آئین میں 26 ویں ترمیم جس انداز میں متعارف اور پاس ہوئی واضح انداز میں عندیہ دے رہی تھی کہ اس میں موجود ’’سقم ‘‘دور کرنے کے لئے 27 ویں ترمیم لانا ہوگی اور اسے پاس کرواتے ہوئے موجودہ حکومتی بندوبست کی راہ میں اْبھرے چند کانٹوں سے بھی نجات حاصل کرلی جائے گی۔ بنیادی طورپر حکومتی فیصلہ سازی کے عمل پر 1985ء سے گہری نگاہ رکھنے کی بدولت حاصل ہوئے تجربے اور سرِراہ حاکموں کے چند نمائندوں سے سرسری گفتگو کے بعد میں نے اس کالم اور ٹی وی پروگراموں میں 27 ویں ترمیم کی تیاری کا ذکر وقت سے بہت پہلے شروع کردیا تھا۔ شہباز حکومت کے وزراء مگر نہایت اعتماد سے یقین دلاتے رہے کہ آئین میں ایسی ترمیم لانے کی تیار ی نہیں کی جارہی۔ ڈی سی کے جاری کردہ ڈیکلریشن اور پیمرا کے لائسنس کی بدولت چلائے ٹی وی چینلوں میں وزراء کے دعوئوں کو جھٹلانے کی ہمت باقی نہیں رہی۔ روز کی روٹی روز کمانے کے لئے عمر کے اس حصے میں بھی ہر صبح اٹھ کر یہ کالم لکھنے کو مجبور اس کالم نویس میں اب بیروزگاری جھیلنے کی سکت بھی باقی نہیں رہی۔میری جبلت ،تجربہ اور سرِ راہ ہوئی ملاقاتیں اگرچہ اصرار کرتی رہیں کہ 27 ویں ترمیم آوے ہی آوے۔ اس کی آمد کا ذکر کرنے سے مگر کنی کتراتے ہوئے صحافت کے نام پر ’’ڈنگ ٹپاتا‘‘ رہا۔
بلاول بھٹوزرداری صاحب کاشکریہ۔ 3نومبر2025ء کی صبح بارہ بجے سے چند منٹ قبل انہوں نے سادہ انگریزی میں سوشل میڈیا کے ایکس پلیٹ فارم کے لئے ایک پیغام لکھا۔ اس کے ذریعے لوگوں کو آگاہ کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب نے اپنے چند معاونین کے ساتھ بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی ہے۔ مذکورہ ملاقات کے دوران وزیر اعظم کی جانب سے آئین میں 27 ویں ترمیم متعارف کروانے کی خواہش کا اظہار ہوا۔ یہ ’’خبر‘‘ دینے کے بعد پیپلز پارٹی کے جواں سال رہنما نے وہ تمام معاملات بھی گنوادئے جن کی ’’اصلاح‘‘ کے لئے حکومت کو 27ویں ترمیم درکار ہے۔
حکومتی خواہش بیان کردینے کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے اپنے روبرو رکھی تفصیلات کے بارے میں ذاتی رائے دینے سے اجتناب کیا۔ فقط یہ اطلاع دینے پر اکتفا کیا کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی )کا اجلاس 6نومبر کو طلب کرلیا ہے۔ حکومت کی جانب سے 27 ویں ترمیم کے حوالے سے آئی تجاویز پر اس اجلاس میں تفصیلی غور ہوگا۔ اپنی رائے فراہم کر نے سے اجتناب اور معاملہ اپنی جماعت کی (سی ای سی) کے حوالے کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری درحقیقت عام پاکستانیوں کو یہ بتاتے سنائی دئے کہ فلاں فلاں معاملہ پر حکومت آسانیاں محسوس نہیں کررہی اور ان کے حل کے لئے آئین میں 27 ویں ترمیم متعارف کروانے کی طلب گار ہے۔ کسی صحافی کی طرح ایک اہم ترین خبر منکشف کرنے کے بعد وہ سیاستدان بن کر لوگوں سے اپنے ٹویٹ میں بیان کئے موضوعات پر عوامی بحث کے طلب گار نظر آئے تاکہ اس کی روشنی میں وہ کوئی فیصلہ لے سکیں۔
’’عدالتی‘‘ اور’’انتظامی‘‘ امور کی اصلاح کے نام پر بلاول بھٹو زرداری اور ان کی جماعت سے جو طلب کیا جارہا ہے وہ پیپلز پارٹی کی جانب سے بآسانی فراہم کیا جاسکتا ہے۔ 27 ویں ترمیم لیکن 2008ء سے 2013ء تک قائم رہی پارلیمان میں طویل مشاورت اور وہاں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے منظور ہوئی 18ویں ترمیم کے چند بنیادی نکات سے بھی چھٹکارا پانا چاہے گی۔ پیپلز پارٹی 18ویں ترمیم کو اپنی تاریخی کامیابی تصور کرتی ہے۔ اس کی بدولت 2008ء سے آج بھی صوبہ سندھ میں طاقتور صوبائی حکومت چلائے جارہی ہے۔ اپنے ’’تاریخی ورثے‘‘ کو ’’غلطی‘‘ تسلیم کرکے اس سے دستبردار ہوجانا پیپلز پارٹی کے لئے بہت مشکل ہوگا۔
اسلام آباد میں لیکن 2019ء ہی سے وفاقی حکومت کے اہم ترین حکام 18ویں ترمیم کی بدولت اپنے ’’قدموں میں ڈلی بیڑیوں‘‘ کی شکایت کرناشروع ہوگئے تھے۔ عرصہ ہوا سفارت کاروں سے ملنا میں نے چھوڑ رکھا ہے۔ اس کے باوجود سفارت کاروں سے ماضی میں طویل روابط ہونے کی وجہ سے کبھی کبھار اسلام آباد میں منعقد ہوئی چند سفارتی تقاریب میں جانے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ ان تقاریب میں پاکستان کو قرضے اور ’’امداد‘‘ فراہم کرنے والے عالمی اداروں کے بیشتر نمائندے پہلی ملاقات ہی میں 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو ملی ’’خودمختاری‘‘ کی بنیاد پر شکوہ کناں نظر آئے۔ بآسانی یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’عالمی اور وفاقی‘‘ فیصلہ ساز صوبائی خودمختاری کے موجودہ تناسب ومعیار سے ناخوش محسوس کرتے ہیں۔
وفاقی حکومت کو گلہ یہ بھی ہے کہ عالمی اداروں کی طویل منت سماجت کے بعد وہ ملک کو ’’دیوالیہ سے بچانے کے نام پر‘‘ ہر تیسرے برس آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک کو مجبور ہوجاتی ہے۔ قومی خزانے میں قوم پر عائد ٹیکسوں کے ذریعے رقوم اکٹھا کرنا اس کی ذمہ داری ہے اور ٹیکسوں کے نفاذ اور ان کا حصول کرتے ہوئے وہ عموماََ خلق خدا کے غضب کا نشانہ بنی رہتی ہے۔ غیر ملکی اداروں کے ترلوں اور عوام پر ناقابل برداشت ٹیکس عائد کرنے کے بعد جو رقوم وہ جمع کرتی ہے اس کا 40فی صد بھی وفاقی حکومت کو نصیب نہیں ہوتا۔ 60 فی صد صوبوں میں بٹ جاتا ہے اور صوبے ان رقوم کو ’’غیر ذمہ دارانہ انداز‘‘ میں خرچ کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں کو ’’رجواڑہ‘‘ چلانے والے ’’صوبے داروں‘‘ میں بدل دیتے ہیں۔ معاملات کو لہٰذا Rationaliseیا معقول بنانے کی ضرورت ہے۔
ابھی تک قائم آئین کے مطابق 2008ء کے انتخاب کے بعد قائم ہوئی حکومتوں نے نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے تحت صوبوں کے لئے سالانہ بجٹ میں جو حصہ مختص کیا تھا اسے بڑھایا تو جاسکتا ہے مگر کم نہیں کیا جاسکتا۔ 27 ویں ترمیم وفاقی حکومت کو مذکورہ پابندی سے آزاد کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم اور خاندانی منصوبہ بندی کے محکمے اور منصوبے بھی وفاقی حکومت کو لوٹانے کا ارادہ ہے۔
سوشل میڈیا پر توجہ دیں تو وہاں پر چھائے انقلابی دانشوروں کی نگاہ میں آئین کی شق 243میں ترمیم کا ارادہ سب سے ’’خطرناک‘‘ ہے جو شاید پاکستان کے مسلح اداروں پر منتخب صدر کے ’’کنٹرول‘‘ کو کم کرنے کی کوشش ہے۔ میں اس تناظر میں پیش ہوئے دلائل سن کر دل ہی دل میں مسکرانا شروع ہوجاتا ہوں۔ 1975ء سے سوائے صحافت کے کچھ اور نہیں کیا اور اس برس سے آج تک ’’وہاں‘‘ پر کامل کنٹرول ’’ان ہی‘‘ کے حوالے ہوا نظر آیا۔ آئین اور قانون میں اس حوالے سے جو بھی لکھا جاتا ہے وہ محض کاغذی کارروائی ہے جس کا حقیقی زندگی میں ٹھوس اظہار کبھی نظر نہیں آیا۔ 12اکتوبر1999ء میں ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کیساتھ دوسری مرتبہ وزیر اعظم کے دفتر لوٹے نواز شریف نے اگرچہ ’’کنٹرول‘‘ کے حوالے سے ایک فیصلہ لیا تھا جس کا انجام جنرل مشرف کے نو سالہ اقتدار پر ہوا۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار کہانیاں ہیں جنہیں سناکراپنا دل جلانا اور آپ کا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا۔ خود کو ’’بااصول دانشور‘‘ ثابت کرنے اور اس کالم کے لئے زیادہ سے زیادہ لائیکس اور شیئرز کے حصول کے لئے سیاستدانوں کو ’’شیر بن شیر‘‘ والے مشورے دینے سے بھی گریز کروں گا۔
27 ویں ترمیم نے عدلیہ کے چند معاملات بھی ’’سیدھا‘‘ کرنے ہیں۔ ’’عدلیہ کی آزادی‘‘ کے ’’روشن باب‘‘ میں نے افتخار چودھری اور ثاقب نثار کے دور میں بہت قریب سے دیکھ رکھے ہیں۔ ان کے ذکر سے بھی اجتناب کو فی الوقت ترجیح دوں گا۔ ویسے بھی آج کا کالم مکمل ہوگیا ہے۔ میری دیہاڑی لگ گئی۔ ’’دیہاڑی دار‘‘ کو ’’مبلغ انقلاب‘‘ کا ڈھونگ رچاتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ ۔۔ نوائے وقت )
فیس بک کمینٹ

