آج ہمارے عظیم انقلابی نظریاتی رہنما نے صبح نو بجے دارالحکومت کی ایک عدالت میں قدم رنجہ فرمانا تھا چنانچہ حکم کے مطابق انہیں علی الصبح سات بجے ہی بیدار کیا گیا، اس مقصد کے لیے مور کے پر استعمال کیے جاتے ہیں جو ان کے پیروں کے تلوؤں پہ پھیرے جاتے ہیں ،اگر اس سے بھی نیند نہ ٹوٹے تو یہ پر ان کے شکم پر پھیرے جاتے ہیں وہ ذرا سا کسمسا کے قہقہے لگاتے ہوئے اٹھ بیٹھتے ہیں، اگر کبھی بہت ہی گہری نیند میں ہوں تو ان کے کان میں آہستہ سے کہنا پڑتا ہے لاڈلے خادموف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا ، فوراً اچھل کر بڑبڑاتے ہوئے اٹھ بیٹھتے ہیں۔
بیڈ لسی کی ٹرالی لائی گئی ،ایک جگ پیڑوں والی لسی کا غٹاغٹ نوش فرمایا، اخبارات کا بنڈل بھی ساتھ تھا پہلے اخبار کی سرخی دیکھتے ہی چہرے پر غیظ و غضب کے آثار نمایاں ہوئے ، اخبارات کی ہمشیراؤ ں اور والداؤ ں کے بارے میں جنسی کلمات ادا کرتے ہوئے بنڈل اٹھا کر گھریلو ملازمین کے سربراہ سید کرمانی کے منہ پر دے مارا اور حمام کی طرف روانہ ہو گئے، جاتے جاتے مڑے اور دختر نظریات و انقلاب کے بارے میں دریافت فرمایا ، بتایا گیا کہ وہ بیدار ہو چکی ہیں اور غسل سے فارغ ہو کر چہرے کی لیپاپوتی کرا رہی ہیں تو ویری گڈ کہہ کر داخل حمام ہوئے، پندرہ منٹ بعد برآمد ہوئے مشاطی حاضر تھا ، اس نے سرمبارک پر سپرے وغیرہ چھڑک کے زلفوں کو ادھر ادھر سے گھیرگھار کے مطلوبہ جگہوں پر بٹھانے کی کوشش کی پھر کوئی چپچپا مادہ اوپر لگا دیا ۔
بعد ازاں طعام گاہ کی طرف روانہ ہوئے ،دختر نظریات تشریف لا چکی تھیں ، انہوں نے خیرمقدمی کلمات کے بعد کچھ بتانا چاہا تو ہاتھ اٹھا کے فرمایا ابھی نہیں ابھی نہیں ،قاسمیوف کہا کرتے تھے اول طعام بعد کلام ، انواع و اقسام کے کھانے، پھل ، پھلوں کے رس اور مٹھائیاں طویل و عریض میز پر سجی تھیں، پھلوں کے رس سے آغاز کیا ایک ایک گلاس سیب ، انار ، امرود اور مسمی کے رس کا نوش فرمایا، دل کے آپریشن کے بعد پرہیزی کھانا کھاتے ہیں چنانچہ انڈوں سے پرہیز کرتے ہیں، سری پائے ہفتے میں دو تین بار ہی کھاتے ہیں ، حلوہ پوری قتلمے وغیرہ بھی ہفتے میں ایک آدھ بار ہی کھاتے ہیں ، پھلوں کے رس کے بعد ایک ایک پراٹھا قیمے، آلو اور مولی سے بھرا نوش فرمایا ،ہریسہ بہت پسند فرماتے ہیں اس کی ایک پلیٹ شکم نواز کی ، چکڑچھولے تناول کئے ، گاجر کے حلوے کی ایک پلیٹ نوش جاں کی ، آخر میں مربہ جات چکھے اور پھر ایک انقلابی ڈکار مار کے الحمدللہ کہہ کے اٹھ کھڑے ہوئے ، دختر انقلاب نے محض پھلوں کے رس اور سلاد پہ ہی اکتفا کیا اور آخر میں ایک کپ گرین ٹی لی۔۔ طعام گاہ سے باہر نکلتے ہوئے پوچھا کیا داماد اول کو ناشتہ دے دیا گیا ہے ، بتایا گیا کہ وہ صبح صبح کچن میں جا کے ناشتہ کر آئے تھے اور اب باہر ہیلی پیڈ پر آپ کے منتظر ہیں۔
دارالحکومت اتر کے لیموزین گاڑیوں کے ایک طویل قافلے میں عدالت کی سمت روانہ ہوئے ، جملہ معروف درباری قافلے میں موجود تھے ، عدالت کے باہر اخباریوں اور ٹیلیویژن والوں کا ہجوم منتظر تھا، ان سے مختصر خطاب فرمایا، اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا رونا رویا، بتایا کہ ہر ہفتے پیشی ہوتی ہے بعض اوقات تو ہفتے میں دو ہوتی ہیں، بہت دور سے آنا پڑتا ہے، صبح صبح بیدار ہونا ، سفر کی صعوبتیں، بچی کا ساتھ ، فاتر العقل داماد کو سنبھالنا، حالانکہ مقدمے بھی جھوٹے ہیں ، جج تعصب سے بھرے بیٹھے ہیں، بیس کروڑ عوام کے منتخب نمائندے سے جائیدادوں اور اثاثوں کے بارے میں پوچھنا ناانصافی کی انتہا ہے۔
دختر قوم کے ہمراہ جملہ حواریان و درباریان کے جلو میں داخل عدالت ہوئے، داماد اول کو اخباریوں نے گھیر رکھا تھا ،ان کی گفتگو ہنسی مزاح سے بھرپور ہوتی ہے لہذا اخباری ان کے ساتھ انٹرویوز کا شغل کرتے رہتے ہیں، اندر سے پکار پڑی تو بمشکل دھکے کھاتے کمرہ عدالت میں پہنچے ، کشمکش میں کوٹ بھی پھڑوا بیٹھے۔
احاطہ عدالت سے باہر تشریف لائے ، ایک بار پھر ججوں کے مظالم بیان کیے، فرمایا کہ آج بھی انہوں نے میرا قیمتی وقت ضائع کیا، ان کے پاس میرے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، جج کو علم بھی نہیں کہ کیس کیا ہے، کیس میں کچھ ہو تو پتہ ہو۔
دختر نظریات نے بھی گفتگو فرمائی ، ججوں کو ان کے تاریک مستقبل کی جھلک دکھائی، شکوہ بھی کیا کہ لاڈلے کو کیوں نہیں بلاتے، ان کا اشارہ حدیبیہ، ماڈل ٹاؤن، آشیانہ اور باون کمپنیوں وغیرہ کے کیسوں کی طرف تھا ۔
قافلہ دختر قوم کے سمدھی کے محل پہنچا، غیر اہم درباریوں کو یہاں سے بھگا دیا گیا، صرف مقرب درباریوں کو ہی اندر آنے کی اجازت دی گئی۔
ظہرانے کا وقت ہو چکا تھا، درباریوں کے لئے محل کے سبزہ زار میں دسترخوان بچھا دیا گیا، قائد اور دختر انقلاب اندر طعام گاہ میں تشریف لے گئے، داماد اول کو روک لیا گیا، وہ سبزہ زار میں بچھے دسترخوان کی طرف جانے لگے تو کہا گیا آپ خاندان کے فرد ہیں ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ کے کھانا خاندان کی توہین ہے ،مایوس ہو کے برآمدے میں رکھی ایک کرسی پہ ٹک گئے، بعد ازاں پتہ چلا کہ انہیں وہیں ٹفن دے دیا گیا تھا۔
طعام گاہ کی میز انواع و اقسام کی نعمتوں سے پر تھی ،گوشت میں اونٹ ، گائے بکری ،ہرن ، مرغی ، مچھلی ، تیتر ، بٹیر یہاں تک کہ چڑے بھی موجود تھے ، سبزیاں ، دالیں ، میٹھے سلاد، رائتے کس کس کا نام لیں پچھتر ڈشیں تھیں، قائد نے سب کے ساتھ انصاف فرمایا ، آخر میں ایک انقلابی اور ایک نظریاتی ڈکار اور بلند آواز سے الحمدللہ کہا اور پھر ڈرائنگ روم میں آ گئے ، منتخب اور مقرب درباریوں کو بھی طلب کر لیا گیا، کھانے کی تھکن کے آثار چہرے پہ نمایاں تھے ، چنانچہ جناب قاسمیوف کو لطیفے سنانے کا حکم دیا گیا ، وہ ایک با کمال لطیفہ گو ہیں ،قائد انہیں پنجابی زبان میں بھنڈ کہتے ہیں ، انہوں نے ہنسا ہنسا کے قائد کے شکم میں بل ڈال دیے، درباری تو پیٹ پکڑ کے دوہرے ہو گئے، کامریڈ طلالوف اور دانیالوف تو اٹھ کے ناچنے لگے ، قائد نے دانیالوف کو بیٹھنے کا اشارہ فرمایا اور طلالوف سے کہا وہ بھنگڑا دکھاؤ جو تم نے جڑانوالہ میں چھوٹے چودھری کی کار کے آگے ڈالا تھا، طلالوف کے چہرے پہ خجالت کا شائبہ سا آیا لیکن وہ سینے پہ ہاتھ رکھ کے دوہرا ہوا اور پھر سیدھا ہو کے بھنگڑا ڈالنے لگا، قائد نے خود میز پہ طبلہ بجانا شروع کیا اور پھر تو سماں بندھ گیا، سب سے پہلے جناب قاسمیوف بھنگڑے میں شامل ہوئے اور پھر تمام درباری۔۔۔
چائے طلب کی گئی، دختر قوم کے سمدھی نے بتایا ولایت سے ایک دوست نے درخواست کی ہے کہ اس کا بیٹا وہاں کے برے ماحول کی وجہ سے بگڑ گیا ہے ، کوئی جرم شرم بھی کرنے لگا ہے اس کے لئے کچھ کریں ، فرمایا اسے واپس بلا لو، ایوان بالا میں رکھ لیتے ہیں ، اسی دوران لندن سے قائد کے اپنے اشتہاری سمدھی کا فون آ گیا ، انہوں نے کہا مجھ پر سچائی بیان کرنے کے لیے دباؤ ہے ، فرمایا تھوڑا عرصہ جھوٹ پہ مزید استقامت دکھاؤ تمہیں اور تمہارے بیٹے کو ایوان بالا میں رکھ رہا ہوں۔ اس دوران بتایا گیا کہ سید مشاہدوف اذن باریابی چاہتے ہیں چہرہ کھل اٹھا بولے جب بھی جنرل پرویزوف کا کوئی حواری میرے آگے جھکتا ہے میرے دل کو اتنی تسکین ملتی ہے کہ گلوکارہ طاہرہ نعیموف کے تخلیے میں سنائے گئے گیتوں سے بھی نہیں ملتی تھی ، آج اس بدبخت کو بھی ایوان بالا کی رکنیت انعام میں نہ دی تو وہ جو لاڈلا کہتا ہے ۔۔ میرا نام بدل دینا۔ ہاہاہاہاہاہا۔۔
فیس بک کمینٹ