ہمارے ہاں عدل کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے اور ہوتا چلا آ رہا ہے‘ لوگ اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ یہاں کے غریب انصاف کے لئے بھٹکتے ہیں، نسل در نسل ایک ہی مقدمے میں ساری پونجیاں لگ جاتی ہیں اور تقریباً ہر جگہ نظام میں وسیع کرپشن کا رونا بھی رویا جاتاہے۔ اصلاحِ احوال کے لئے بہت کم اقدامات کئے گئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سماج کے سلگتے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ماضی میں جوش اور برق رفتاری سے ہر شعبے کو مختلف اقدامات سے درست کرنے کی کوشش کی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہاں مسائل ویسے کے ویسے پڑے ہیں۔ ان میں کوئی جوہری تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ہسپتالوں کی بد حالی سے لے کر تجاوزات اور قبضہ مافیا تک کا جبر جوں کا توں قائم ہے۔ نہ سرکاری ملازمین کو ”بڑوں‘‘ کے عتاب سے کوئی ریلیف ہے نہ ہی کرپشن اور دوسری سماجی برائیاں کم ہوئی ہیں۔ نکتہ یہ ہے کہ انفرادی طور پر کوئی بڑے سے بڑا ریاستی اہلکار بھی اپنی سوچ کے مطابق فیصلے لے کر بہتری کی کوشش تو کر سکتا ہے لیکن جس نظام کی رگوں اور شریانوں میں بد عنوانی جیسی بیماریاں پھیل جائیں‘ اسے بااختیار افراد محض احکامات سے ٹھیک نہیں کر سکتے۔ پولیس کا ناجائز استعمال ہو یا سنگین الزامات کی زد میں آنے والے لوگوں کی سیون سٹار ہسپتالوں میں بد قماشیاں ہوں، سبھی مسائل یکمشت اور یکدم حل کرنے اور بد انتظامی و بد عنوانی ختم کرنے کے لئے بہت زور لگانے کا تاثر پیدا کیا گیا ہے۔ لیکن جب کسی نظام کے انتظامی ڈھانچے مفلوج ہو جائیں تو حقیقت یہ ہے کہ سٹیرائڈ ٹیکوں سے کوئی بہتری نہیں آتی۔ یہ حقیقت گزشتہ تقریباً دس سالوں میں کئے گئے اقدامات اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج سے ہمارے سامنے واضح ہوگئی ہے۔ اگر ہم ان ازخود اقدامات کے انجام کا جائزہ لیں تو ناجائز قبضوں سے متعلقہ انکوائری کمیشن، جن میں سول سوسائٹی کے ‘معزز شہری‘ بھی شامل تھے، کوئی سنجیدہ اجلاس کرنے بھی قاصر رہے ہیں، انکوائری کی رپورٹ بنانا تو بہت دور کی بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر ایسے کمیشن بنانے کی ضرورت کیا باقی رہ جاتی ہے اور یہ کیوں بنائے جاتے ہیں۔ کتنے ہی واقعات کا چرچہ ہوا اور کتنے ہی نوٹس لیے گئے لیکن ہر ایشو کچھ عرصے بعد بھلا دیا جاتا ہے۔ فراموش کر دیا جاتا ہے۔ جہاں تک بد عنوانی کا تعلق ہے تو صرف پاناما لیکس میں 432 پاکستانیوں کے نام تھے۔ ان میں سے ایک بھی نہیں پکڑا گیا۔ جن کیسوں میں فوری احتساب اورانصاف کیا گیا وہاں وجوہات مختلف تھیں۔ یہاں کے بد عنوان حکمران طبقات جب اپنے ہی بنائے ہوئے نظام سے ٹکر لینے کی کوشش کرتے ہیں تو انجام یہی ہوتا ہے۔ یہ حقیقت تو سبھی جانتے ہیں کہ ایک ٹکٹ پر دو شو نہیں چلا کرتے۔
کرپشن کے خاتمے کی نعرہ بازی بھی ایک مذاق بن کے رہ گئی ہے۔ جتنا کرپشن کا شور ہے وہ اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ جتنا اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اتنی ہی فراواں ہو جاتی ہے۔ کون سا ادارہ ہے جہاں کرپشن نہیں۔ جس ملک کی 73 فیصد معیشت کالے دھن پر مبنی ہو تو سماج کی کون سی پرت ہے جو کرپشن سے بچ سکتی ہے۔ ہر سطح پر لین دین، سرکاری محکموں میں کام کروانے، ٹھیکے لینے اور دینے سمیت سارا زنگ آلود نظام ہی کرپشن کے تیل سے لبریکیٹ ہوتا ہے۔ اعلیٰ حکام نوٹس لے کر، کبھی موقع واردات پر پہنچ کر احکامات صادر کر دیتے ہیں لیکن پھر ان احکامات پر عمل درآمد تو سرکاری ڈھانچوں نے کروانا ہوتا ہے‘ چنانچہ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل! والا معاملہ ہو جاتا ہے۔
نسل در نسل ذرائع ابلاغ اور نصابوں کے ذریعے مختلف اداروں کی ساکھ قائم کی جاتی ہے۔ اس سے یہ عمومی نفسیات بن جاتی ہے کہ عدل، قانون اور آئین کی بڑی اہمیت ہے۔ ہر بڑا مجرم اور بد عنوان‘ نظامِ عدل کے گن گاتا ہے، جب تک کہ خود نرغے میں نہ آ جائے۔ جب نواز اور مریم روزانہ پیشیاں بھگت رہے تھے تو ان کے مخالفین بہت خوش تھے۔ ان کے پابند سلاسل ہونے پر شادیانے بجا رہے تھے‘ لیکن جب ان کو ذرا سا باور کروایا گیا کہ بد عنوانی میں وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں تو پھر اسی نظامِ عدل میں انہیں کیڑے نظر آنے لگے۔ کبھی نواز شریف کو بھی قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کے وقار کا بڑا بخار تھا‘ لیکن جب ان کے مفادات پر زد پڑی تو موصوف کو انصاف کا ترازو ٹیڑھا نظر آنے لگا۔ لیکن اگر کبھی وہ تھوڑی سی چھوٹ پائیں گے اور ان کے مخالفین کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے گا تو جناب کی نظر میں عدلیہ کا تقدس بھی واپس لوٹ آئے گا۔
ڈی پی او عظمت گوندل کے تبادلے اور معزولی کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ پھر کسی ہسپتال کے دورے اور اس کے میڈیا میں شور شرابے کے ایک دن بعد وہی معمول کی ذلت غریب مریضوں کو پھر سے لاحق ہو جاتی ہے۔ ایک دن حالات ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اگلے دن مریض اور ان کے لواحقین پھر دھکے کھا رہے ہوتے ہیں اور ان کا کوئی پُرسان حال نہیں ہوتا۔
ہمارے ملک میں قائدِ اعظم اور ان کے افکار و فرمودات کے گُن گائے جاتے ہیں اور ساتھ ہی ٹریڈ یونین پر پابندی لگانے کی بات بھی کی جاتی ہے۔ آج بھی بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس ملک کے بانی جناح صاحبؒ نے اپنی سیاست کا آغاز ٹریڈ یونین سے کیا تھا۔ وہ 1925ء میں ڈاک کے ملازمین کی یونین (آل انڈیا پوسٹل سٹاف یونین)، جس کے اراکین کی تعداد 70 ہزار تھی، کے صدر منتخب ہوئے تھے اور 1926ء کے ٹریڈ یونینز ایکٹ کو منظور کروانے میں اُنہوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ عام حالات میں مزدوروں کا اپنی یونین کے علاوہ کوئی پُرسان حال نہیں ہوتا۔ مئی 1886ء میں شکاگو کے مزدوروں نے آٹھ گھنٹے یومیہ کے اوقات کار کے لئے اپنے خون کا نذرانہ دیا تھا۔ اس کے بعد یہ مطالبہ پوری دنیا میں زور پکڑتا گیا۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے کسی حد تک اوقات کار آٹھ گھنٹے یومیہ کروانے کے لئے اقدامات کئے تھے‘ لیکن ضیا آمریت اور بعد کی جمہوری حکومتوں کے دوران محنت کشوں کی خستہ حالی میں اضافہ ہی ہوا۔ آج حالات یہ ہیں کہ شاید ہی کسی ادارے میں آٹھ گھنٹے کے اوقات کار ہوں۔ مزدور 16 گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں ایک فیصد سے بھی کم محنت کش ٹریڈ یونینز میں منظم ہیں۔ وہ بھی زیادہ تر سرکاری اداروں میں۔ ٹھیکے داری اور دیہاڑی دار مزدوری کا نظام رائج ہے۔ علاج کی کوئی سہولیات نہیں، کوئی سوشل سکیورٹی نہیں، کوئی پنشن نہیں۔ کام کی جگہوں میں حفاظت کا کوئی انتظام نہیں اور فیکٹریوں سے لے کر کان کنی تک حادثات میں محنت کشوں کی اموات روز کا معمول بن چکی ہیں۔ جبر و استحصال کی اس اذیت کو صرف مزدور ہی سمجھ سکتے ہیں۔ آئی ایل او اور دوسرے عالمی اداروں کے معاہدے بھی ہیں اور قوانین بھی موجود ہیں۔ لیکن سرمائے کی دھونس کے آگے یہ قوانین بھلا کیا معنی رکھتے ہیں۔
پھر یہاں انصاف کا حصول اتنا مہنگا ہے کہ غریب آدمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی مالی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ وکیلوں کی فیسوں کے ساتھ ساتھ عدل کے ایوانوں کی ہر سیڑھی پر کوئی نہ کوئی خرچہ ہے جس کے بغیر آگے نہیں جایا جا سکتا۔ زیریں عدالتوں میں تقریباً 19 لاکھ، ہائی کورٹس میں تین لاکھ جبکہ سپریم کورٹ میں 38 ہزار مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ نظام عدل اگر خود کرپشن کا شکار ہے تو کرپشن کیسے مٹائے گا؟ پورا زور لگائے جانے کے باوجود نظام جوں کا توں ہے اور ماضی ہی کی طرح بد عنوانی، ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہے۔ جب کسی حکومتی نظام کا وقت گزر جائے تو وہ ناسور بن کر پورے سماج کو بیمار کر دیتا ہے۔ ایسے میں انقلابی جراحی لازم ہو جاتی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ