ریاض: سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی پر چلنے والی خبر میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی سرکاری تحقیقات کے مطابق سعودی صحافی جمال خاشقجی کی موت دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ہونے والی ایک ‘لڑائی’ کے بعد ہوئی ۔ سرکاری ٹی وی کے مطابق ان تحقیقات کے بعد نائب انٹیلی جنس چیف احمد العسیری اور ولی عہد محمد بن سلمان کے سینیئر مشیر سعود القحطانی کو بھی برطرف کر دیا گیا ہے اور 18 سعودی شہریوں کو بھی حراست میں لے کر شامل تفتیش کیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے جمال خاشقجی کی موت کی تصدیق کی گئی ہے۔سعودی حکام کی جانب سے سامنے آنے والی رپورٹ کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ جو ہوا ہے وہ ‘بالکل ناقابل برداشت’ ہے لیکن ساتھ ساتھ انھوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب ان کے ملک کا بہت اہم اتحادی ہے۔امریکی صدر نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سعودی حکومت کی جانب سے 18 افراد کو حراست میں لینا ‘پہلا قدم’ ہے۔ صدر ٹرمپ نے سعودی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا انھوں نے تیزی سے اقدامات لیے۔ ساتھ ساتھ ان کا کہنا تھا کہ پابندیاں عائد کرنے کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے لیکن ایسا کرنا امریکی معشیت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔اس سوال پر کہ کیا وہ سعودی حکومت کی جانب سے دی گئی تفتیشی رپورٹ کو قابل یقین سمجھتے ہیں، اس پر صدر ٹرمپ نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘جی ہاں’۔واضح رہے کہ جمال خاشقجی کے لاپتہ ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر یہ ثابت ہوا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی موت میں سعودی عرب کا ہاتھ ہے تو وہ اسے ‘سخت سزا’ دیں گے۔سعودی عرب کے پبلک پراسیکیوٹر کے جانب سے ایک بیان میں کہا ہے کہ قونصل خانے میں جمال خاشقجی اور ان کے لوگوں کے درمیان جھگڑا شروع ہوگیا جن سے وہ ملے تھے جس کا اختتام ان کی موت پر ہوا۔بیان کے مطابق ‘تحقیقات تاحال جاری ہیں اور 18 سعودی باشدوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔’رپورٹس میں دو سینیئر اہلکاروں کو برطرف کرنے کے بارے میں بھی بتایا گیا۔سعودی رائل کورٹ کے اہم رکن اور ولی عہد محمد بن سلمان کے مشیر سعود القحطانی کو برطرف کیا گیا ہے۔سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ‘جنرل انٹیلی جنس کے نائب صدر احمد العسیری کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔’میجر جنرل احمد العسیری نے یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے ترجمان کے طور پر فرائض سرانجام دیے تھے۔
فیس بک کمینٹ