سپریم کورٹ میں ان دنوں انتخابی اصطلاحات ایکٹ میں ترمیم پر آئینی درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ بدھ کے روز ان درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے محترم چیف جسٹس ثاقب نثار نے چند اہم ریمارکس دئیے۔ سماعت کے دوران دئیے جانے والے ریمارکس فیصلہ نہیں ہوتے اور نہ انہیں قانون کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ایسے ریمارکس سے زیر سماعت مقدمے کی کارروائی کا رخ جاننے میں مدد ملتی ہے اور بڑی حد تک یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ منصف صاحبان کا ذہن کس نہج پر کام کر رہا ہے۔ یہ عالی دماغ کن سوالات کی گتھی سلجھانا چاہتے ہیں۔ محترم چیف جسٹس کا کلیدی ریمارک تھا کہ ججز کو کوئی نہیں نکال سکتا۔ بعض ریمارکس کی ساخت سے یہ اندازہ بھی ہوا کہ عدلیہ کے محترم ارکان سابق وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ عوامی جلسوں میں اٹھائے سوالات کا جواب دینا چاہتے ہیں، تاہم انہیں احساس ہے کہ جج صاحبان نہ تو عوامی جلسہ کر سکتے ہیں اور نہ اپنے موقف کی حمایت میں عوامی تائید کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ تاہم چیف جسٹس نے یہ فرمانا ضروری سمجھا کہ عوام عدلیہ کے لئے ریڑھ کی ہڈی بنیں گے۔ اس پر کچھ گزارشات ضروری ٹھہریں، عرض معروض واجب ہوئی۔ محضر نامہ لف ہذا ہے۔
بے شک اکیس کروڑ نفوس پر مشتمل یہ قوم اپنے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی محافظ ہے۔ کوئی عدلیہ کے احترام میں کوتاہی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ماضی میں عدلیہ کے اختیارات اور وقار کو کم کرنے کی مثالیں البتہ موجود ہیں۔ آٹھ اکتوبر 1958ء کو ملک کا آئین معطل کیا گیا تو عدالتوں سے آئینی اختیارات چھین لئے گئے تھے، پورے ملک میں صرف ایک شخص نے صدائے احتجاج بلند کی تھی، وہ مغربی پاکستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس محمد رستم کیانی تھا۔ پانچ جولائی 1977 کو ملک کا آئین معطل کیا گیا تو ایک عورت عدالت میں درخواست گزار ہوئی تھی، اس کا نام بیگم نصرت بھٹو تھا۔ مارچ 1981ء میں فوجی آمر نے عبوری آئینی حکم نافذ کیا۔ ایسا آمرانہ حکم عدلیہ کی حتمی توہین ہوتا ہے۔ اس اذیت ناک مرحلے میں سیاسی قیادت نے عدلیہ کی مدد کی۔ جمہوریت کی بحالی عدلیہ کے منصب اور مقام کی بحالی کا سندیسہ تھی۔ عدلیہ کے ہاتھ کاٹنے کی یہ مشق جاری رہی۔ 1999اور 2000 کے بعد 2007 میں آمر کو یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ عدلیہ اس کے عہد صدارت کی توسیع پر مہر توثیق ثبت نہیں کرے گی تو اس نے پوری عدلیہ کو گھر بھیجنا چاہا۔ اس پر ملک کے عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ محترم چیف جسٹس تاریخ کے اس باب سے بہت اچھی طرح باخبر ہیں۔ عوام تو عدلیہ کی حفاظت کرتے رہے ہیں۔ قوم کو گلہ ہے کہ ایک سے زیادہ مواقع پر عدلیہ استقامت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ قوم نے اعلیٰ عدلیہ سے عشرہ در عشرہ جو توقعات وابستہ کیں وہ اکثر نقش بر آب ثابت ہوئیں۔ اس ملک کی تاریخ میں ہم سب سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ سیاست دان، صحافی، منصف، سپاہ، استاد، دانشور، سات دہائیوں پر پھیلی تاریخ ندامت میں کسی کا دامن صاف نہیں ۔ ہمارے دامن پر اہل بنگال کے لہو کے چھینٹے ہیں۔ مقتول وزرائے اعظم کے انصاف مانگتے ہاتھوں کی انگلیوں کے نشان ہماری قوم کے دامن پر ہیں۔ ہمارے سیاسی کارکنوں کی جیلوں میں گزری جوانیوں کا حساب واجب ہے۔ ہم نے چار نسلوں کا معاشی، علمی، تمدنی اور سیاسی امکان غارت کیا ہے۔ یہ پاکستانی قوم کا مقدمہ ہے۔ عدلیہ کے تقدس کی عرضداشت اس مقدمے کا حصہ ہے۔
محترم چیف جسٹس کے ریمارکس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ سیاسی قیادت عدلیہ کے احترام سے گریزاں ہے۔ یہ تاثر درست نہیں۔ سیاسی رہنما آسمان سے ودیعت نہیں ہوتے۔ اس ملک کے گلی کوچوں میں بسنے والی مخلوق کی رائے سے حکمرانی کی امانت حاصل کرتے ہیں۔ سیاسی قیادت اور عدلیہ میں تصادم کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ عدلیہ کے منصب اور مقام کی حفاظت تو ایسی سیاسی قیادت ہی کر سکتی ہے جسے عوام کی تائید حاصل ہو۔ ہمارے سیاسی رہنما تو سر جھکائے عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں۔ بھٹو سپریم کورٹ میں دکھوں کی ماری علیل جندڑی کی اپیل ہار گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو انصاف مانگتے مانگتے شہید ہو گئیں۔ محترم نواز شریف اور محترم یوسف رضا گیلانی توہین عدالت کے مقدمات میں حاضر ہوتے رہے۔ عدالت کے کسی فیصلے سے اختلاف کرنا شہری کا حق ہے۔ قانون کی قوت نافذہ مگر عدلیہ کے ہاتھ میں ہے۔ عدلیہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ عدالت کو انصاف دینا بھی ہے اور انصاف کا تاثر بھی قائم کرنا ہے۔ یہ کسی ایک منصف کی ذات کا مقدمہ نہیں، اور نہ اسے کسی ایک شخص کی ذاتی اصابت اور قانونی مہارت کے بل پر جیتا جا سکتا ہے۔ یہ عدلیہ کی روایت کا مقدمہ ہے اور اسے تسلسل اور تواتر کی نظیر ہی سے قائم کیا جا سکے گا۔
عدالت عظمی میں آئین کی شق باسٹھ الف پر بات ہو رہی ہے۔ سوال اٹھایا گیا ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم پر غور و فکر کرتے ہوئے آئین کی اس شق کو تبدیل کیوں نہیں کیا گیا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ سوال پارلیمنٹ کے حق قانون سازی میں مداخلت کے مترادف ہے۔ تاہم اس رائے سے اتفاق نہ بھی ہو تو یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ اپنے فیصلے کرتے ہوئے قوم کی اجتماعی تصویر اور مختلف قوتوں کے توازن کو مدنظر رکھتی ہے۔ 1973ء میں اس ملک کا متفقہ آئین مرتب کرتے ہوئے ایک قومی سمجھوتے کی کوشش کی گئی تھی۔ قوم کے مختلف دھاروں کو آئین کی 280 شقوں میں سمویا گیا تھا۔ ہمارا آئین قدیم اور جدید ذہن کا امتزاج ہے۔ پاکستانی تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ قائد اعظم کی گیارہ اگست (1947) کی تقریر اور قرارداد مقاصد (1949) میں کون سے زاویے مختلف ہیں۔۔ 1948 میں لیفٹیننٹ کرنل شیر علی خان اور میجر یحییٰ خان پر مشتمل کمیٹی نے نظریہ پاکستان کے کیا خدوخال مرتب کیے تھے۔ فروری 1970 میں پیپلز پارٹی کے خلاف فتوی دینے والے 113 افراد کون تھے۔ 2010ء میں اٹھارہویں آئینی ترمیم پر مختلف سیاسی جماعتوں کے 29 نمائندوں نے 83 اجلاس منعقد کیے تھے۔ اس ترمیم پر اتفاق رائے ضروری تھا۔ اتفاق رائے کے لئے سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کا جغرافیہ بہت خوبصورت ہے لیکن اس ملک کی تاریخ میں تاریک منطقے ہیں۔ 2010ء میں آئین کی شق باسٹھ الف میں تبدیلی کی کوئی کوشش آئین کا پارلیمانی تشخص بحال کرنے کی پوری کوشش کو معرض خطر میں ڈال دیتی۔ سیاسی قیادت کو معاملہ فہمی سے کام لینا ہوتا ہے۔
محترم چیف جسٹس، کسی بھی پاکستانی شہری سے بہتر طور پر جانتے ہیں کہ پاکستان کے لئے سب سے بڑا خطرہ کیا ہے۔ پاکستان کو کسی بیرونی قوت سے خطرہ نہیں۔ پاکستان اپنے دفاع کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کو کسی دہشت گرد گروہ سے خطرہ نہیں، ہماری ریاست دہشت گردوں کو کچلنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے لئے حقیقی خطرہ اس سوچ میں ہے جسے ہم نے عشروں کی مشقت سے تشکیل دیا ہے۔ پاکستان میں مکمل ناخواندہ افراد کی تعداد آزادی کے بعد سے تین کروڑ سے بڑھ کر دس کروڑ ہو چکی ہے۔ اور آبادی کے جس حصے پر خواندہ ہونے کی تہمت ہے وہ عملیت پسند ہونے کی بجائے جذباتی رجحانات رکھتاہے، آسانی سے مشتعل ہو جاتا ہے۔ نفسیاتی طور پر احساس کمتری کا شکار ہے۔ پے در پے ناکامیوں نے پاکستان کے اوسط ذہن کو غیر معمولی طور پر حساس کر دیا ہے۔ ہمارا میڈیا اس جذباتی آتش فشاں کو مسلسل آگ دکھاتا ہے۔ ہمارے ملک میں غیر ذمہ دار اور شعلہ بیاں مقررین کی ایک پوری کھیپ موجود ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ہم ایک جھنجھلائی ہوئی قوم ہیں۔ ہم خود کو بری الذمہ کرنے کے بحران میں مبتلا ہیں۔ ہم دوسروں سے احترام کی درخواست کر رہے ہیں۔ کسی قوم کا وقار غیر تسلیم نہیں کیا کرتے۔ احترام کی یہ فصل اپنے کھیت میں کاشت کی جاتی ہے۔ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ یہ قوم کے جاہ و شرف کی بحالی کا مقدمہ ہے۔ عدلیہ کے تقدس کا معاملہ اس بڑے مقدمے کا ایک ذیلی حصہ ہے۔ اس مقدمے کا فیصلہ عوامی جلسوں میں بھی ہو گا اور کمرہ عدالت میں بھی کرنا ہو گا۔ جلسہ اور عدالت باہم حریف نہیں، ہماری قوم کا قابل قدر حصہ ہیں۔
( بشکریہ : روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ