ہفتے کے آخری تین دن سوشل میڈیا سے پرہیز کرتا ہوں اور بخدا بہت سکون محسوس کرتا ہوں۔ ساری عمر صحافت کی نذر کرنے کی وجہ سے چند مجبوریاں مگر روزمرہّ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ ان سے نجات شاید موت سے پہلے ممکن نہیں۔ ”یہ کیا ہورہا ہے؟“ جیسے سوالات اس حوالے سے اپنا مقدر ہوئی قباحتوں کا بنیادی حصہ ہیں۔ جمعے کی رات کھانے کے بعد بستر میں دبکا ڈاکٹر ہنری کسنجر کی چین کی تاریخ اور سفارتی پالیسی و حکمت عملی کے بارے میں بہت تحقیق کے بعد لکھی کتاب کو ایک بار پھر غور سے پڑھتے ہوئے کچھ نئی بات دریافت کرنے کے چکر میں تھا کہ ایسے دوستوں کے فون آنا شروع ہوگئے جن سے بات کرنا ضروری ہوتا ہے۔Silent پر لگائے فون کو بھی اٹھانا پڑا اور ”اطلاع“ یہ ملی کہ مبینہ طورپر اسرائیل کا کوئی طیارہ اسلام آباد آیا اور یہاں دس گھنٹے رُکا رہا۔ یہ فرض کرلیا گیا کہ ایک زمانے میں خود کو پھنے خان نوعیت کا رپورٹر شمار کرتے مجھ ایسے شخص کو اس پرواز کے متعلق ”اندر کی بات“ معلوم ہوگئی ہوگی۔ اسے دوستوں تک پہنچا کر کارخیر میں حصہ ڈالا جائے۔کسی اسرائیلی طیارے کی مبینہ طورپر اسلام آباد آمد کے بارے میں اپنی لاعلمی کا اعتراف کرنے کے بعد میں فون بند کرتا رہا۔ چین مگر نصیب نہیں ہوا۔ہفتے کے آخری تین دنوں میں سوشل میڈیا سے بے خبری کا بخوبی علم ہونے کے باوجود چند بہت ہی عزیر دوست میری بے اعتنائی کو بڑھاپے کے ساتھ نازل ہوئی تھکن ٹھہراکر طنزوملامت کا نشانہ بناتے رہے۔ میں ڈھیٹ بنا ان طعنوں کو برداشت کرتا رہا۔ ہفتے کی دوپہر تک ایسے ٹیلی فونوں کا سلسلہ جاری رہا۔ میں لیکن چین پر لکھی کسنجر کی کتاب میں گم رہا۔ اتوار کی صبح یہ کالم لکھنے سے چند لمحے قبل ٹویٹر کھول کر جاننے کی کوشش کی کہ اسرائیلی طیارے کی مبینہ طور پر اسلام آباد آنے کی افواہ نے کیوں اور کیسے طوفان مچارکھا تھا۔سرسری تحقیق کے بعد معلوم یہ ہوا کہ اسرائیل کا اخبار ہےHaaretz۔ اس کے انگریزی ایڈیشن کا ایک ایڈیٹر ہے -اوی شرف- خود کو آسمانوں میں اُڑتے طیاروں پر نگاہ رکھنے کا دعوے دار بھی کہتا ہے۔اس صحافی نے ایک ٹویٹ کیا جس کے ذریعے دعویٰ ہوا کہ اسرائیل کا ایک نجی پروازوں کے لئے استعمال ہوتا Bizjetتل ابیب سے روانہ ہوکر اردن کے دارالحکومت عمان پہنچا۔ وہاں کے رن وے پر فقط پانچ منٹ رکنے کے بعد وہ سعودی عرب سے خلیجی ملک عمان کی فضاؤں سے گزرتا اسلام آباد لینڈ کرگیا۔ اسلام آباد میں دس گھنٹے گزارنے کے بعد یہ طیارہ عمان ، سعودی عرب اوراردن کی فضاؤں سے ہوتا ہوا تل ابیب لوٹ گیا۔اس طیارے کی پرواز کے متعلق تمام معلومات اس نے بے نام ”ذرائع“ سے نہیں انٹرنیٹ پر ہر شخص کے لئے ایک ویب سائٹ Flight Radarکے ذریعے حاصل کی تھیں۔ اتفاق سے یہ وہی دن تھا جب اسرائیل کا وزیراعظم ”اچانک“ عمان پہنچ گیا اور وہاں کے سلطان قابوس سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے تناظر میں یہ فرض کرلینا آسان اور ایک حوالے سے ”فطری“ ہوگیا کہ شاید عمان سے قبل نیتن یاہو” خفیہ دورے“ پر اسلام آباد بھی آیا ہوگا۔ نیتن یاہو مگر سلطان قابوس سے ملاقات کرتے ہوئے اپنی بیوی کے ہمراہ دکھایا گیا تھا۔ خبر یہ بھی تھی کہ مذکورہ ملاقات میں اس کی انٹیلی جنس ایجنسی کا سربراہ بھی موجود تھا۔ اس کی موجودگی نے کچھ لوگوں کو یہ فرض کرنے پر مجبو کیا کہ اگر نیتن یاہو نہیں تو مذکورہ سربراہ اسلام آباد آیا ہوگا۔ ذاتی طورپر میں اس امکان سے ہرگز اتفاق نہیں کرسکتا۔ پاکستان اور اسرائیل کے انٹیلی جنس اداروں کے افسروں اور خاص کر ان کے سربراہوں کو ایک دوسرے کے ملک میں جاکر ملاقاتوں کی ضرورت نہیں۔ ترکی کا استنبول اس ضمن میں بہت کام آتا ہے۔ دوبئی بھی اس حوالے سے بہت کارآمد ہوسکتا ہے۔ وگرنہ بنکاک تو محفوظ ترین جگہ ہے۔حالیہ دنوں میں ایسا کوئی بھی واقعہ نہیں ہوا جو پاکستان اور اسرائیل کو ایک دوسرے سے روابط استوار کرنے پر مجبور کرے۔ 4 نومبر کے بعد ایران کے بارے میں جو گیم لگ رہی ہے اس کے بارے میں بھی ہنگامی بنیادوں پر اسرائیل سے خفیہ ملاقاتوں کی ضرورت نہیں کیونکہ اس حوالے سے فیصلہ کن کردار ٹرمپ نے ادا کرنا ہے۔ سعودی عرب اس کا اتحادی ہے۔ ہمارے واشنگٹن اور ریاض میں متحرک سفارت خانے موجود ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم نے حال ہی میں سعودی عرب کا ایک نہیں یکے بعد دیگر دودورے کئے ہیں۔ سعودی قیادت نے انہیں 4 نومبر کے بعد اٹھائے ممکنہ اقدامات کے بارے میں بھی یقینا آگا ہ کردیا ہوگا۔ اسرائیل کو اس تناظر میں ہم سے ہنگامی روابط کی ہرگز ضرورت نہیں۔سوئٹزرلینڈ سے چلائی ایک ویب سائٹ پر تل ابیب سے اڑے طیارے کی اسلام آباد ”لینڈنگ“ کی اطلاع کو اچک کر اسرائیلی صحافی نے لیکن خوب رونق لگائی۔ عمران حکومت کے مخالفین نے اس کی دی ”خبر“ کی بنیاد پر بہت کچھ کہا۔ حکومت خاموش رہی۔ ہمارے ریاستی ادارے نے بھی تبصرہ آرائی سے گریز کرتے ہوئے ان کی چلائی داستان کو تقویت پہنچائی۔ بالآخر سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اسرائیلی طیارے کی آمد والی خبر جھٹلادی۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب تھی کہ ”اسرائیل“ سے کوئی طیارہ پاکستان نہیں آیاہے۔ جس طیارے کا ذکر ہورہا ہے وہ Isle of man میں رجسٹر ہوئی ایک آف شور کمپنی کی ملکیت ہے۔Multibird Overseas اس کمپنی کا نام ہے ۔ اس کے طیارے عموماًََ تل ابیب ایئرپورٹ پر موجود ہوتے ہیں اور وہاں سے کاروباری لوگ انہیں کرائے کے لئے اپنے سفر کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔
چونکہ تل ابیب سے یہ طیارہ اڑ کر عمان لینڈ ہوا۔اس لئے اگر وہ پاکستان آیا بھی تو اسے ”اسرائیل سے آئی“ پرواز نہیں بلکہ ”اردن کے عمان“ سے آیا جہاز کہا جائے گا۔اسرائیلی صحافی کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ طیارہ عمان ایئرپورٹ پر صرف 5منٹ کے لئے رُکا تھا۔ اتنے مختصر وقت کا یہ ”قیام“ اسے اسرائیل کے بجائے ”اردن سے اڑا“ جہاز بنانے کے لئے ضروری تھا۔اس صحافی کی اسی دلیل نے پاکستان میں رونق لگائی۔ اگرچہ ا پنے آخری ٹویٹ میں موصوف نے بالآخر یہ اعتراف کیا کہ ہوسکتا ہے کہ اسلام آباد کی فضاﺅں سے وہ طیارہ چین چلا گیا ہو جس کی فضاؤں تک Flight Radarوالی ویب سائٹ کی رسائی بلند اور ابرآلود پہاڑوں کی وجہ سے ممکن نہیں۔ اپنے آخری ٹویٹ میں صحافی نے یہ اعتراف بھی کیاکہ اسے ہرگز معلوم نہیں کہ مذکورہ طیارے میں اسرائیلی حکومت کا کوئی افسر، دیگر ریاستی ا داروں یا نجی کاروباری اداروں کا کوئی فرد موجود تھایا نہیں۔ پاکستان کے ”متجسس“ افراد کو البتہ یہ ضرور معلوم کرنا چاہیے کہ اس طیارے میں کون شخص بیٹھا تھا۔ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے میرے ذہن میں فوراًََ خیال آیا کہ یہ شخص ہرشخص کو میسر طیاروں کی اڑان کی معلومات دینے والی ویب سائٹ سے ایک اطلاع کو اچک کر ہمارے ہاں تیلی لگاکر تماشہ دیکھ رہا تھا۔ خود کو ایڈیٹر کہتا یہ شخص خود یہ ترددکیوں نہیں کررہا کہ اپنے تجسس کو حرکت دیتے ہوئے معلوم کرے کہ اس کے ملک سے کوئی اعلی افسر پاکستان کے ”خفیہ“ دورے پر مذکورہ طیارے کے ذریعے گیا یا نہیں۔ یہ بات کہنے کے بعد یاد آیا کہ اسرائیل اب بھی خود کو ”حالت جنگ“ میں شمار کرتا ہے اور وہاں کے صحافیوں کی اس حوالے سے کچھ محدودات طے ہیں جنہیں روزمرہّ سمجھ کر برداشت کیا جاتا ہے۔اوی شرف نامی صحافی نے لیکن بہت چالاکی سے انٹرنیٹ پر میسر ایک ”اطلاع“ سے کھیلا ہے۔اس کی پیش قدمی سے ثابت ہوا کہ ذرا مہارت سے Open Sourceکے ذریعے میسر کسی اطلاع سے کھیلا جائے تو پاکستان میں شدید نوعیت کی بحث شروع کروائی جاسکتی ہے۔کسی اطلاع کو Fake Newsبناکر سوشل میڈیا کے ذریعے بھڑکائی آگ جو اندھی نفرت اور عقیدت میں تقسیم ہوئی قوم کو ”قبائلی“ غم وغصے میں مبتلا کردیتی ہے۔ اسی باعث تو بارہا اس کالم میں تسلسل سے التجا کرتا رہتا ہوں کہ خدارا پاکستان کے ریگولر میڈیا پر اعتماد واعتبار کریں۔ اس کی ”حب الوطنی“ پر سوالات نہ اٹھائیں۔ مجھ جیسے صحافیوں کو اسی انداز میں ”خبر“ دینے دیں جس کا ہنر سیکھنے میں ہم نے ساری عمر لگائی ہے۔ ہمارے ”تجسس“ کو لگام دے کر اسے مردہ کردیں گے تو ”غیر“ سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے تماشے لگایا کریں گے جن کا علاج بسااوقات ناممکن ہوجاتا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ