لندن : انڈیا کے وزیرِاعظم نریندر مودی نے اپنے ملک کے خلائی سائنسدانوں کو بتایا کہ وہ ایسے پروگرام پر فخر محسوس کرتے ہیں جو چاند پر تحقیقات کرنے کے قریب آچکا ہے۔انڈین خلائی جہاز چندریان 2 کے ساتھ رابطہ اس وقت منقطع ہو گیا جب اس کا وکرم ماڈیول چاند کے جنوبی قطب پر لینڈنگ سے چند لمحے دور تھا۔ابھی تک اس خلائی جہاز کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں لیکن وزیرِ اعظم مودی کا کہنا تھا کہ ایسے مزید مواقع آئیں گے۔
انڈین خلائی ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کے صدر کے سیون نے مشن کے بارے میں کہا ہے کہ ’چاند گاڑی وکرم منصوبے کے مطابق اتر رہی تھی اور چاند کی سطح سے 2.1 کلومیٹر دور سب کچھ معمول پر تھا۔ لیکن اس کے بعد اس کا رابطہ ختم ہو گیا۔ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے گا۔‘انڈین وقت کے مطابق اس سیٹلائیٹ کی رات 1:30 بجے سے 2.30 بجے کے درمیان چاند کے جنوبی قطب پر لینڈنگ متوقع تھی۔ انڈیا کا چندریان ٹو خلا میں چھوڑے جانے کے ایک ماہ بعد 20 اگست کو چاند کے مدار میں داخل ہوا تھا۔
اب سے پہلے کوئی ملک چاند کے اس حصہ پر نہیں گیا۔ اس سلسلے میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی انڈین خلائی تحقیقاتی ادارے اسرو پہنچ چکے ہیں۔اگر انڈیا کو اس مشن میں کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو وہ سابق سوویت یونین، امریکہ اور چین کے بعد چاند کی سطح پر لینڈنگ کرنے والا چوتھا ملک بن جائے گا۔
یاد رہے کہ انڈیا کے چاند کے پہلے مشن چندرائن 1 نے ریڈارز کی مدد سے سنہ 2008 میں چاند کی سطح پر پانی کی پہلی اور سب سے مفصل تلاش کی تھی۔انڈیا کا پہلا مشن ‘چندریان ون’ سنہ 2008 میں چاند کی سطح پر اترنے میں ناکام رہا تھا لیکن اس نے ریڈار کی مدد سے چاند پر پانی کی موجودگی کی پہلی اور سب سے تفصیلی دریافت کی تھی۔
‘چندریان ٹو’ چاند کے جنوبی قطب پر آہستہ سے اترنے کی کوشش کرے گا۔ خیال رہے کہ چاند کے اس حصے کو ابھی تک نہیں کھوجا جا سکا ہے۔اس مشن کے تحت چاند کی سطح پر توجہ مرکوز کی جائے گی اور دوسری چیزوں کے ساتھ وہاں پانی اور معدنیات کی تلاش کی جائے گی جبکہ چاند پر آنے والے زلزلے کے بارے میں بھی تحقیق کی جائے گی۔
انڈیا اس مشن کے لیے اپنا سب سے مضبوط راکٹ جیو سنکرونس سیٹلائٹ لانچ وہیکل (جی ایس ایل وی) مارک تھری استعمال کر رہا ہے۔ اس کا وزن 640 ٹن ہے (جو کہ کسی بھرے ہوئے جمبو جیٹ 747 کا ڈیڑھ گنا ہے) اور اس کی لمبائی 44 میٹر ہے جو کہ کسی 14 منزلہ عمارت کے برابر ہے۔
اس سیٹلائٹ سے منسلک خلائی گاڑی کا وزن 379۔2 کلو ہے اور اس کے تین واضح مختلف حصے ہیں جن میں مدار پر گھومنے والا حصہ ‘آربیٹر’، چاند کی سطح پر اترنے والا حصہ ‘لینڈر’ اور سطح پر گھومنے والا حصہ ‘روور’ شامل ہے۔مدار میں گردش کرنے والے حصے کی زندگی ایک سال کی ہے جو چاند کی سطح کی تصاویر لے گا اس کے ساتھ وہ وہاں کی مہین ماحول کو سونگھنے کی کوشش بھی کرے گا۔
سطح چاند پر اترنے والے حصے کا نام اسرو کے بانی کے نام پر ‘وکرم’ رکھا گیا ہے۔ اس کا وزن نصف ہے اور اس کے بطن میں 27 کلو کی چاند پر چلنے والی گاڑی ہوگی جس پر ایسے آلات نصب ہوں گے جو چاند کی سرزمین کی جانچ کر سکے۔ اس کی زندگی 14 دن کی ہے اور اس کا نام ‘پراگیان’ ہے جس کا مطلب دانشمندی ہے۔ یہ لینڈر سے نصف کلو میٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتا ہے جہاں سے وہ زمین پر تصاویر اور اعدادوشمار تجزیے کے لیے روانہ کرے گا۔
اسرو کے سربراہ ڈاکٹر کے سیوان نے پہلی بار لانچ کرنے کی کوشش سے قبل کہا تھا ‘جب روور اپنا کام کرنے لگے گا تو انڈیا چاند سے اپنی پہلی سیلفی کی امید کر سکتا ہے۔’
ڈاکٹر سیوان نے کہا ہے ‘جب لینڈر کو چاند کے جنوبی قطب کی طرف پھینکا جائے گا تو سائنسدانوں کے لیے وہ 15 منٹ تک کا وقفہ خوف والا ہوگا۔’
اس مشن کے لیے تقریبا ایک ہزار انجینیئرز اور سائنسدانوں نے کام کیا ہے۔ لیکن پہلی بار اسرو نے کسی خاتون کو اس مہم کا سربراہ مقرر کیا ہے۔دو خواتین انڈیا کے اس چاند کے سفر کی قیادت کر رہی ہیں۔ پروگرام کی ڈائریکٹر متھایا ونیتھا نے چندریان ٹو کی نگرانی کی ہے جبکہ ریتو کریدھال اس کی رہنمائی کریں گی۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )