اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو سابق صدر اور سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام کی تحقیقات اور مقدمہ چلانے کا گرین سگنل دیدیا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے خلاف مبینہ کرپشن کے تحقیقات کے لیے دائر درخواست کی سماعت میں یہ حکم دیا۔واضح رہے کہ ریٹائرڈ لیفٹننٹ کرنل انعام الرحیم نے 5برس قبل 2014 میں نیب میں درخواست دی کہ سابق صدر اور آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے کاغذات نامزدگی میں ظاہر اثاثے ان کی آمدن سے زائد ہیں جس کی تحقیقات کی جانی چاہیے۔فاضل عدالت کے حکم سے ظاہر ہوگیا کہ نیب سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف مبینہ میگا کرپشن کے الزامات کی تحقیقات میں 19 برسوں تک تذبذب کا شکار رہا۔بعدازاں نیب نےبذریعہ خط 25 اپریل 2013 کو درخواست گزار کو مطلع کیا کہ ‘ان کی شکایت کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کسی فوجی افسر کے خلاف تحقیقات کا دائرکار قوی احتساب آرڈینس (1999) میں شامل نہیں ہے’۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کی جانب سے 2015ء میں سابق صدر کے خلاف تحقیقات سے انکار کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے احتساب عدالت کو ریفرنس بننے پر ٹرائل کا بھی اختیار دیدیا ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ‘ آرمی سے ریٹائرمنٹ اور عوامی عہدہ رکھنے کے باعث نیب کو پرویز مشرف کے خلاف تحقیقات کا اختیار ہے’۔درخواست گزار نے پرویز مشرف کی تصنیف ‘ ان دی لائن آف فائر’ کے باب ‘مین ہنٹ’ کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ ‘پیسے بنانے کے لیے بڑی تعداد میں لوگوں کو امریکا کے حوالے کیا’۔شکایت کنندہ کا موقف تھا کہ پرویز مشرف نے بطور سابق آرمی چیف اور صدر پاکستان اپنےاختیارات اور حلف ناموں کی خلاف ورزی کی جس میں شہریوں کی عزت ، جان اور مال کا تحفظ کا وعدہ کیا گیا۔پٹیشنر نے الزام عائد کیا کہ پرویز مشرف نے اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے ‘آرمی کے انتہائی اعلیٰ طبقے میں اراضی بانٹ کر کرپشن کا ٹیکا لگایا‘۔واضح رہے کہ اپریل 2013 میں پٹیشنر نے نیب کو مبینہ کرپشن کی تحقیقات کے لیے درخواست پیش کی لیکن نیب نے یہ کہہ کر درخواست مسترد کردی کہ پرویز مشرف آرمی چیف جنرل اور صدر پاکستان کے عہدوں پر فائز ہیں اور ان کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کا معاملہ قومی احتساب آرڈینس (این اے او) 1999کے دائرکار سے باہر ہے ۔پرویز مشرف کے قونصل اختر شاہ نے نے 2014 کو نیب میں جواب جمع کرایا کہ این اے او (1999) حاضر سروس آرمی افسرخلاف تحقیقات کا جواز نہیں رکھتی ۔
فیس بک کمینٹ