اس کالم کے باقاعدہ قارئین یقینا یہ طے کرسکتے ہیں کہ نریندرمودی کے بھارتی وزیر اعظم کے منصب پر ’’گج وج‘‘ کے واپس لوٹ آنے نے مجھے ہرگز حیران نہیں کیا ہوگا۔ پریشان ہوا ہوں۔فوری فکر مقبوضہ کشمیر کے بارے میں ہے جسے مودی اور اس کی جماعت جنوبی ایشیاء کا غزہ بنانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کی لاچارگی اور بے بسی میں بھی اضافہ ہوگا۔ نچلی ذات والے خود کو واقعتا ’’ہر یجن‘‘ سے ’’شودر‘‘میں بدلتا محسوس کرنا شروع ہوجائیں گے۔ چین کی کوئی راہ نکالنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔
فلمی زبان میں بھارت سے فوکس پرسے زوم آؤٹ کرتے ہوئے Big Pictureپر نگاہ ڈالتا ہوں تو مزید پریشانی لاحق ہوجاتی ہے۔ ساری عمر بڑی استقامت سے یہ سوچتے ہوئے صرف کردی کہ دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں نے آدمی کو انسان بنانے پر مجبور کرنا شروع کیا ہے۔ آزادیٔ اظہار کی بدولت نت نئے خیالات ابھرتے ہیں۔یہ خیالات مباحثے کو جنم دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ان مباحثوں کی روشنی میں اپنے بیانیے ترتیب دیتی ہیں۔ انتخابی مہم میں یہ بیانیے خلقِ خدا کے روبرو رکھے جاتے ہیں۔خلقِ خدا کی اکثریت ان میں سے کسی ایک بیانیے کی حمایت کردیتی ہے۔ اس حمایت کی بدولت ایک حکومت تشکیل پاتی ہے جو کابینہ اور پارلیمان جیسے اداروں کے ذریعے مباحثوں کو مکالمے میں بدلتے ہوئے ’’’اجتماعی بصیرت‘‘ کے ذریعے کسی معاشرے کو بہتری اور خوش حالی کی جانب لے جانے کی کاوشوں میں مصروف ہوجاتی ہے۔نظر بظاہر ایک ایسا نظام نظر آتا ہے جہاں ریاستی اور حکومتی فیصلہ سازی کے عمل میں عام ا ٓدمی خود کو کسی نہ کسی صورت شراکت دار تصور کرتا ہے۔
دل دہلادینے والی دریافت میرے لئے اس سوچ کا خوش گمانی ثابت ہونا ہے۔ تلخ حقیقت اب یہ نظر آرہی ہے کہ طاقت ور اشرافیہ کا ایک گروہ سازشی انداز میں یکجا ہوکر اپنے معاشرے یا ملک کی اکثریت کے دلوں میں نسلوں سے موجود تعصبات کی ایک فہرست مرتب کرتا ہے ۔ ان تعصبات کو بھڑکانے کے لئے سادہ ترین الفاظ میں ایک بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے۔ اس بیانیے کو کسی صابن یا چائے کے برانڈ کی تشہیر کے لئے اپنائی مہارت کے ساتھ ریگولر اور سوشل میڈیا کے ذریعے Viralکروایا جاتا ہے۔ اس کی بدولت ’’جنتا‘‘وحشی ہجوم میں بدل کر کسی ہیرونما شخصیت کی اندھی عقیدت میں مبتلا ہوکر اس کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑی ہوجاتی ہے۔
دلوں میں جاگزیں ہوئے تعصبات کو نفرت میں بدل کر ’’تبدیلی‘‘ لانے کی کاوشوں کا اصل آغاز برطانیہ میں یورپی یونین کے خلاف چلائی مہم سے ہوا۔ دُنیا بھر کی پارلیمانوں کی ’’ماں‘‘ کہلاتی برطانوی پارلیمنٹ سے مہم کا تدارک نہ کرپائی۔ ریفرنڈم ہوا۔اس ریفرنڈم کے ذریعے Brexitکی حمایت ثابت ہوگئی تو احساس ہوا کہ یورپی یونین سے فوری لاتعلقی برطانیہ کی معیشت کو تباہ کردے گی۔ پارلیمان کے کئی اجلاس ایسی راہ ڈھونڈنے میں مصروف رہے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔کوئی مؤثر حل دریافت نہ ہوپایا۔ برطانوی وزیر اعظم اب جون کے پہلے ہفتے میں اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائے گی۔اس کے بعد کیا ہوگا۔کسی کو خبر نہیں۔
Brexitکی طر ح امریکہ میں ٹرمپ بھی America Firstکے نام سے مسلمانوں اور غیر ملکی تارکین وطن کے خلاف اندھی نفرت کو بڑھکاتے ہوئے اس ملک کا صدر بن گیا۔ دُنیا اس کی متلون مزاجی سے مسلسل پریشان ہے۔ تلخ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ ٹرمپ کے دور میں عام امریکی کی اُجرت میں اضافہ ہوا۔ بے روزگاری میں تاریخی کمی آئی ہے۔
عوامی جذبات کو بھڑکاتے ہوئے ترکی کا اردوان بھی بالآخر ’’سلطان‘‘ ہوا۔ کئی برس تک اس نے کچی بستیوں کے مکینوں کو مالکانہ حقوق دیتے ہوئے Upward Mobilityکے ایک حیران کن عمل کا آغاز کیا۔ ہر عمل کی مگر انتہا بھی ہوتی ہے۔ یہ عمل ساکن ہوا تو ’’سلطان‘‘ مزید آمرانہ ہوگیا۔ ترکی میں اس و قت سینکڑوں صحافی جیلوں میں ہیں۔تمام بڑے اخبارات اور ٹی وی نیٹ ورکس اردوان کے کاروباری دوستوں نے خرید رکھے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کڑی نگاہ رکھی جارہی ہے۔ مزاحمت کا ایک طویل عمل مگر شروع ہوچکا ہے۔نجات کی راہ اگرچہ اب بھی دکھائی نہیں دے رہی۔
مودی بھی ایک چہرہ ہے جسے راشٹریہ سیوک سنگھ نے مسلمانوں سے اندھی نفرت کی بناء پر مارکیٹ کیا ہے۔بہت تحقیق کے بعد لوگوں نے دعویٰ کیا کہ بھارتی ا نتخابات کی حالیہ مہم کے دوران سات سوملین ڈالر کی خیرہ کن رقم BJPکے پاس تھی۔ بھارتی اخبارات ا ور میڈیا کی اکثریت کو مودی کے ’’خیرخواہ‘‘ سیٹھوں نے بہت عرصے سے خرید رکھا ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے متبادل بیانیہ زندہ رکھنے کی کوششیں ہوئیں۔ ہندوتوا کی سوچ سے اختلاف رکھنے والوں کو مگر Trollsایک غول کی صورت یکجاہوکر خوف وہراس میں مبتلا کردیتے ہیں۔ہجوم ہوئی جنتا کے مچائے شور میں دلیل،مباحثے اور مکالمے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ پلوامہ کے بعد سے ہندوانتہاپسندی نے حب الوطنی کا روپ بھی دھارلیا۔ مودی ’’چوکیدار‘‘ ہوگیا۔ اس کی سیاست اور حکومتی فیصلوں پر واجب سوالات اٹھانا ’’غداری‘‘ شمار ہونا شروع ہوگیا۔
’’جمہوری نظام‘‘ کے اٹل اصولوں کے مطابق مگر 23مئی کے انتخابی نتائج کے بعد آپ نریندرمودی کو جنتا کا اصل اور وڈا نمائندہ تسلیم کرنے کو مجبور ہیں۔ ایک طویل انتخابی عمل کے ذریعے جس کی ساکھ پر قابلِ اعتماد اعتراضات میسر نہیں وہ ’’عوامی اکثریت‘‘ کی ’’آزادانہ رائے‘‘ سے منتخب ہوا ہے۔
اس حقیقت پر ایک لمحہ غور کرنے کو بھی لیکن کوئی تیار نہیں ہوگا کہ RSSاور مودی کے خیرخواہ سرمایہ کاروں کی بدولت ذہن سازی کے نظام کو مکمل طورپر Hijackکرلیا گیا تھا۔ اس Hijacking کا مؤثر توڑ ابھی دریافت نہیں ہوا۔
اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال ہوئی ’’جمہوریت‘‘ کے بارے میں سوچتا ہوں تو یہ خیال ستانا شروع ہوجاتا ہے کہ ہفتے میں پانچ دن صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھنے کی مشقت سے گزرتے ہوئے میں تنخواہ کے علاوہ اور کیا حاصل کرنا چاہتا ہوں۔رائیگاں کا سفر ہے۔لفظوں کی جگالی ہے۔ آپ مزاجاََ بہت ہی مہربان اور کشادہ دل والے ہوں گے اگر اس کالم کو آغاز سے انجام تک پڑھ لیا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ