امیدیں اداروں سے رکھنی چاہئیں۔ شخصیات سے نہیں۔
شخصیات فانی ہیں۔ ان کو کبھی نہ کبھی چلے جانا ہے۔ اگر وہ کوئی نظام قائم کرجائیں تو ان کے اچھے کاموں کو تسلسل مل جاتا ہے۔ ایک چیف جسٹس چلے گئے۔ ایک آگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ملک میں نظامِ عدل مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی توفیق دے۔ بات کرنی ہے۔ آج غلامی کے تسلسل پر۔ اب بھی غلاموں کے غلاموں کا دَور جاری ہے۔ اور سب اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ مطمئن بھی ہیں۔ غلامی کی بہت سی اقسام تاریخ کے اوراق نے ہمیں دکھائی ہیں۔ یہ ساری اقسام کسی نہ کسی صورت پاکستان کے ہر کونے میں موجود ہیں۔ غلامی کی بد ترین قسم وہ ہوتی ہے جب غلام اپنے آپ کو غلام نہیں آقا سمجھتے ہیں۔ لاشعوری طور پر کسی کی غلامی کی بیڑیاں پہنے ہوتے ہیں اور ان کی جھنکار میں مست رہتے ہیں۔
غیر ملکی استعمار کی غلامی میں مجبوری اور بے کسی کا شدید احساس ہوتا ہے۔ اس کے خلاف جدو جہد بھی کی جاتی ہے۔ اس میں باہر سے بھی مدد ملتی ہے۔ نو آزاد یا قطعی طور پر آزاد قومیں۔ مغلوب قوموں کی آزادی کی کوششوں میں مدد کرتی ہیں۔ جیسے ہم مظلوم کشمیریوں کی سفارتی اخلاقی اور سیاسی حمایت کررہے ہیں لیکن جب کوئی اپنوں کا ہی غلام ہوتا ہے تو یہ غیروں کی غلامی سے کہیں بد تر ہوتی ہے کیونکہ سب کسی نہ کسی کے غلام ہیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ غلام آپس میں لڑتے بھی رہتے ہیں۔ جبکہ ان کے آقاﺅں کا آپس میں مضبوط اتحاد ہوتا ہے۔ صدیوں سے جاری غلامی کا یہ سلسلہ اطلاعات کی صدی کہلانے والی اکیسویں صدی میں بھی پوری قوت سے چل رہا ہے۔ کہیں جاگیردار آقا ہے۔ کہیں قبائلی سردار۔ اب بھی دستار بندی کی رسم پورے خشوع و خضوع سے ادا کی جارہی ہے۔ حتیٰ کہ چھوٹے چھوٹے خاندانوں میں بھی سربراہ کی رحلت پر اس کے بڑے بیٹے کو پگڑی پہناکر اعلان کیا جاتا ہے کہ اب آقا یہ ہوگا۔ کہیں مذہبی سربراہوں کی اطاعت اس طرح لازم ہے۔ جیسے کسی غیر ملکی استعمار کی۔ 18ویں ترمیم کے بعد قومی سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کی دستار بندی ہوگئی ہے۔ان کے حکم سے بال برابر سرتابی گردن زدنی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہی حال پرائیویٹ سیکٹر میں کمپنیوں کا ہے۔ کمپنی کا مالک بھی آقا ہے کمپنی کے باقی ملازمین غلام۔ اب غلامی کی نئی شکل مافیاز کی صورت میں آگئی ہے۔ لینڈ مافیا۔ واٹر مافیا۔ ٹرانسپورٹ مافیا۔ مارکیٹ مافیا۔ ڈالر مافیا۔ یہ بھی عام لوگوں کو اپنا غلام بنائے رکھتے ہیں۔ آپس میں گٹھ جوڑ ہے۔ لوگ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرسکتے۔ آقاﺅں کا یہ ٹولہ جو چاہے وہ کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ حکومتی ادارے بھی ان کے غلام ہیں۔ پارٹی کوئی بھی ہو بر سر اقتدار ہو۔ متعلقہ وزیر کتنا بھی اصول پرست ہو۔ اسے بالآخر ان مافیاﺅں کے سامنے سرنگوں ہونا پڑتا ہے۔
معاشرے میں زمانہ جاہلیت کی رسوم و رواج پوری طرح مسلط ہیں۔ ان کی زنجیریں بہت سخت ہیں۔ یہ رسمیں غلاموں کی بے بسی اور بے کسی کو دو چند کردیتی ہیں۔ امریکہ یورپ کے تعلیم یافتہ بھی ان رسموں سے انکار نہیں کرسکتے۔ پھر ایک اور خوف کہ لوگ کیا کہیں گے۔ معاشرہ ہمارے بارے میں کیا سوچے گا۔ یہ تصورات بھی غلامی کے نیٹ ورک کو اور طاقتور بنادیتے ہیں۔ درسگاہیں جو فرد کو ذہنی اور جسمانی آزادی کی طرف لے جانے کی تربیت گاہیں تھیں۔ وہاں بھی غلامی کے اڈّے قائم کردیے گئے ہیں۔ یونیورسٹیاں۔ کالج۔ تعلیمی ادارے نہیں۔ بلکہ بادشاہوں کے دربار ہیں۔ جہاں طلبہ و طالبات پابجولاں رہتے ہیں۔ اختلاف رائے کی گنجائش نہیں ہے۔ سوال نہیں کیے جاسکتے۔ یہ دَور کالجوں یونیورسٹیوں میں اب بھی موجود ہے۔خاص طور پر میڈیکل کالجوں میں۔ کیونکہ وہاں تعلیمی دورانیہ دوسرے کالجوں کی نسبت طویل ہے۔ یہاں بد ترین قسم کا غلامانہ دَور ہے۔ یہاں کے آقا صرف کالج مالکان یا حکومتی انتظامیہ نہیں ہے بلکہ بے رحم اساتذہ ہیں۔ طلبہ و طالبات اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتاتے ہیں کہ سمسٹر سسٹم میں وہ اپنے اساتذہ کے رحم و کرم پر ہیں۔ خوشامد اور ذاتی کام کرادینے سے مجموعی نمبروں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ حقیقی قابلیت بے معنی ہے۔ بہت سے مقامات پر اساتذہ کی اکثریت لیکچر محض کاغذ پر پورے کرتی ہے۔ پورا سمسٹر استاد کی شکل بھی نظر نہیں آتی۔ شکایت کرنے پر زبانی امتحان Vivasمیں انتقاماً فیل کردیا جاتا ہے۔ چاہے تھیوری میں کتنے اچھے نمبرہوں۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ اساتذہ اور انتظامیہ کا رویہ بہت ہی توہین آمیز ہوتا ہے۔ ویسے کلاس ریپریزینٹو کا سسٹم موجود ہے۔ اگر سی آر کسی کی شکایت استاد تک پہنچاتا ہے تو سی آر اور طالب علم دونوں کی ڈائریکٹ سپلی یا Datainکرکے تعلیمی دورانیہ بڑھادیا جاتا ہے۔میڈیکل طالب علموں کی مشکلات فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی ہیں بلکہ ہاﺅس جاب اور ملازمت کے دوران بھی توہین کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یونیورسٹیوں کالجوں میں یہ غیر دوستانہ۔ ناخوشگوار ماحول۔ مستقبل میں بے روزگاری کی لٹکتی تلوار۔ نوجوان طالب علموں میں شدید مایوسی اور بے زاری پیدا کررہی ہے۔ خودکشیاں ہورہی ہیں۔ دماغوں کی شریانیں پھٹ رہی ہیں۔ فنڈز مہیا کیے جاتے ہیں لیکن یونیورسٹیوں۔ کالجوں کا ماحول بہت مایوس کن ہے۔ سرکاری کالجوں کے ہوسٹلوں میں غلامی کے آثار اور بہت زیادہ ہیں۔ سہولتیں ناپید ہیں۔ ایک اک کمرے ایک اک چارپائی پر مطلوبہ تعداد سے زیادہ طالب علم رہنے پر مجبور کیے جاتے ہیں۔
انتہا پسندی اور دہشت گردی نے بھی معاشرے سے آزادی کے تصورات غصب کرلیے ہیں۔ سیکورٹی کے اداروں نے ان ر±جحانات کو ختم کرنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن لوگوں کے ذہنوں پر ان کا اب بھی غلبہ ہے۔ جب کسی قوم میں غلامی کی اتنی اقسام پائی جاتی ہوں تو دوسری قومیں ایسی قوم کو غلام در غلام بنانے کے لیے بے تاب ہوتی ہیں۔ کہیں مالی امداد۔ کہیں قرضوں۔ کہیں یادداشت کی مفاہمتوں۔ کہیں عالمی تجارتی نظام کے ذریعے۔ کہیں آئی ایم ایف۔ کہیں عالمی بینک انہیں ذہنی اور معاشی طور پر غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیتے ہیں۔ غلامی تحقیق اور تخلیق کی دشمن ہے۔ آزاد خیالی کا راستہ روکتی ہے۔ ایسے ماحول میں اکثریت کی تخلیقی ندرت پسندی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ چند آقاﺅں کی سوچ غالب رہتی ہے۔ اور یہ چند آقا بھی در حقیقت کسی نہ کسی کے غلام ہوتے ہیں۔
\
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)