اتوار کی سہ پہر وقت گزاری کے لئے سوشل میڈیا کے ایکس پلیٹ فارم پر گھوم رہا تھا تو ایک طویل پیغام پر نگاہ پڑگئی۔ مذکورہ پیغام کو غیر ملک میں مقیم ایک خاتون نے لکھا تھا جو اپنے علم سے اکثرمجھے شرمندہ کردیتی ہیں۔ ان کے نظریات کئی حوالوں سے بہت سخت گیر ہیں۔ ان کا اظہار مگر وہ ٹھوس دلائل سے رواں انگریزی میں کرتے ہوئے چونکادیتی ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کی لکھی تحریر قابل توجہ وستائش ہے۔
نظر بظاہر آئین میں 27 ویں ترمیم کے عمل نے انہیں بہت ناراض کیا ہے۔ مذکورہ ترمیم کے چند پہلوئوں سے میں بھی ذاتی طورپر خوش نہیں۔ تنقیدسے اگرچہ ’’فیدہ(فائدہ) کِیہ‘‘ سوچتے ہوئے اجتناب برت رہا ہوں۔ بہرحال 27ویں ترمیم کو آئین اور قانون کی بالادستی کے خاتمے کا ہتھیار قرار دینے کے بعد انہوں نے طیش کا رخ پاکستان کے ’’کمیونسٹوں‘‘ اور ’’لبرلز‘‘ خواتین وحضرات کی جانب موڑ دیا۔ ان کے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے دونوں قسم کے پاکستانیوں کو 27ویں ترمیم کا سہولت کار ٹھہراکر ان کی مذمت کی۔
طیش سے مغلوب ہوئی تحریر کو غور سے پڑھنے کے بعد میں فوری طورپر یہ سوچنے کو مجبور ہوا کہ پاکستان میں ’’کمیونسٹ‘‘ کہاں پائے جاتے ہیں۔ 1980ء کی دہائی کے اختتام تک خود کو ’’کمیونسٹ‘‘ کہلواتے پاکستانیوں کی محدود تعداد ہمارے بڑے شہروں میں مل جایا کرتی تھی۔ 1960ء کی دہائی میں لاہور میں بطور طالب علم البتہ مجھے ان کی کثیر تعداد سے ملنے کا موقعہ ملا۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے مقابلے میں وہ آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ تعلیمی اداروں میں البتہ ان کا وجود بھاری بھر کم دکھائی دیتا۔ تعلیمی اداروں میں مؤثر تعداد رکھنے کے باوجود وہ مختلف گروہوں میں تقسیم بھی تھے۔ ان کی بے پناہ اکثریت چین کے ماوزئے تنگ کے نظریات کی حامی تھی۔ امریکہ انکی دانست میں سامراج ہونے کی وجہ سے قابلِ مذمت تھا۔ امریکہ کی مذمت کے باوجود مگر وہ سردجنگ کی وجہ سے کمیونسٹ دنیا کے قائد ہوئے سوویت یونین کو بھی ’’ترمیم پسند‘‘ پکارتے تھے۔ ماسکو نے ان کی دانست میں کارل مارکس اورلینن کے نظریات میں تحریف وترمیم کرتے ہوئے امریکہ سے براہِ راست جنگ نہ لڑنے کا فیصلہ کیاتھا۔ یہ دونوں ملک مگر ان دنوں کی تیسری دنیا میں اپنے حلقہ ہائے اثر قائم کرنے کی کش مکش میں مصروف رہتے۔ اسی باعث ہمارے ہاں کے ’’کٹر‘‘ اور چین نواز ’’کمیونسٹ‘‘ سوویت یونین کو ’’سوشل سامراج‘‘ کہتے ہوئے اس کی مذمت کرتے تھے۔ ایک دوسرے کو ’’پکاکمیونسٹ‘‘ نہ سمجھنے کے باوجود وہ یکسوئی سے بھارت کو توسیع پسندی کے خمار میں مبتلا بھی سمجھتے۔ پاکستان بھر میں چند کمیونسٹ مگر نہایت ثابت قدمی سے ماسکو کی ’’امن کی محبت‘‘ کو سراہتے رہے۔
کمیونسٹ پارٹی پر پاکستان میں 1950ء کی دہائی کے آغاز میں پابندی لگادی گئی تھی۔ اس کے بعد کمیونسٹ خیالات کے حامی نیشنل عوامی پارٹی میں گھس گئے۔ یہ جماعت بھی لیکن 1962ء کے بعد ماسکو اور چین نواز دھڑوں میں بٹ گئی۔ چین نواز نیشنل عوامی پارٹی کے قائد مشرقی پاکستان کے کسان رہ نما مولانا بھاشانی تھے۔ اس جماعت کو ان دنوں کے مغربی پاکستان میں مقبولیت نصیب نہ ہوئی۔ ولی خان کی قیادت میں قائم ہوا ’’ماسکو نواز‘‘ دھڑا البتہ پختون،بلوچ اور سندھی قوم پرستوں کی وجہ سے مؤثر سیاسی قوت کا حامل رہا۔
مولانابھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی آج کے پاکستان اور ان دنوں کے مغربی پاکستان میں مقبول نہ ہوپائی تو ہمارے ہاں کے چین نواز کمیونسٹوں کی اکثریت ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی پیپلز پارٹی میں شامل ہوکر عوامی انقلاب کے خواب دیکھنے لگی۔ پیپلزپارٹی میں شمولیت کے باوجود بائیں بازو کے نظریات رکھنے والوں نے اس پارٹی کے جلسوں میں نہایت شدت سے ’’انتخاب یا انقلاب‘‘ کا سوال اٹھانا شروع کردیا۔ ’’انقلاب-انقلاب‘‘ کی بلند آواز سے مجھ جیسے ’انقلابی‘‘ اس سوال کا جواب دیتے۔ ’’انتخاب یا انقلاب‘‘ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ء کے انتخابات سے قبل بالآخر سندھ کے مشہور شہر ہالہ میں اپنی جماعت کی ایک کانفرنس بلائی۔ اس کے اختتام پر فیصلہ ہواکہ انتخاب میں حصہ لیا جائے گا۔ ایمان داری کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی میں شامل نمایاں ’’انقلابیوں‘‘ میں سے فقط معراج محمد خان نے قومی یا صوبائی اسمبلی کی کسی نشست کے لئے انتخاب نہ لڑا۔ ان کے کئی چاہنے والے آج یہ سوچتے ہیں کہ انتخاب سے دور رہنا ان کا عقل مندانہ فیصلہ نہیں تھا۔
کالم کے آغاز میں نہایت دیانتداری سے یہ سوال اٹھایا تھا کہ پاکستان میں ’’کمیونسٹ‘‘ نظریات کے حامل افراد آج بھی موجود ہیں اور اگر وہ واقعتا کسی نہ کسی صورت زندہ ہیں تو آئین کی 27ویں ترمیم کی حمایت میں انہوں نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ اگر کردار ادا کیا بھی ہے تو مجھے علم کیوں نہ ہوا جو 1975ء سے بطور صحافی سیاسی عمل پر کئی دہائیوں کی رپورٹنگ کے بعد ان دنوں گوشہ نشین ہوکر کالم نگاری سے روز کی روٹی روز کمانے کی کوشش کرتا ہے۔
آج کے پاکستان میں ’’کمیونسٹ‘‘ پائے جاتے ہیں یا نہیں اس سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے میں یہ اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ 1970ء کے آغاز میں جب میں ذاتی طورپر ’’انقلاب‘‘ لانے کو بہت بے چین تھا تو ہمارے کمیونسٹ بزرگ ہمیں یہ سمجھایا کرتے تھے کہ جمہوریت محض ایک فراڈ ہے۔ یہ عوام کو اس دھوکے میں مبتلا کرتی ہے کہ ریاستی فیصلہ سازی ان کے چنے افراد کے ذریعے تشکیل پاتی ہے۔ حقیقت جبکہ یہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں صرف وافر پیسہ رکھنے والے جاگیر دار اور صنعت کار ہی حصہ لے سکتے ہیں۔ منتخب ایوانوں میں پہنچ کر وہ ’’عوامی بھلائی‘‘ کے بارے میں فکر مند ہوہی نہیں سکتے۔ حبیب جالب کا ’’ایسے دستورکو…‘‘ اس تناظر میں صرف 1962ء میں صدر ایوب کے مسلط کردہ آئین کا انکار ہی نہیں بلکہ نظام کہنہ کے مرتب کئے ہر حکومتی بندوبست کی مذمت وانکار تھا۔ سمجھ نہیں آرہی کہ 27ویں ترمیم کی تشکیل کا ذمہ دار ان دنوں نجانے کہاں چھپے’’کمیونسٹوں‘‘ کو کیوں ٹھہرایا گیا ہے۔
کمیونسٹوں کی جمہوریت سے ’’محبت‘‘ کا واضح اظہار تو پاکستان کے قیام کے فوراََ بعد ہی ہوگیا تھا جب ’’پنڈی سازش کیس‘‘ کے نام سے ایک جھوٹا سچا کیس تیار ہوا۔ مبینہ سازش کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سربراہ سجاد ظہیر( بنے بھائی) افواج پاکستان کے چند افسران کے ساتھ مل کر لیاقت علی خان کی حکومت کے خاتمے کا منصوبہ بنانے کے ذمہ دار ٹھہرائے گئے تھے۔ پاکستان کے پہلے فوجی سربراہ نے انہیں گرفتار کرکے پاکستان کو ’’کمیونسٹ‘‘ انقلاب سے بچاکر سیٹو اور سینٹو میں شمولیت کے بعد امریکہ سے یاری کا آغاز کردیا۔
امریکہ آج بھی ہمارا یار ہے۔ اس کے صدر کی ’’جمہوریت‘‘ سے محبت بھی ڈھکی چھپنی نہیں۔ اس ’’محبت‘‘ کے ہوتے ہوئے تقریباََ موجود ’’کمیونسٹوں‘‘ کو 27ویں ترمیم کا ذمہ دار ٹھہرانا زیادتی کی بات ہے۔ آپ نے کالم یہاں تک پڑھ لیا ہے تو شاید جاننا چاہ رہے ہوں کہ میں ذاتی طورپر 27ویں ترمیم کے بارے میں کیا سوچتا ہوں۔ اس سوال کا دیانتدارانہ جواب یہ ہے کہ میں سعادت حسن منٹو کا بیان کردہ منگوکو چوان ہوں۔ ’’نئے آئین‘‘ کی تشکیل کے بارے میں میرے ارمان عرصہ ہوا مٹی میں مل چکے ہیں۔ ہم زور آور افراد اور قوتوں کے راج میں جی رہے ہیں۔ بڑے جانور ہوتے ہوئے ان کی مرضی ہے انڈہ دیں یا بچہ۔ زندگی کے باقی دن مجھے تو سرجھکا کر ہی گزارنے ہیں۔
( بشکریہ : روزنامہ : نوائے وقت ) /

