ناروے کی پاکستانی نژاد وزیر محنت اور ملک کی حکمران جماعت آربائیدر پارٹی کی نائب صدر ہادیہ تاجک نے پارلیمنٹ کی رہائش گاہ استعمال کرنے کے معاملہ پر شبہات سامنے آنے کے بعد وزارت چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ منگل کی شام ایک پریس کانفرنس میں اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان سے پندرہ سال پہلے کچھ غلطیاں سرزد ہوئی تھیں جن کی میں خود ذمہ دار ہوں۔ لیکن میں موجودہ حکومت اور اپنی وزارت پر اس کا بوجھ ڈالنا نہیں چاہتی۔
نارویجئن میڈیا میں اس استعفیٰ کے بعد بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ ہادیہ تاجک نہ تو پوری طرح تمام حقائق سامنے لائی ہیں اور نہ ہی انہیں اپنی غلطیوں پر کوئی خاص پشیمانی ہے۔ انہوں نے اپنی غلطیوں کا اعتراف ضرور کیا ہے لیکن پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کی طرف سے بار بار یہ پوچھنے پر کہ وہ کس غلطی کی معافی مانگ رہی ہیں، ہادیہ تاجک نے وضاحت سے اپنا موقف بیان کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ناروے جیسے دور دراز، چھوٹے ملک میں پیش آنے والا یہ واقعہ پاکستان میں جمہوریت اور میڈیا کی آزادی کے حوالے سے ہونے والے مباحث کو سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔ اس ایک واقعہ سے یہ جانا جا سکتا ہے کہ کسی جمہوری انتظام کی بنیاد اعتماد پر استوار ہوتی ہے۔ جب کسی لیڈر پر یہ اعتماد متزلزل ہونے لگے تو خواہ اس کے خلاف کوئی الزام ثابت نہ بھی ہو سکے یا کسی معمولی غلطی کا اعتراف کر کے اس کی اصلاح کا اعلان بھی سامنے آ جائے لیکن اعتماد کے شیشے میں بال آ جانے کے بعد ایسے سیاست دان کے لئے کسی سرکاری عہدہ پر کام جاری رکھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے۔
اس معاملہ کی مزید تفصیلات پر روشنی ڈالنے سے پہلے یہ جاننا بھی اہم ہے کہ کسی فعال جمہوری نظام میں سیاست دانوں اور عوام کے درمیان اعتماد کے اس تعلق کی نگرانی کسی بھی ملک کا میڈیا کرتا ہے۔ جب میڈیا کسی سیاست دان کی کسی معلوم یا نامعلوم کوتاہی کی نشاندہی کرتے ہوئے سوالات کا سلسلہ شروع کرتا ہے تو متعلقہ سیاسی لیڈر کے لئے اپنی پوزیشن واضح کرنے اور دستاویزی ثبوت کے ساتھ اپنی بے گناہی ثابت کرنے یا غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
کہنے کو تو پاکستان بھی ایک فعال جمہوریت ہے اور یہاں پر بھی تمام سیاست دان اور میڈیا کے نمائندے اعلیٰ جمہوری اور آزادی رائے کی روایات پر عمل کرنے کے دعوے دار ہیں۔ متعدد مین ٹی وی چینلز کے علاوہ کثیر تعداد میں یو ٹیوبرز دن رات بعض ’سچائیاں‘ عوام تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ایسی کسی سچائی پر نہ تو کوئی اتفاق رائے دیکھنے میں آتا ہے اور نہ ہی کوئی اپنے سچ کا ثبوت پیش کرنے کی زحمت کرتا ہے۔ اس کا ہی نتیجہ ہے کہ بہت سی سچائیاں تو بیان کی جاتی ہیں لیکن یہ ہر فرد کی اپنی سچائی ہوتی ہے جسے کوئی دوسرا تسلیم نہیں کرتا کیوں کہ ہر کسی کے پاس اپنا ایک سچ ہوتا ہے۔ یہ سارے سچ مل کر میڈیا کی خود مختاری اور جمہوری روایت کی اصابت کو داؤ پر لگانے کا سبب بنتے ہیں۔
رہی سہی کسر ملک کے سیاسی لیڈر اور بظاہر جمہوری عمل کے ذریعے برسر اقتدار آنے والے حکمران اپنے بے سر و پا بیانات، الزامات، مخالفین کو نیچا دکھانے کے ہتھکنڈوں سے پوری کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں صرف فوجی آمر ہی نہیں بلکہ کوئی سیاسی لیڈر بھی ایک بار اقتدار مل جانے کے بعد اسے اپنی جاگیر بنا لینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مقصد کے لئے ہر غیر جمہوری اور غیر اخلاقی ہتھکنڈا اختیار کیا جاتا ہے اور اسے ’ہنر مندی‘ کا نام دے کر سیاست اور سیاست دان کو بدنام اور جمہوریت کو بے توقیر کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے کسی کو نہ جمہوریت یاد رہتی ہے اور نہ ہی یہ سچائی اس کے پیش نظر ہوتی ہے کہ اقتدار ایک عوامی امانت ہے اور اس پر اسی جماعت یا لیڈر کا حق فائق ہو گا جسے عوام منتخب کرتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد قانون سازی کے معیوب طریقے یعنی آرڈی ننس کے ذریعے احکامات صادر و نافذ کیے جاتے ہیں۔ الزامات کے علاوہ مخالفین کو جعلی مقدمات میں پھنسانے اور سرکاری اداروں کے ذریعے انہیں عاجز کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ ملک میں جمہوریت کے نام پر جو نظام استوار ہے اس میں تمام کرداروں کے بارے میں شبہات موجود ہیں۔ حکومت اپوزیشن کو چور لٹیرے کہتی ہے اور اپوزیشن حکمران لیڈروں کو نا اہل اور عوام دشمن ثابت کرنے کا کوئی طریقہ فروگزاشت نہیں کرتی۔ باقی کمی میڈیا کو فریق بنانے یا کالے قوانین کے ذریعے آزادی رائے اور معلومات حاصل کرنے کے بنیادی حق کو محدود کرنے کی کوششوں سے پوری کردی جاتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر لیڈر خود کو ناگزیر سمجھتا ہے اور اس کا دعویٰ ہوتا ہے کہ اس کے بغیر ملکی سیاست میں جمہوری عمل کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ یہ قومی رویہ درحقیقت جمہوری نظام حکومت کی روح کے منافی ہے۔ اس نظام میں سیاسی لیڈروں کو اجارہ داری قائم کرنے کی بجائے پارٹی اور سیاسی عمل کی ترویج سے نت نئی قیادت کو ابھرنے کا موقع دینا ہوتا ہے لیکن پاکستانی جمہوری نظام میں ایسے راستے روک کر ’اعلیٰ‘ جمہوری روایت کے فروغ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
ہادیہ تاجک کی کہانی بیان کرنے سے پہلے یہ نوٹ کرنا بھی اہم ہے کہ پاکستان دنیا کی شاید واحد جمہوریت ہے جہاں پر سیاسی فیصلے محلاتی سازشوں اور درپردہ جوڑ توڑ سے ہوتے ہیں یا غیر منتخب ادارے سیاسی لیڈروں کے ’انتخاب و رہنمائی‘ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اب یہ علت ملکی نظام میں اس قدر سرایت کرچکی ہے کہ جمہوری مباحثہ میں شریک کوئی شخص اگر جمہوری عمل کو حقیقتاً عوامی رائے سے تشکیل دینے کی بات کرتا ہے تو اسے معروضی یا زمینی حقائق سے نابلد اور کسی حد تک فاترالعقل سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں سے لے کر میڈیا، ٹی وی مباحث اور گلیوں محلوں میں ہونے والی گفت و شنید میں یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ’اصل قوتوں‘ کا ہاتھ کس کے سر پر ہے تاکہ آئندہ انتخاب یا اس سے پہلے رونما ہونے والے کسی وقوعہ میں اسی کے مطابق وفاداریاں متعین کی جاسکیں۔
وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان کے بعد رونما ہونے والے واقعات اس سچائی کا پردہ فاش کر رہے ہیں۔ لاہور کے چوہدری، بلوچستان کی عوامی نیشنل پارٹی یا کراچی میں ایم کیو ایم کی وفاداریوں کو حقیقی طاقتوں کا بیرو میٹر بنا لیا گیا ہے۔ اسی لئے کبھی شہباز شریف لاہور میں چوہدریوں کے گھر حاضری دیتے ہیں تو تھوڑے دن بعد ہی وزیر اعظم بنفس نفیس چوہدری شجاعت حسین کے دولت خانہ پر حاضر ہو کر ’عدم اعتماد کی سازش‘ کا زہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس عمل میں سرکاری ترجمان اور اپوزیشن کے نمائندے یکساں ڈھٹائی سے اسٹبلشمنٹ کی آشیرباد کے دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں یا اس امکان پر اپنی امیدوں کی فصل کاشت کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ ایسے میں جمہوریت اور عوامی رائے کے احترام کا معاملہ کھٹائی میں پڑ جاتا ہے اور آزادیوں کے تحفظ کا نعرہ نمائشی بن کر رہ جاتا ہے۔
ناروے کی مستعفی ہونے والی 39 سالہ وزیر ہادیہ تاجک کا معاملہ اس پس منظر میں سبق آموز ہے اور رہنما اصول کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ ہادیہ تاجک پاکستان سے ناروے جا کر آباد ہونے والے ماں باپ کے گھر پیدا ہوئی تھیں۔ انہوں نے صحافت اور قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصہ صحافی کے طور پر کام کیا لیکن نوعمری میں ہی آربائیدر پارٹی کے ساتھ متحرک ہو کر سیاست میں اپنی جگہ بنانے کے لئے سخت محنت کی۔ وہ ایک با اصول اور محنتی سیاست دان کی شہرت رکھتی ہیں اور آربائیدر پارٹی میں مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے وہ پارٹی کی نائب صدر کے عہدے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔ وہ 2009 سے نارویجئن پارلیمنٹ کی رکن ہیں اور 2012 میں وزیر ثقافت بننے سے پہلے وہ 2006 سے مختلف وزارتوں کے علاوہ وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں سیاسی مشیر کے طور پر خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں۔ ان کے شاندار سیاسی کارناموں کو دیکھتے ہوئے امید کی جا رہی تھی کہ وہ ایک روز ملک کی سب سے بڑی پارٹی آربائیدر پارٹی کی رہنما منتخب ہوجائیں گی اور ممکنہ طور سے تارکین وطن سے تعلق رکھنے والی پہلی وزیر اعظم بن سکیں گی۔ تاہم ایک معمولی غلطی اور میڈیا کے ساتھ سیاسی معاملات کو درست طریقے سے نمٹنے میں ناکامی کی وجہ سے اب ان کا سیاسی کیرئیر شبہات کا شکار ہو گیا ہے۔
گزشتہ ماہ کے دوران ناروے کے اخبار آفتن پوستن کو یہ خبر ملی کہ ہادیہ تاجک نے 2019 کے دوران تین ماہ کے لئے ارکان پارلیمنٹ کے لئے مختص مفت رہائش گاہ حاصل کی تھی حالانکہ اس وقت اوسلو میں ان کا اپنا فلیٹ تھا۔ ان معلومات پر اخبار کے سوالوں کا جواب دینے کی بجائے ہادیہ نے ایک فیس بک پوسٹ میں اس خبر کے مندرجات کو مسترد کیا اور اسے ’میڈیا سکینڈل‘ سے تعبیر کیا۔ انہوں نے اخبار کے خلاف یہ جارحانہ طرز عمل اس حقیقت کے باوجود اختیار کیا کہ یہ خبر ابھی تحقیقاتی مراحل سے گزر رہی تھی اور اسے شائع نہیں کیا گیا تھا۔ ہادیہ تاجک ابھی آفتن پوستن کے ’ناجائز‘ طرز عمل سے نمٹنے کی کوشش ہی کر رہی تھیں کہ ایک دوسرے اخبار وے گے نے انکشاف کیا کہ 2006 میں سیاسی مشیر کے طور پر انہوں نے ستورتنگ کی مفت رہائش حاصل کی تھی۔ یہ مفت رہائش ایسے ارکان کو دی جاتی ہے جو اوسلو سے باہر سے آتے ہیں اور اپنے علاقے میں ان کے رہائشی اخراجات بھی ہوتے ہیں۔ اس صورت میں کسی بھی رکن یا سیاسی مشیر کو ٹیکس فری رہائش مل سکتی ہے۔
خبروں کے مطابق ہادیہ نے روگا لاند میں اپنے ایک ہمسائے کا گھر کرائے پر لینے کا معاہدہ متعلقہ دفتر کو فراہم کیا حالانکہ وہ اس کرائے کے گھر میں کبھی نہیں رہیں۔ اس پر سوال سامنے آنے پر ہادیہ کا موقف تھا کہ وہ اس وقت اپنے والدین کے گھر رہتی تھیں اور گھریلو اخراجات میں حصہ دیتی تھیں کیوں کہ ان کی آمدنی میں اچانک بہت اضافہ ہو گیا تھا۔ تاہم وہ ان اخراجات کی رسیدیں فراہم کرنے یا یہ بتانے سے قاصر رہیں کہ وہ کرایے کی مد میں کتنی رقم اپنے والدین کو ادا کرتی تھیں۔ ہادیہ تاجک نے ایک بار پھر اخبار کے براہ راست سوالوں کا جوب دینے کی بجائے فیس بک پوسٹ میں اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ انہوں نے کوئی ناجائز کام نہیں کیا کیوں کہ وہ بہر حال رہائشی اخراجات ادا کرتی تھیں۔ تاہم یہ وضاحت میڈیا اور سیاسی عناصر کے لئے کافی نہیں تھی اور ان پر اپنی پوزیشن واضح کرنے اور سوالوں کے ٹھوس اور قابل قبول جواب دینے کا دباؤ بڑھتا رہا۔ اس دباؤ سے نکلنے کے لئے ہادیہ تاجک نے 2006 سے 2010 کے دوران ٹیکس فری رہائش کا ٹیکس ادا کرنے کا اعلان کیا لیکن اس دوران ایک اخبار یہ خبر سامنے لایا کہ جس وقت ہادیہ اپنے والدین کے ساتھ رہتی تھی اسی وقت وہ روگالاند ہی کے علاقے میں دو اپارٹمنٹس کی مالک تھی۔ اس انکشاف کے بعد ملک کی طاقتور لیبر یونین ایل او کے تین لیڈروں نے ہادیہ سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ اور منگل کی سہ پہر کو ہادیہ نے وزیر محنت کے طور پر استعفی دینے کا اعلان کر دیا۔
ہادیہ تاجک کے حوالے سے یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے۔ ایک لائق و محنتی سیاسی لیڈر کو ماضی کی ایک معمولی کوتاہی کی وجہ سے اس مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے واقعہ کو پندرہ سال پرانا قرار دے کر اور یہ کہہ کر کہ اس وقت ان کی عمر محض 23 برس تھی، اپنی پوزیشن صاف کرنے کی کوشش کی لیکن اسے دلیل کے طور پر نہیں مانا گیا۔ ناروے کے فعال جمہوری نظام میں ٹیکس گزاروں کے وسائل کے بارے میں احتساب اور جواب دہی کا کڑا نظام موجود ہے۔ اس سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ یا تو اپنی بات کو دستاویزی طریقے سے ثابت کیا جائے یا غلطی مان کر غیر مشروط معافی طلب کی جائے اور قانون و قواعد کے مطابق سزا یا جرمانہ بھگتا جائے۔ ہادیہ تاجک کا معاملہ پندرہ سال پرانا ہے اس لئے اس میں اگر کوئی قانون شکنی ہوئی بھی ہے تو طویل وقت گزرنے کی وجہ سے یہ معاملہ پرانا تصور ہو گا لیکن ہادیہ تاجک کو اس کی بھاری سیاسی قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔
سوال ہے کہ کیا پاکستان میں جمہوریت لانے یا نافذ کرنے کے دعوے دار سیاسی لیڈر یا حکمران بھی اس شفاف آئینے میں اپنی شکل دیکھ سکتے ہیں؟ یا وہ جانتے ہیں کہ ان کے کردار کا آئینہ دکھا دیا جائے تو وہ خود ہی اپنی بھیانک شکل دیکھ کر ڈر جائیں گے۔