نام کیا لینے۔ ریگولر اور سوشل میڈیا کی بھرمار کی وجہ سے لوگ خوب جانتے ہیں کہ کوئی صحافی درحقیقت کیا سوچتاہے۔ ویسے بھی جدید دور کی صحافت میں کتابوں میں بیان ہوئی ”غیر جانب داری“ برقراررکھنا ممکن نہیں رہا۔ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں ”حقائق کا تجزیہ“کسی ایک فریق کی حمایت یا مخالفت کا تاثر دئیے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
میرے چند بہت ہی معتبر صحافی دوست ہیں۔ مجھے یا آپ کو ان کی سوچ سے اختلاف رکھنے کا حق حاصل ہے۔ میری اور آپ کی رائے کی پرواہ کئے بغیرمگر وہ گزشتہ کئی برسوں سے عمران خان صاحب کو بہت دبنگ انداز میں اس مسیحا کی صورت پیش کرتے رہے جس کا ہم جیسی اقوام بے چینی سے انتظار کرنے کو مجبور ہوتی ہیں۔ میرے بہت ہی چہیتے حسن نثار بھی ان دوستوں میں شامل تھے۔ گزشتہ چند دنوں سے مگر وہ تحریک انصاف کی کارکردگی سے مایوس نظر آرہے ہیں۔ اپنے مخصوص انداز میں درشت الفاظ استعمال کرتے ہوئے حکومت کی کلاس لے رہے ہیں۔
ٹی وی سکرین پر ان کے اس ضمن میں ادا کئے فقرے سوشل میڈیا پر لگائی کلپس کے ذریعے وائرل ہورہے ہیں۔ اگرچہ ان کے خیالات کو شیئر کرتے ہوئے چند افراد”ہم تو پہلے ہی کہتے تھے“ والا رویہ بھی اختیار کرتے ہیں۔
عمران خان اور تحریک انصاف کی سیاست کے بارے میں مجھے کافی تحفظات رہے ہیں۔ انہیں منافقت کے لبادے میں چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ جولائی 2018ءکے انتخابات سے قبل ہی مگر تسلیم کرنا پڑا کہ حالات عمران خان کو اقتدار میں لانے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ انتخابی نتائج آجانے کے بعد انتہائی دیانت داری سے فیصلہ کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں کوئی واضح رائے بنانے سے قبل اس کی کارکردگی کو جانچنے کے لئے وقت درکار ہے۔ چند بہت ہی ذاتی شکایات کے رونما ہونے کے بعد بھی میرا رویہ ہرگز نہیں بدلا ہے۔
علم معاشیات کی مبادیات کے بارے میں قطعی جاہل ہوتے ہوئے بھی بطوررپورٹر کئی ماہرینِ معاشیات اور ریاستی خزانے سے متعلق معاملات کا تجربہ رکھنے والوں سے گفتگو کے بعد سمجھ آئی کہ پاکستان میں ”معاشی بحران“ کی صورتِ حال نہیں ہے۔ اس حکومت کو چند سنگین مسائل ورثے میں ملے ہیں۔ان کا حل مگر میسر ہے۔ اسے ڈھونڈنے کے لئے سوچی سمجھی حکمت عملی درکار ہے اور اس پر ہر صورت عمل کرنے کا ارادہ۔
میری ذاتی رائے میں تحریک انصاف کے میڈیا پر متحرک رہ نماﺅں نے ”معاشی بحران“ والی داستان کو بہت بڑھاچڑھا کر پیش کیا۔اس کی وجہ سے وہ اپنی Baseکو یہ بتانے میں کافی حد تک کامیاب رہے کہ گزشتہ دس برسوں سے باریاں لینے والے آصف علی زرداری اور نواز شریف نے فقط اپنی ذاتی خواہشات کو ترجیح دیتے ہوئے قومی خزانہ خالی کردیا ہے۔ معاشی بحران کا سبب ہونے کے باعث یہ دونوں کڑے احتساب کے مستحق ہیں۔انہیں بخش دینے کی گنجائش موجود نہیں۔
اقتدار مل جانے کے بعد مگر اپنی Base تک ہی محدود رہنا ہم جیسے ممالک کی حکومتوں کو مستحکم نہیں ہونے دیتا۔ ہمارے ہمسائے میں نریندر مودی بھی ایک Deliverer کی شہرت کے ساتھ نمودار ہوا تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد اس نے انتہا پسند ہندوتوا کے جنونیوں کو گاﺅکی حرمت بچانے کے لئے Mob Lynching والا ماحول فراہم کیا۔ قوم سے چھپائی دولت کو خزانے میں لانے کے لئے نوٹ بندی جیسا فیصلہ کیا۔ اس کی وجہ سے بازار میں خوف کی فضا پیدا ہوگئی۔ خوف کی اس فضا کی وجہ سے حال ہی میں ہندی بیلٹ کے جن تین صوبوں میں صوبائی اسمبلیوں کے جو انتخابات ہوئے ان میں BJPکو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
چار مہینے بعدبھارت میں اب عام انتخابات ہونا ہیں۔مودی کے شدید حامی بھی پراعتماد نہیں کہ BJPان انتخابات میں واضح اور قطعی اکثریت کے ساتھ جیت سکے گی۔اسی باعث نریندر مودی گزشتہ کئی دنوں سے فقط اپنی Baseکو خوش رکھنے کے بجائے ”پورے بھارت“ کو خوش رکھنے کی گفتگو کررہا ہے۔
تحریک انصاف کو اقتدار میں آئے صرف پانچ ماہ گزرے ہیں۔آصف علی زرداری اور نواز شریف کیخلاف بھرپور نفرت کا پیغام وہ 2011ء سے مسلسل دیتے چلے آرہے ہیں۔فقط ان کے احتساب پر توجہ مرتکز رکھتے ہوئے اس حکومت کے بارے میں Feel Good Stories اب تخلیق نہیں کی جاسکتیں۔
لوگوں کو تسلی دینا حکومت کا فرض ہوتا ہے۔بہت عرصے بعد یہ پہلی حکومت ہے جس کا ریاست کے کسی دائمی ادارے سے کسی معاملے پر تھوڑا سا اختلاف بھی دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ استحکام کی اس بنیاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے تحریک انصاف کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے ”معاشی بحران“ سے نبردآزما ہونے کے لئے اقتصادی اعتبار سے ٹھوس معاونت ملی ہے۔چین کی خیرسگالی بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔
اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ جس نے سال گزشتہ کے آغاز میں پاکستان کو انتہائی بیہودہ الفاظ کے ساتھ تنقید کا نشانہ بنایا تھا اب عمران حکومت سے افغانستان مسئلے کا حل ڈھونڈنے کے لئے مدد کا طالب رہے۔
اس سے بھی زیادہ اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات قطر کے ساتھ بہت ہی قبائلی نوعیت کے جھگڑے میں مبتلا ہیں۔ترکی اس جھگڑے میں قطر کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے اور سعودی عرب کوجمال خشوگی کے قتل کے معاملے میں رسواکرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ترکی اور قطر کی قبائلی نوعیت والی مناقشت کے باوجود پاکستان کے وزیر اعظم کو ترکی میں بہت محبت واحترام ملا۔22جنوری کو وزیر اعظم نے قطرجانا ہے۔محض اپنی Baseکو مطمئن رکھنے کی خاطر ”چوروںاور لٹیروں“ کے کڑے احتساب کے مسلسل ذکر کے علاوہ تحریک انصاف کے لئے Feel Good Stories گھڑنے والوں نے خدا جانے کیوں ان حقائق کی جانب توجہ نہیں دی۔
شاہ محمود قریشی اور ان کی وزارتِ خارجہ کو اس معاملے میں پیش قدمی لینا تھی۔ جانے کیوں وہ یہ حقیقت Cashکرنے سے گھبرارہے ہیں کہ شدید ترین باہمی اختلافات کے ہوتے ہوئے بھی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات،ترکی اور قطر پاکستان سے Either/Orیا Friend or Foe? والا تقاضہ نہیں کررہے۔
وزارتِ خارجہ کی اس تناظر میں نظر آنے والی بے اعتنائی لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ سعودی عرب،متحدہ عرب امارات ،ترکی اور قطر کی جانب سے بیک وقت میسر گرم جوشی کا سبب عمران خان کی ذات اور ان کی حکومت کی پالیسیاں نہیں بلکہ یہ سب ریاست پاکستان کے دیگر اداروں کی جانب سے ہوئی کاوشوں کی مرہون منت ہے۔عمران خان کی جانب سے ہوئی کوئی ایک ٹھوس پیش قدمی نظر نہیں آرہی اور اس کی وجہ سے کئی برسوں سے عمران خان کے بلندآہنگ چاہنے والے بھی مایوس ہورہے ہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ