بشارت صاحب بھاری بھرکم آدمی تھے۔ میانہ قد، چندیا صاف، گول مٹول چہرہ۔ پیٹ بھی گول مٹول تھا۔ میں نے انھیں ایک دو بار ہی دیکھا ہوگا۔ یہ میرے بچپن کا ذکر کا ہے لیکن ان کی صورت اچھی طرح یاد ہے۔ وہ خانیوال کے بلاک چودہ کی پہلی گلی میں رہتے تھے۔ اسی گلی میں میرے بڑے ماموں کا گھر تھا۔ میں ماموں کے ہاں آتے جاتے اس مکان کو دیکھتا تھا جس میں بشارت صاحب رہتے تھے۔
بشارت صاحب اس مکان کے مالک نہیں تھے۔ وہ ہمارا مکان تھا اور بشارت صاحب کرائے دار تھے۔ بابا نے مکان خالی کرنے کا تقاضا کیا تو انھوں نے کوئی عذر کیا۔ بار بار کے مطالبے سے کام نہ چلا تو بابا نے مقدمہ کردیا۔ ایک عدالت سے جیت گئے تو بشارت صاحب نے اپیل کردی۔ یہ محض وقت حاصل کرنے کا حربہ تھا۔ اپیل ہارنے کے بعد ان کی ہمت جواب دے گئی۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب بابا مکان کا قبضہ لینے گئے اور میں ان کے ساتھ گیا۔ میں نے پہلے بار اندر سے وہ مکان دیکھا۔ وہ دس مرلے کا کھلے صحن والا مکان تھا۔ ایک طرف برآمدہ اور دائیں جانب تین کمرے۔ صحن میں شاید گائے بھینس پلی ہوئی ہوگی کیونکہ گوبر پڑا تھا۔
طویل مقدمے بازی کے باوجود بابا یا بشارت صاحب میں کوئی تلخ کلامی نہیں ہوئی، نہ چہرے پر ناگواری تھی۔ بشارت صاحب نے مکان کی چابیاں بابا کے حوالے کیں۔ مجھے یاد نہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ عدالتی اہلکار حکم پر عمل کروانے آئے ہوں۔
میں نے ایک بار امی سے پوچھا تھا کہ بشارت صاحب مقدمے میں کیوں الجھے ہوئے ہیں۔ کرائے پر ہی رہنا ہے تو دوسرا مکان لے لیں۔ امی نے بتایا کہ بشارت صاحب مرزئی ہیں۔ لوگوں نے مرزئیوں کا سوشل بائیکاٹ کیا ہوا ہے اس لیے انھیں مکان نہیں مل رہا۔بابا کے پاس دس مرلے کا مکان تو تھا لیکن وہ رہنے کے قابل حالت میں نہیں تھا۔ بابا نے پانچ مرلے کا پلاٹ بیچنے اور باقی پانچ مرلے پر نیا مکان بنانے کا فیصلہ کیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس مکان کے دونوں طرف لڑاکا خاندان آباد تھے اور بابا کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہورہا تھا کہ کون سا حصہ رکھیں اور کون سا بیچیں۔خیر، پانچ مرلے کا پلاٹ فروخت کردیا گیا اور بابا نے پانچ مرلے پر خوبصورت مکان تعمیر کیا۔ بدقسمتی سے ہمیں اس میں رہنا نصیب نہیں ہوا اور ہم چند ماہ بعد کراچی منتقل ہوگئے۔ بابا نے وہ مکان بھی فروخت کردیا اور کراچی آنے کے بعد پیسے نہ سنبھال سکے۔ پھر آخری سانس تک کرائے کے مکان میں رہے۔
شادی کے بعد میں 2005 تک والدین کے ساتھ رہا اور اس کے بعد بھی انچولی سوسائٹی میں کرائے کے الگ مکان میں رہا۔ چند سال بعد اس علاقے سے نکلنے کی کوشش کی اور فیڈرل بی ایریا، گلشن اقبال اور نارتھ ناظم آباد میں اسٹیٹ ایجنٹس کے ذریعے اور اخبار میں اشتہار دیکھ کر بھی کرائے کا مکان لینا چاہا۔ فیملی چھوٹی تھی، میرے پاس ایڈوانس کے پیسے تھے، منہ مانگا کرایہ دینے کو تیار تھا لیکن درجنوں جگہ حاضری دینے کے باوجود مکان نہیں ملا۔ کیوں؟ اس لیے کہ کوئی مالک مکان زیدی نام کا کرائے دار رکھنے کو تیار نہ تھا۔
مجھے کبھی کبھی بشارت صاحب یاد آتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ بابا کی اپنی مجبوریاں تھیں لیکن میں ان کی جگہ ہوتا تو بشارت صاحب سے مکان خالی نہ کرواتا۔
( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور ـ)
فیس بک کمینٹ