نئے دور کے سولنگی صاحب نے چند روز قبل ایک آ ن لائن پروگرام میں پی ڈی ایم کی تحریک کے حوالے سے کہا کہ ایسا لگتا ہے پنجاب کا ڈی این اے بدل رہا ہے۔ چڑیا والے سیٹھی بابا نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا دی۔ دونوں حضرات کا اشارہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کے سیاسی بیانئے کی طرف تھا کہ پنجابی عوام میں پہلی بار اسٹبلشمنٹ کے خلاف مزاحمتی بیانیہ مقبول ہو رہا ہے ۔ دونوں قابل احترام دانشوروں کے خیال کے مطابق یہ پنجاب کے بدلتے ہوئے سیاسی ڈی این اے کی نشانی ہے۔ دونوں سنئیر صحافی شائد یہ بات ہلکے پھلکے انداز میں بلا سوچے سمجھے کہہ گئے۔ مگر پنجابی قوم کی تاریخ سے آگاہ حلقوں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سوچ سے پنجابی قوم کے متعلق تعصب کی بو آتی ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ دونوں سنئیر صحافی جمہوریت پسنداور ترقی پسند حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ، جمہوریت پسند عوام انکے سیاسی تجزیوں اور تبصروں کو پسند کرتے ہیں۔ میں نے اس تحریر کے ذریعے تاریخی مغالطہ دور کرنے کی مختصرکوشش کی ہے ۔ شائد دونوں حضرات طبقاتی سیاسی ڈی این اے کے میرے نکتہ نظر سے اتفاق کرتے ہوئے ہوئے کسی پروگرام میں تھوڑی سی وضاحت کر دئیں جس کو پنجاب کے عوام دوست حلقوں میں خوش آمدید کہا جائے گا۔
کسی قوم کی حکمران اشرافیہ اور عوام کا طبقاتی اور سیاسی ڈی این اے ایک جیسا کیسے ہو سکتا ہے۔ انسانی سماج اور قوموں کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ محکوم طبقوں اور حاکم اشرافیہ کے درمیان طبقاتی تضاد ان کے الگ الگ طبقاتی و سیاسی ڈی این اے کی تشکیل کرتا ہے۔اشرافیہ کا طبقاتی و سیاسی ڈی این اے معاشی استحصال، ریاستی جبر اورفرسودہ نظام کے تحفظ کرنے پر استوار ہوتا ہے۔ جبکہ عوامی طبقات کا طبقاتی و سیاسی ڈی این اے ریاستی جبر کے خلاف احتجاج اور اشرافیہ کے معاشی استحصال سے نجات حاصل کرنے کی جستجو، مزاحمت اور جدوجہد متعین کرتی ہے۔
اس تحریر میں پنجابی قوم کے عوامی طبقات کی مزاحمتی سیاسی اور ادبی تحریکوں کا مختصر تذکرہ کیا گیا ہے ، جو پنجابی عوام کے سیاسی و طبقاتی ڈی این اے کی تشکیل کا سبب بنتا ہے۔ جس کا پنجاب کے جاگیردار اورسرمایہ دار طبقوں اور انکی نمائندہ اسٹبلشمنٹ سے قطعا کوئی واسطہ نہیں۔ پنجابی عوام کی مزاحمتی تاریخ بیان کرنے کا مقصد کسی دوسری قوم کی تاریخ کو کمتر سمجھنا نہیں ۔ ہر قوم کو اپنے تاریخی کارناموں پر فخر کرنے کا حق حاصل ہے اور ساتھ ہی ان پر دوسری ا قوام کی تاریخ اور تہذیب و تمدن کے احترام کرنے کا فرض بھی عائد ہو تا ہے۔
اس تحریر میں پنجاب کی صدیوں پرانی تاریخ کی ورق گردانی کرنے کی بجائے صرف فرنگی سامراج کے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد کی تاریخ تک محدود رہنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ راجہ پورس کی سکندر یونانی کے خلاف مزاحمت کی تاریخ بیان کرنے کے لئے کئی سو صفے درکار ہوں گے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے کارناموں سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ پنجابی کسانوں کی مغلوں کے خلاف تحریک جس نےسکھ مذہب کا روپ دھار لیا، کی یاد دہانی ہی کافی ہے۔ شہنشاہ اکبر کو للکارنے والا رومانوی کردار اور پنجابی لوک داستانوں کا ہیرو دلا بھٹی بھی پنجابیوں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوا۔ پنجاب دھرتی کے سپوت رائے احمد خاں کھرل کا فرنگی راج کے خلاف علم بغاوت ہماری تاریخ کا سنہری باب گردانا جاتا ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگرس کی سیاست برطانوی حکومت کو عرضداشتیں اور درخواستیں پیش کرنے تک محدود تھی۔ مگر پنجاب میں ایسی انقلابی تحریکوں نے سر اٹھایا جنہوں نے برطانوی ہند کے سیاسی و سماجی مستقبل اور تحریک آزادی کی راہیں متعین کرنے میں راہنمایانہ کردار سر انجام دیا۔ پنجابیوں نے 1900 سے 1947 کے دوران فرنگی سامراج کے خلاف جد و جہد آزادی میں انقلابی اور سیاسی تحریکوں میں بے مثال جرات اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور جانوں کے انمول نذرانے پیش کئے۔ قیام پاکستان کے بعد آمرانہ حکومتوں کے خلاف اور جمہوری حقوق کے لئے پنجابی عوام نے بھر پور جدوجہد کی ہے۔ مسلح انقلابی جد و جہد ہو، احتجاجی مظاہرے،جلوس اور جلسے ہوں یا ووٹ کے ذریعےجمہوری حق کا استعمال ہو، پنجاب کے عوام نے مزاحمت کی سنہری تاریخ رقم کی ہے۔
متحدہ پنجاب 1907 سے 1931 تک برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی ایسی انقلابی تحریکوں کا مرکز رہا جنہوں نے برطانوی استبداد کی جڑیں کھوکھلی کرنے اور انگریز سامراج کو بر صغیر سے بے دخل کرنے میں بہت اہم اور تاریخی کردار ادا کیا۔ گاندھی کے زیر اثر مورخین نے پنجابی انقلابیوں کے کردار کو کمتر ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ مگر وہ پنجاب کے انقلابیوں کو برصغیر کے عوام کے دلوں سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ پنجابی عوام نے مختلف ادوار میں بار بار ثابت کیا کہ وہ پر امن جمہوری تحریکوں میں حصہ لینے پر اتنا ہی قادر ہیں جتنا انقلابی تحریکوں میں حصہ لینے کے۔
کسان تحریک ’’پگڑی سنبھال جٹا‘‘ 1907 سے 1909
پنجاب کے کسانوں کی کالونیز قانون مجریہ 1906 کے خلاف احتجاجی تحریک ’’پگڑی سنبھال جٹا‘‘1907 سے 1909 تک جاری رہی۔ اس تحریک کو پنجاب میں تحریک آزادی کا نکتہ آغاز بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تحریک پنجاب کے شہروں لائیلپور، امرتسر، راولپنڈی، لاہور، ہوشیار پور وغیرہ میں احتجاجی مظاہروں اور جلسوں تک محدود نہ تھی ۔ اس کے نتیجہ میں زیر زمین تنظیمیں معرض وجود میں آنا شروع ہوئیں اور فرنگی سامراج کے خلاف انقلابی اور باغیانہ لٹریچر تقسیم ہونے لگا۔ ہوشیار پور میں ایک پریس پر پولیس چھاپہ کے دوران ایک تحریر سامنے آئی جس میں آزادی ہند کے لئے حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا گیا تھا۔ آزادی کی جد و جہد کے لئے نوجوانوں کو مسلح گروہوں میں منظم کرنا بھی اس حکمت عملی کا حصہ تھا۔ برطانوی ہوم ڈیپارٹمنٹ نے اس سکیم کی رپورٹ مئی 1902 میں جاری کی۔ تحریک کے کارکنوں اور راہنماوں پر پولیس تشدد اور گرفتاریاں روزمرہ کا معمول تھا۔ پنجابی کسانوں میں ابھرتی ہوئی انقلابی لہر سے خوف زدہ ہو کر لارڈ منٹو نے کالونیز قانون واپس لے لیا۔ یہ تحریک 1909 کو اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔ اس تحریک نے پنجاب کے نوجوانوں میں عزم، حوصلہ اور حریت کی لہر دوڑا دی۔ کسان تحریک سے وابسطہ کئی راہنما گرفتاروں سے بچنے کے لئے ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور غدر پارٹی کے بانیوں میں شمار ہوئے۔
غدر پارٹی 1913 سے 1915
سان فرانسسکو سے جاری ہونے والے ہفت روزہ جریدے ’’غدر‘‘ کا پہلا شمارہ اردو زبان میں 1913 کو شائع ہوا۔ اس میں لکھا گیا کہ ’’ اس تحریک کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے عوام انگریزی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کریں، ان کو تباہ کر دیں، ان کی بیخ کنی کریں۔ با لکل ایسے جیسے کوئی کرم خورد درخت ہو۔ ہمارا بنیادی مقصد انگریز کو نکال کر ہندوستان میں ایک قومی حکومت قائم کرنا ہے‘‘۔ ’’ 1857 کے غدر کو پچاس برس ہو گئے ہیں۔ اب ہمیں ایک بغاوت کی ضرورت ہے۔ آج ہم انگریزی سرکار کے خلاف ایک جنگ کا آغاز کر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد غدر ہے، بغاوت برپا کرنا ہے۔ ہمارا کیا کام ہے غدر۔ یہ غدر کہا ں برپا ہو گا، ہندوستان میں۔ وہ وقت دور نہیں جب رائفل اور خون، قلم اور اس کی روشنائی کی جگہ لے لے گا‘‘۔ اس جریدے کے ادارتی عملہ میں ’’پگڑی سنبھال جٹا‘‘ تحریک کے سرگرم کارکن لالہ ہر دیال کے علاوہ کرتار سنگھ، رام چند، برکت اللہ، جگت سنگھ، محبوب علی، عنائت علی خان اور امر سنگھ شامل تھے۔ پنجاب دھرتی کے عالمی شہرت یافتہ کمیونسٹ دادا امیر حیدر نے ملکوں ملکوں سفر کر کے غدر پارٹی کا لٹریچر انڈین تارکین وطن تک پہنچایا۔ بھگت سنگھ اور ساتھیوں کی حمائت میں مہم چلانے کی پاداش میں دادا امیر حیدر نے کئی سال مظفر گڑھ اور انبالہ جیلوں کی سختیاں برداشت کیں۔
ہفت روزہ جریدہ غدر کے نام سے مشہور غدر پارٹی کے بحری جہاز کے ذریعےہندوستان اسلحہ سمگل کرنے، ہندوستان کے اندر حریت پسندوں کی سرفروشانہ کاروائیوں، لازوال قربانیوں، پھانسیوں اور قید و بند کی صعوبتوں کے دلخراش واقعات نے دیومالائی داستانوں کی حثیت اختیار لی ۔ غدر پارٹی کے حریت پسند وں نے دیومالائی ہیرووں کا روپ دھار لیا۔ غدر پارٹی نے پہلی عالمی جنگ کے دوران انگریز سامراج سے نجات کے لئے مسلح بغاوت کا نعرہ لگا یا۔ غدر پارٹی کے پنجابی تارکین وطن محنت کش جذبہ حریت سے سر شار ہو کر جان کی بازی لگانے جوق در جوق ہندوستان پہنچے۔
ہندوستان میں اگست 1915 تک غدر پارٹی کو کچل دیا گیا۔ راہنماوں اور کارکنوں کو طویل مدتی قید کی سزاوں اور پھانسیوں کے بعد غدر پارٹی تقریباً ختم ہو گئی۔ قید و بند کی سزائیں بھگت کر رہائی کے بعد اکثر نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں شمولیت اختیار کر لی۔ اپریل ۱۹۱۷ کو سان فرانسسکو، امریکہ میں غدر پارٹی کے متعد راہنماوں کو گرفتار کر کے قید اور جرمانے کی سزائیں سنا دی گیں کیونکہ یہ لوگ امریکہ کے ایک دوست ملک برطانیہ کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ غدر پارٹی نے صرف پنجاب میں ہی نہیں بلکہ سارے ہندوستان کے عوام کے سیاسی شعور کو جلا بخشی اور تحریک آزادی کے دھارے کا رخ تبدیل کر دیا۔
رولیٹ ایکٹ، سانحہ جلیانوالہ، پنجاب میں مارشل لاء اور اودھم سنگھ
پہلی عالمی جنگ کے دوران پنجاب، بنگال اور بر صغیر کے دیگر علاقوں میں برپا ہونے والی انقلابی تحریک اور پرتشدد کاروائیوں کا سدباب کرنے کے لئے مارچ 1919 کو کالے ظالمانہ قانون رولیٹ ایکٹ کی منظوری دی گئی۔ پورے ملک میں اس کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہو گی۔ پنجاب اور ملک بھر میں احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس تحریک کے تسلسل میں 13۔ اپریل 1919 کو ایک بہت بڑا احتجاجی جلسہ امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں منعقد ہوا۔ جلسہ میں تقریروں کا سلسلہ جاری تھا کہ انگریز ایریا کمانڈر جنرل ڈائر کے حکم پر وحشیانہ فائرنگ کرکے ایک ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی کر دئے۔ بعد ازاں پنجاب کے پانچ اضلاع بشمول امرتسر، لاہور اور گوجرانوالہ میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ اس تحریک میں پنجاب کے عوام نے ہر قسم کی مذہبی فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت کی سنہری تاریخ لکھی اور وحشیانہ مظالم برداشت کئے، جن کی مثال 1857 کے بعد بر صغیر کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جلیانوالہ سانحہ کے اٹھائس سال بعد بر صغیر کے عوام کو آزادی ملی مگر 1919 کو پنجاب میں کھیلی گئ خون کی ہولی نے فرنگی راج کی بساط الٹ دی تھی۔ امریکی مورخ نارمن براون لکھتا ہے ’’ اگر کسی ایک واقعہ نے انگریزوں کے ہندوستان میں رہنے کے امکان کو ختم کیا تھا تو وہ امرتسر کا واقعہ تھا۔ اس کے بعد ہندوستان مکمل آزادی کی طرف گامزن ہو گیا‘‘۔ یاد رہے کہ ایک پنجابی طالب علم اودھم سنگھ نے مارچ 1940 کو لندن میں جنرل ڈائر کو ہلاک کر کے جلیانوالہ باغ میں کئے گئے مظالم کا حساب برابر کرنے کی کوشش کی۔
سردار بھگت سنگھ اور ساتھیوں کی سرفروشی کی داستان
غدر پارٹی کی تحریک اور جلیانوالہ باغ سانحہ نے بھگت سنگھ کی سیاسی سوچ کی ساخت میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ وہ گاندھی کے فلسفہ عدم تشدد کے شدید مخالف تھے۔ بھگت سنگھ کی جرات اور بہادری نے پنجاب کی لوک داستانوں میں دیو مالائی مقام پا لیا۔ جد و جہد آزادی میں بھگت سنگھ کی شجاعت کی داستانیں پنجاب بھر میں گائی اور سنائی جاتی ہیں۔ بھگت سنگھ نے پھانسی سے قبل لاہور جیل سے پنجاب کے انگریز گورنر کو ایک خط میں لکھا ’’ یہ جنگ اب ایک نئی شان و شوکت کے ساتھ لڑی جائے گی۔ جس میں بہادری اور جرات کے نئے باب رقم ہوں گے۔ یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہندوستان میں سوشلسٹ جمہوری نظام قائم نہیں ہو جاتا۔یہ جنگ ہم نےشروع کی نہ ہم نے اس کو ختم کرنا ہے۔ یہ جنگ ظالم اور مظلوم کے درمیان صدیوں پہلے شروع ہوئی اور ہم نے اس کو تیز کرنے میں اپنا معمولی سا حصہ ڈالا ہے‘‘۔
بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کی پھانسی نے بر صغیر کے لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا۔انہوں نے پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے بر صغیر کے نوجوانوں کے دلوں میں گھر بنا لیا اور جذبہ حریت کے نئے جوش اور ولولے سے سر شار کر دیا۔ انگریز استبدادی حکومت اس قدر خوف زدہ تھی کہ انکی پھانسی کا دن بھی لوگوں سے چھپائے رکھا۔ پنجاب کے ان سرفروشوں کو 23 ۔ مارچ 1930 کی صبح عیارانہ خاموشی سے سولی پر چڑھا دیا گیا۔ حتیٰ کہ گاندھی بھی کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ’’حالیہ تاریخ میں ایسا کوئی آدمی نہیں گزرا جو معاشرہ میں ایک رومانوی کردار بن گیا ہو، یہ اعزازصرف بھگت سنگھ کے حصے میں آیا‘‘۔
آزاد ہند فوج1942 ۔1944
اپریل 1942 کو ٹوکیو میں برٹش انڈین آرمی کے کیپٹن موہن سنگھ، کیپٹن محمد اکرم اور کرنل نرنجن سنگھ نے آزاد ہند فوج تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ جولائی 1943 کو سبھاس چندر بوس نے آئی این اے کی کمان سنبھال لی۔ انہوں نے بیرون ملک سے ہندوستان کی عبوری جلاوطن حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا ۔ سبھاس چندر بوس وزیر اعظم بنے اور انکی کابینہ میں مسز لکشمی، ایس اے آئر، گلزار سنگھ، احسان قادر اور شاہنواز شامل تھے۔ موہن سنگھ کو آزاد ہند فوج کا کمانڈر انچیف مقرر کیا۔
آزاد ہند فوج کی تحریک مختصر مدت کے لئے جاری رہی مگر اسے جد و جہد آزادی میں ایک سنہری باب کی حثیت حاصل ہے۔ اس میں ستر فیصد لوگوں کا تعلق پنجاب سے تھا اس لئے اس تحریک کو پنجاب کی جد و جہد سے منسلک کیا جانا درست ہو گا۔ اس تحریک میں پنجابیوں کی نا قابل فراموش اور لازوال قربانیاں تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی گئی ہیں۔ اس تحریک کی وجہ سے انگریزوں کا ہندوستانی فوج پر بھروسہ متزلزل ہو گیا ۔ انگریزوں کو یہ باور کرنے میں مشکل پیش نہیں آئی کہ بر صغیر میں انکے قیام کے دن اب گنے جا چکے ہیں۔
پاکستان میں پنجابی عوام کی سیاسی مزاحمت
فوجی آمر جنرل ایوب خان کے خلاف جمہوری تحریک میں پنجاب کے عوام کا کلیدی کردار رہا ہے۔ 1968 کو کراچی میں طلبہ تنظیم این ایس ایف نے ایوب خان کے خلاف مظاہروں کا آغاز کیا۔ پنجاب کے طلبہ، محنت کشوں اور کسانوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی مزاحمتی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایوبی آمریت کے خاتمے کا پرچم تھام لیا۔ ایوبی آمریت کے خاتمے کی تحریک کی گونج پنجاب کے ہر شہر، قصبے اور گاوں میں سنی گئی۔ تحریک کے دوران ہزاروں طلبہ، ٹریڈ یونین کارکنوں اور سیاسی کارکنوں کو پولیس تشدد اور جیلوں کی سختیاں سہنی پڑیں۔ پنجاب کے متعد طلبہ اور نوجوانوں کو ایوبی آمریت کے خاتمے کی تحریک میں جانوں کے نذرانے پیش کرنے پڑے۔
جنرل ضیاء کی مارشل لاء کے خلاف پنجاب کے سیاسی کارکنوں نے مزاحمت کی لازوال داستان لکھی۔ ہزاروں عقوبت خانوں میں غیر انسانی تشدد کا شکار ہوئے، ہزاروں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کئے گئے، بیسیوں نے اپنی پشتوں پر کوڑوں کو سہا اور سینکڑوں کارکن سیاسی پناہ کی تلاش میں تارک وطن ہوئے۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے کارکنوں نے بھٹو کی زندگی بچانے کے لئے خود سوزی کا احتجاجی طریقہ اپنانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ عثمان غنی، ادریس طوطی اور کئی سیاسی کارکن ضیاء مار شل لاء کے خلاف جدو جہد کرتے سولی پر جھول گئے۔ ۱۹۸۱ میں ایک جہاز کو زمین سے میزائل کا نشانہ بنایا گیا جس میں ڈکٹیٹر جنرل ضیاء سوار تھا مگر جہاز اور سوار دونوں میزائل کے نشانے سے بال بال بچ گئے۔ یہ کاروائی پنجاب کے ایک سپوت مرحوم چوہدری اعظم اور انکے ساتھی اعوان نے جان ہتھیلی پر رکھ کر کی تھی۔
کیا پنجاب کے دل لاہور کے اس مزاحمتی مزاج کو بھلایا جا سکتا ہے جب ذوالفقار علی بھٹو کی دختر بے نظیر بھٹونے جلاوطنی کے بعد اپریل ۱۹۸۶ کو لاہور کی سر زمین پر قدم رکھا۔ پنجاب کے آسمان نے یہ نظارہ نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا اور نہ بعد میں آج تک۔ لاکھوں انسانوں کا ٹھاٹیں مارتا سمندر احتجاجی نعروں کی گونج میں بے نظیر بھٹو کا استقبال کرتا سڑکوں پر نکل آیا۔ پنجاب کے ایک سپوت حبیب جالب کی نظم ‘‘ ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے‘‘ ضیاء آمریت کے خلاف احتجاجی ترانہ بن گیا۔ جنرل مشرف کی آمریت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے والے پنجاب کے وکلاء اور عوام کی تحریک کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔
انتخابی سیاست میں پنجابی عوام کی جمہوری مزاحمت بھی تاریخ کے صفحوں میں محفوظ ہے۔ پنجاب کے عوام نے 1970 کو ذوالفقار علی بھٹو کی مزاحمتی سیاست کو ووٹ دے کر مسند پر براجمان کرایا۔ 1988 کو بے نظیر بھٹو کی مزاحمتی سیاست کو ووٹ دے کر اقتدار تک پہنچایا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پنجاب نے ایک بار پھر استبداد کے خلاف مزاحمت کے ووٹ سے پیپلز پارٹی کو سر فراز کیا۔
استبداد، فرسودہ نظام اور روایت پرستی کے خلاف مزاحمتی پنجابی ادب
پنجابی ادب کی فرسودہ سماجی و ثقافتی راویات اور ریاستی استبداد کے خلاف مزاحمت کی درخشاں تاریخ ہے۔ شہنشاہ اکبر کے زمانہ میں لاہور کے مادھو لال حسین نے کیا خوب لکھا ’’کہے حسین فقیر سائیں دا تخت نہ ملدے منگ‘‘ْ۔ بابا فرید شکر گنج، مادھو لال حسین، بابا بھلے شاہ، وارث شاہ، خواجہ غلام فرید، درشن سنگھ آوارہ، امرتا پریتم اور استاد دامن کے علاوہ انگنت پنجابی شاعروں کا صوفیانہ کلام آج بھی روایت شکن اور مزاحمت کا نشان سمجھا جاتا ہے ۔ اردو میں لکھنے والے پنجاب کے شعراء فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی، ظہیر کاشمیری ، حبیب جالب اور کئی دوسرے شعرا ء کی انقلابی شاعری نے بر صغیر میں انقلابی اور جمہوری تحریکوں میں عوام کا خون گرمایا۔ ان کا انقلابی کلام نوجوانوں میں استحصا لی اور فرسودہ استبدادی نظام کے خلاف جد وجہد میں جوش و جذبہ پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔ پنجاب کے لکھاریوں کے مزاحمتی ادب پر لکھنے کے لئے کئی ہزار صفحات درکار ہیں ، یہ مختصر تحریر اسکا احاطہ کرنے سے معذور ہے۔ ان کی انقلابی تخلیقات پر بہت کچھ لکھا جا چکا، لکھا جا رہا اور لکھا جاتا رہے گا۔
فیس بک کمینٹ