ایاز صدیقی کا شمار برصغیر کے نام ور غزل گو شعرا میں ہوتا ہے ۔ ایاز صدیقی سے ہماری کئی ملاقاتیں رہی ہیں، سو صاحبور اس دلپذیر دلر با شخصیت نے پاکستان کے ادبی حلقوں میں’’ نقد ہنر ‘‘ سے اک تہلکہ مچا دیا ۔۔ ایاز صدیقی کے فن میں بلا کی روانی ، سلامت ، تاثیر ، ندرت خیال ،لطافت و نفاست ، تنوع ، عصری مسائل اور ادبی چاشنی نے نکبت و رنگ میں جو کمال جمال پیدا کیا وہ سرا ہے جانے کے قابل ہے محترم ڈاکٹر عاصی کرنالی کا یہ کہنا بجا ہے کہ ایاز صدیقی نے اقدار حیات کی خوشبو پھیلائی ہے۔
محترمہ ثمر بانو ہاشمی کی رائے تھی کہ ایاز صدیقی کی غزلوں میں اثر انگزیزی سادگی اور ترنم ہے عذرا شوذب کا ان کے فن کے بارے میں کہنا ہے کہ ایاز صدیقی اردو غزل کا باکمال شاعر ہے۔ صاحبو اس معتبر اور تو انا شاعر کے بارے میں اور بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے کیونکہ ان کا فن کمالات ہنر اور کشمکش زندگی کو اس خوبی سے سپرد قرطاس کرتا ہے کہ امکانات کے ہزاروں زاویئے اور جہات کی رنگارنگ روشنی آپ کو ہر لمحہ متحیر کرتی رہے گی اس لمحہ موجود میں ہمیں یہ احساس بھی ہے کہ ہم ہزاروں اشعار میں سے صرف چند آپ کی خدمت میں پیش کر سکیں گے فکرِ ایاز صدیقی کے چند نادر مرقعے ادب دوستوں کی نذر
اے ہوا کہیو میری آبلہ پائی کا سلام
راستے میں جو کہیں قافلہ سالار ملے
جتنی تندی نفرت کے خدو خال میں ہے
اتنی شدت سے تو میں نے تجھے چاہا بھی نہیں
اللہ رے طوالت زنجیر انتظار
محشر سے جاملا ہے شب فرقت کا سلسلہ
آرائش جمال میں مصروف ہے کوئی
اللہ آئینے کے مقابل ہے آئینہ
آشیاں جلتا رہا چنتے رہے تنکے ایاز
زندگی بھر خاطر برق و شرر کرتے رہے
زمانے میں ادب کی قدر دانی کا یہ عالم ہے
جو چھوٹا شعر کہتے ہیں بڑا انعام لیتے ہیں
جنوں کی چاک دامانی سلامت
خرد کی پردہ پوشی ہو رہی ہے
اس نے کچھ اس تپاک سے منع سفر کیا
عزم سفر بھی حلقہ زنجیر پا ہوا
خبر کیا تھی محبت اس قیامت سے بھی گزرے گی
شکست عہد پر نادم نہ وہ ہو نگے نہ ہم ہوں گے
منہ سوئے قبلہ کیجئے کہ ایاز
زندگی رخ بدلنے والی ہے
نقد ہنر نہایت ہی تزک و احتشام سے بزم تخلیق ادب پاکستان نے شائع کی اور حقیقی ادب دوستوں کے لئے اک نادر تحفے سے کم نہیں، ہمیں یقین کامل ہے کہ زندگی کے اس "ست رنگے ” مجموعے کو پڑھ کر ادب نو از محبت امن آشتی اور مسرت کی قوس و قزح میں کھو جائیں گے اور ملتان کی محبت میں
سر شار بر سر کار آئینه بردار نعرہ عشق کے علمبردار یہی نعرہ لگائیں گے
آشفتگان عشق بھی کیا لوگ تھے ایاز
حق بات کہہ کے دار کے حق دار ہو گئے

