحکم کرنے کےلئے عالمی نشریاتی اداروں اور اخبارات میں پاکستان کا موقف شائع ہونا چاہئے تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ وزارت اطلاعات و نشریات کی ایکسٹرنل پبلسٹی کا محکمہ پاکستان کے وزیراعظم، وزیر خارجہ اور اپوزیشن لیڈرز کے انٹرویوز کا اہتمام کرتا تھا۔ اس معرکے میں ہم پیچھے رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام کو بھی چاہئے کہ وہ بین الاقوامی میڈیا کو خطوط،ای میلز اور وٹس ایپ کے ذریعے اپنے جذبات اور حقائق سے آگاہ کریں۔ ہر لمحہ ہم سے اپنی کمزوریاں سیاسی، سماجی اور اقتصادی کمزوریاں دور کرنے کا تقاضا کررہا ہے۔ کیا ہم اس کے لئے تیار ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ