ماتم۔۔۔۔۔۔ماں سے دھرتی ماں تک کاخود اپنے سمیت سب کچھ اوپرا اوپرا اور مختلف محسوس ہو رہا ہے۔ میرے اِرد گِرد سب کچھ ویسا ہی ہے لیکن کچھ بھی ویسا نہیں رہا۔ والدہ دنیا سے رخصت ہوئیں تو والد محترم و مرحوم کا ان کے بارے کہا گیا یہ جملہ بار بار یاد آ رہا ہے کہ ’’تمہاری امّی کو نماز یں اور نسیم حجازی پڑھنے کے علاوہ اور کچھ اچھا نہیں لگتا‘‘۔ تقریباً چالیس سال پہلے کسی امریکن ماہر نفسیات کا مضمون پڑھا جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ انسان سو سال کا بھی ہو جائے، اگر والدین میں سے کوئی بھی اس کے سر پر موجود ہے تووہ بالغ نہیں ہو سکتا۔ 40سال بعد صحیح معنوں میں اس بات کی سمجھ آئی ہے۔ دُکھ ذاتی اور زخم بہت گہرا اور کبھی نہ بھرنے والا ہے۔ یہ چند سطریں صرف اس لئے لکھ رہا ہوں تاکہ ان بیشمار، بیحد خاص اور بہت ہی عام لوگوں کا شکریہ ادا کر سکوں جو ذاتی ، مواصلاتی اور قلمی طور پر میرے اور اہل خانہ کے اس دکھ میں شریک ہوئے۔ ان سب کا احسان مند ہوں اور ہمیشہ رہوں گا۔ جب جب امّی مرحومہ کے لئے دعا کروں گا۔ یہ سب احباب و اجنبی اس دعا میں شامل ہونگے۔والدہ مرحومہ کے لئے دعائے مغفرت اور خود اپنے لئے صبر و حوصلہ کی دعا کی درخواست ہے میرے گھر سے ماں کے’’ گھر‘‘ تک جانے کتنے موڑ آتے ہیں چل اے دل اب ساری یادیں ان موڑوں پر چھوڑ آتے ہیں اور اب دھرتی ماں کا ماتم، جس کے بارے میں چیئر مین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے’’ملک ایک ،لٹیرے بہت، کوئی انتقام نہیں لے رہا‘‘’’کرپشن کے خاتمہ میں چہرے نہیں، کیس دیکھتے ہیں‘‘’’84ارب ڈالر کا قرضہ کہاں خرچ ہوا، کہیں نظر نہیں آتا‘‘’’پوچھنے پر لٹیرے کہتے ہیں، سازش ہو رہی ہے‘‘واقعی ہماری ڈھیٹ ایلیٹ اور بدمعاشیہ المعروف اشرافیہ کا کلچر ہی یہ رہ گیا ہے کہ جب ان سے حساب مانگا جائے تو اوّل اِسے سازش قرار دیتے ہیں، دوئم یہ کہ بیمار پڑ جاتے ہیں سوئم پیشیوں پر ’’وی‘‘ کے نشان بناتے ہیں اور چہارم یہ کہ ہانکا شدہ عوام کی عدالت لگاتے ہیں۔ جیسی پچھلے دنوں ’’کے پی کے‘‘ میں نواز شریف نے لگائی جس میں ایک نجی پشتو ٹی وی چینل کی ٹیم نے بیشمار برقع پوش خواتین سے نواز شریف کے متعلق پوچھا ’’یہ آدمی کون ہے؟‘‘ کوئی ایک خاتون نواز کے نام تک سے واقف نہ تھی۔ ایک نے کہا ’’کوئی بڑا افسر ہے‘‘ اک اور نے کہا ’’کوئی بندہ نواز ہے‘‘ ۔ تمام تر گفتگو پشتو میں تھی جو ظاہر ہے ہم پنجابیوں کو سمجھ نہ آئی۔ مجھے بھی ہمدم دیرینہ یوسف ہونڈا نے بتایا جو خالص پٹھان ہے، تو یہ رہی وہ عوامی عدالت جس کے پیچھے چھپنے کی مکروہ کوشش ہو رہی ہے۔ ’’ماما جی‘‘ کی عدالت سے بھی بدتر عوامی عدالت سے باہرہوں تو انہیں قدم قدم پر سازش نظر آتی ہے۔پورا ملک کبھی زرداری کر گئے، کبھی ڈکار گئے، کبھی ڈار گئے لیکن پیٹ نہیں بھرے، پھر اُمید سے اور پھر اُمیدوار…….تو اصل علاج ان کا وہی ہے جو سعودی عرب میں شاہی خاندان شاہی خاندان کے ساتھ کر رہا ہے کہ یہاں تو ایسا خاندان سکھا شاہی خاندان ہے جو لوٹ مار کے الزام میں سر عام یہ کہتا ہے کہ ’’اگر ہمارے اثاثے ہماری آمدنی سے زیادہ ہیں تو تمہیں کیا؟‘‘ اس سے بڑا اور بھیانک اعترافی بیان کیا ہو سکتا ہے لیکن کیا کریں ۔بھائی ! قانون تو قانون ہے، اس کے بازو ہی نہیں رستے بھی لمبےیہاں کِرلے ڈائینو سارز بنے پھرتے ہیں۔مینڈکیاں مادہ مگر مچھ بن کر انڈے دیتی ہیں۔برساتی پتنگے شِکرے اور عقاب کہلاتے ہیں۔اور جو غیر سیاسی ڈکیت ہیں، وہ اپنی ڈکیتیوں کے ایسے ایسے جواب اور جواز پیش کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے لیکن کیا کریں کہ اب یہی ہمارا ’’کلچر‘‘ اور ’’وے آف لائف‘‘ بن چکا کہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر بھی پکڑائی نہیں جھکائی دیتے ہیں اور وہ بھی پوری ڈھٹائی وبے حیائی کے ساتھ تو غور کریں کہ ان حالات میں ایسا ہوتا کیوں ہے؟حکمران میرٹ کو پامال کرتے ہوئے اپنے پالتو پروردہ لوگوں کو ٹیکس پیئر کے پیسے پر پالتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر یہ پالتو اپنے پالتو پیدا کرتے ہیں اور پھر وہ پالتو اپنے پالتو علی ہذالقیاس اور جب یہ کہانی ہر شعبہ، محکمہ، ادارہ میں مسلسل دہرائی جاتی ہے تو پورے کا پورا سماج کوڑھ زدہ ہو جاتا ہے ۔ دلالی کی یہ رسم سنو بالنگ والے اصول کے تحت معاشرہ کو مسخ کرکے اس کا چہرہ ہی نہیں کردار بھی بگاڑ دیتی ہے۔ یہ پیغام ایک سے دوسری نسل تک پہنچتے پہنچتے ’’کامیابی کی اِکلوتی کلید‘‘ قرار پاتا ہے۔ لوگ محنت ، جانفشانی، میرٹ، عزتِ نفس وغیرہ جیسی ’’خرافات‘‘ اور ’’لغویات‘‘ کی بجائے شرم ناک شارٹ کٹ تلاش کرتے ہیں اور معاش کے نام پر بدمعاش اور بدمعاشی پورے معاشرے کو مکروہ، قابل نفرت ماحول میں تبدیل کر دیتی ہے۔یہ سب تو ہو چکا اس دھرتی کے ساتھ اب سوچو یہ کہ اسے ریورس کیسے کرنا ہےچوروں کی چیئر مینیاں روکنی کیسے ہیں پلیدوں کو پرائم بننے سے باز کیسے رکھنا ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ جنگ)