جسے ہم ”سرکار“ کہتے ہیں اس کا طاقت ور ترین عنصر وہ حصہ ہوتا ہے جسے ریاستی امور پر نگاہ رکھنے والے محققین نے انگریزی زبان میں Deep Stateپکارا۔یہ اصطلاع استعمال کرتے ہوئے اعتراف یہ بھی کیا کہ مذکورہ ترکیب انہوں نے خلافت عثمانیہ کے زوال کا مطالعہ کرتے ہوئے دریافت کی تھی جہاں اس عنصر کے لئے ”دریں دولت“ کا لفظ مروج تھا۔
محض ایک مشقتی رپورٹر کی حیثیت میں کام کرتے ہوئے میں اپنے ہاں کی ”دریں دولت“ کے فقط چند معاملات کا پتہ لگاپایا۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ جستجو کی تڑپ مگر معدوم ہوناشروع ہوگئی۔ غالب کے بتائے ”….شب وروز“ تماشے کو تقریباََ بددلی سے دیکھنے کی عادت اپنالی۔ بہت سے محققین اگرچہ گزشتہ چند برسوں سے اصرار کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ ”دریں دولت“ یا ”ڈیپ سٹیٹ“ کے لئے انٹرنیٹ کے دور میں خود کو عوام کی نگاہ سے اوجھل رکھنا ممکن نہیں رہا۔حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکہ ہی نہیں یورپ کے کئی ممالک میں بھی ٹرمپ جیسے معمول سے ہٹ کر اقتدار کا کھیل رچانے والے کرشمہ سازرونما ہوچکے ہیں۔ان کی وجہ سے ”نظام کہنہ“ کو برقرار رکھنا ممکن نظر نہیں آرہا۔ ہمارے ہاں عمران خان صاحب کو بھی ایسا ہی رہنما تصور کیا جاتا ہے جنہوں نے رواں برس کے اپریل میں وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد پنجابی محاورے والی ”پھٹیاں“ جارحانہ انداز میں پاش پاش کرنا شروع کردی ہیں۔عوامی اجتماعات میں وہ ان طاقت ور افراد کو للکارنے سے گریز نہیں کرتے جن کا ذکر روایتی سیاستدان سرگوشیوں میں لینے سے بھی گھبراتے تھے۔
میں جن دنوں جو ان ہورہا تھا تو ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو ”طاقت کا سرچشمہ“ بنانے کا نعرہ بلند کیا۔مجھے اس نعرے نے کئی دہائیوں تک مسحور کئے رکھا۔بطور صحافی 1985ءسے کم از کم 2008ءکے اختتام تک اقتدار کے کھیل کو نہایت لگن سے دیکھتے ہوئے مگر یہ دریافت کرنے کو مجبور ہوا کہ ”دریں دولت“ ہی طاقت کا حقیقی سرچشمہ ہے اور وقت کے ساتھ یہ توانا تر ہوتی گئی ہے۔روایتی اور خاص طورپر سوشل میڈیا پر حاوی ہیجان اگرچہ اس تاثر کی نفی کرتا محسوس ہوتا ہے۔
اپنے گھر تک محدودہونے کی وجہ سے میں فقط اندازے ہی لگاسکتا ہوں۔”اصل “ میں کیا ہونے والا ہے۔ یہ ہرگز طے نہیں کرپایا۔ گزشتہ کچھ دنوں سے تاہم یہ گماں لاحق ہورہا ہے کہ ان دنوں جو ”تماشے“ جاری ہیں اس کی حقیقی وجہ یہ ہے کہ ”دریں دولت“ یکسوئی سے کوئی نئی گیم ابھی تک تیار نہیں کر پائی ہے۔رواں برس کے نومبر کا انتظار ہورہا ہے۔ اس مہینے میں متوقع ایک کلیدی فیصلے کو نگاہ میں رکھتے ہوئے طاقت اور اقتدار کے مختلف ”سرچشمے“ اپنا اپنا اثراستعمال کررہے ہیں۔”اندر کی خبر“ رکھنے کے دعوے دار بھی کسی ایک معاملے پر یکسو نظر نہیں آرہے۔ان کا ایک گروہ بضد ہے کہ عمران خان صاحب کی ریاست کے کلیدی کرداروں سے چند ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ان کے نتیجے میں تحریک انصاف کے قائد کی دلجوئی کے لئے ایک ”روڈ میپ“ بھی تیار ہوچکا ہے۔ ”اندر کی خبر“ رکھنے کے دعوے دار ”ذہن سازوں“ کا مگر ایک اور بااثرگروپ اپنے یوٹیوب چینلوں کے ذریعے مصر ہے کہ مبینہ یا حقیقی ملاقاتیں بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔ حال ہی میں چکوال میں ہوئے ایک جلسے کے دوران عمران خان صاحب کا ”جلال“ ان کے دعویٰ کو درست ثابت کرتا محسوس ہوا۔
اس کے بعد امید یہ باندھی گئی ہے کہ اپنی مرضی کا ”روڈ میپ“ حاصل نہ کرپانے سے اُکتاکر عمران خان صاحب بالآخر رواں مہینے کے آخری ہفتے میں اسلام آباد پر اپنے پرجوش کارکنوں سمیت ایک اور دھاوا بولیں گے۔ اب کی بار ان کے اجتماع کے خلاف 25مئی دہرایا نہیں جاسکے گا۔وہ موجودہ حکومت کی رخصت یقینی بناکر ہی اپنا دھرنا ختم کریں گے۔ میں اس دھرنے کے انتظار میں تھا کہ یہ کالم لکھنے سے قبل مختلف دوستوں نے ٹیلی فون کے ذریعے یہ اطلاع فراہم کرنا شروع کردی کہ کسانوں کا ایک بھاری بھر کم اجتماع نظر بظاہر کسی معروف سیاسی قیادت کے بغیر اپنے تئیں اسلام آباد پہنچنے کی تیاری کررہا ہے۔ممکنہ اجتماع کے خوف سے اسلام آباد داخل ہونے کے راستوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے۔ کئی افراد جو مختلف کاموں کے سلسلے میں پنجاب کے دیگر شہروں سے اسلام آباد آنا چاہ رہے تھے چکری وغیرہ سے گھروں کو لوٹنے کو مجبورہورہے ہیں۔
بھارت میں بھی چند ماہ قبل کسانوں نے وہاں کے دارالحکومت کو طویل دنوں تک محاصرے میں رکھا۔ ان کی تحریک بھارتی پنجاب سے شروع ہوئی اور اس نے ہریانہ کے کسانوں کو بھی متحرک بنادیا۔مودی سرکار کسانوں کے اجتماع کو منتشر کرنے میں ناکام رہی۔ بالآخر ان کے چند مطالبات تسلیم کرنے کے بعد ہی اپنی جند چھڑائی۔ کسانوں کی اس تحریک کی بدولت بھارتی پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے لئے جو انتخاب ہوئے اس میں ”عام آدمی پارٹی“ نے کانگریس اور اکالی دل کو بدترین شکست سے دو چار کیا۔حالانکہ یہ دونوں جماعتیں 1951ءسے اقتدار میں باریاں لیتی چلی آرہی تھیں۔
عمران خان صاحب کے متوقع دھرنے سے قبل ہی اگر کسانوں کی کثیر تعداد اسلام آباد میں داخلے کے بعد کسی مقام پر دھرنا دے کر بیٹھ گئی۔ پولیس اور انتظامیہ ان پر قابو پانے میں ناکام رہی تو میڈیا کی توجہ عمران خان صاحب سے ہٹ کر مذکورہ دھرنے پر مرکوز ہوجائے گی۔شاہد خاقان عباسی کی وزارت عظمیٰ کے آخری ایام میں بھی تحریک لبیک نے راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک پر ایسا ہی ”جلوہ“ دکھایا تھا۔اسلام آباد کی جانب رواں کسانوں کی طرح وہ ”جلوہ“ بھی ”اچانک“ رونما ہوا تھا۔ اس کے اثرات کا روایتی اور سوشل میڈیا پر ”ذہن ساز“ شمار ہوتے ”تجزیہ کار“ بروقت اندازہ ہی نہیں لگاپائے تھے۔ مجھے خدشہ ہے کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے نام پر موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کو رام کرنے کے لئے جو اقدامات لئے وہ ہمارے معاشرے کے مختلف طبقات کو روایتی سیاسی جماعتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ”اچانک“ رونما ہوتے ”جلوے“ دکھانے کو اکساتے رہیں گے۔ سندھ اور بلوچستان میں سیلاب کی مچائی تباہی بھی بے تحاشہ نئے سوالات اٹھائے گی۔ہماری اکثریت مگر ”حال“ہی پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ