پیاس بھرا مشکیزہ کی اشاعت کے دوران بہت سےدلچسپ مرحلے بھی آئے۔ دیباچہ تو عباس تابش نےتحریر کر دیا تھا۔ جبکہ فلیپ پر رائے کے لئے احمد ندیم قاسمی اور مرتضی برلاس میری ترجیحات میں تھے۔ اگرچہ ظفر اقبال قبل ازیں مری شاعری پر ایک پورا کالم نئے شاعر کے ظہور کے عنوان سے نوائے وقت میں تحریر کر چکے تھے۔ لیکن ان سے مرے فلیپ کے لیے رائے طاہر اسلم گورا نے حاصل کی۔ ظفر اقبال کے فلیپ کے آخری حصے پر چند دوستوں کے تحفظات بھی تھے۔ ان کا خیال تھا یہاں ظفر اقبال نے محض اپنی شعری عظمت بیان کرتے ہوئے خوامخواہ مجھے اپنا جانشین بنانے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ پیاس بھرا مشکیزہ ان سے قطعی مختلف ڈکشن رکھتا ہے۔ آپ ان کے فلیپ کا وہ حصہ ملاحظہ کریں
"قمررضا شہزاد کو میں اپنی توسیع اس طرح بھی قرار دیتا ہوں کہ پرانے ٹھنٹ سے یہ گلدار شاخ ایسی نکلی ہے کہ قابل دید ہونے کے ساتھ ساتھ لائق تقلید بھی ہے ۔ حتی کہ اسے دیکھ کر میں خود اپنے آپ کو تروتازہ محسوس کرنے لگتا ہوں چنانچہ اپنے بعد آنے والوں کے لئے اپنے تمام تر عجز وانکسار کے ساتھ جو کچھ میں کر پایا ہوں امید کرنی چاہئے کہ اپنے پسماندگان کے لئے وہ زیادہ بہتر مثال چھوڑنے کے قابل ہو سکے گا”
کچھ دوستوں کو خاص طور پر ان کے اس جملے پر اعتراض تھا کہ انہوں نے مجھے اپنی توسیع کس حوالے سے قرار دیا ہے۔ لہذا ان کی رائے تھی کہ اس جملے کو فلیپ سے نکال دینا چاہئے۔ لیکن میں نے کہا یہ ان کی رائے ہے لہذا جیسی بھی ہے شائع ہونی چاہیے۔ اس کتاب میں دو فلیپ محض فلیپ نگاروں کی خواہش پر شامل کئے گئے۔ اک محترم جعفر شیرازی جن سے قیام ساہیوال کے دوران مرا محبت کا رشتہ قائم ہوا تھا اوردوسرے خالد اقبال یاسر جو مری غزلوں کو ادبیات میں شائع کرنے کے بعد یہ حق سمجھتے تھے کہ ان کا فلیپ بھی میری کتاب پر ہو۔ میں خالد اقبال یاسر کا فلیپ قطعی شامل کرنے کے حق میں نہیں تھا۔ لیکن اپنی وضعداری اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے مار کھا گیا۔ لاہور میں اس شعری مجموعے کی تقریب رونمائی طاہر اسلم گورا نے ادارہ بادبان کے زیر اہتمام شیزان ریگل مال روڈ کے ائر کنڈیشنڈ ہال میں کی۔ تقریب کی صدارت احمد ندیم قاسمی نے کی جبکہ مہمانان خصوصی مرتضی برلاس اور افتخار عارف تھے۔ افتخار عارف خصوصی طور پر اس کتاب کی تقریب میں شرکت کے لئے اسلام آبادسے لاہور تشریف لائے تھے۔مضامین پڑھنے اور گفتگو کرنے والوں میں صاحبان سٹیج کے علاوہ علی اکبر عباس ۔عباس تابش اور عدنان بیگ تھے جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض طاہر اسلم گورا نے انجام دئے۔ شیزان کا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔لاہور کے تقریبا تمام قابل ذکر ا دیب اور شاعر شریک تھے
افتخار عارف صاحب نے تفصیلی مضمون پڑھا۔ اس مضمون میں انہوں نے پہلی مرتبہ شعرائے اصطبل کی اصطلاح استعمال کی جس کا نشانہ خالداقبال یاسر اور اس قبیل کے ایک دو شاعر اور بھی تھے۔ بعد میں یہ اصطلاح بہت مشہور ہوئی۔ اسی تقریب میں محترم مرتضی برلاس نے ظفر اقبال کی کلاس بھی لی۔ انہوں نے توسیع کے لفظ کو ان کی اپنی شعری شکست کے معنوں میں استعمال کیا۔ جناب احمد ندیم قاسمی کا تحریر کردہ تفصیلی مضمون بھی محبتوں بھرا تھا جو بعد ازاں فنون میں شائع ہوا۔ یہ تقریب بلاشبہ لاہور کی چند ایک یادگار تقریبات میں سے تھی۔
اس تقریب کے تین ہفتوں کے بعد 29 ستمبر 1994 کو مجھے رشتہ ازدواج میں باندھ دیا گیا ۔میری شادی کی تقریب میں مرے کولیگز کے علاوہ میرے جو ادبی دوست بھی شامل ہوئے ان میں جعفر شیرازی ۔عباس تابش۔ ارشد ملتانی ۔ رضی الدین رضی ۔شاکر حسین شاکر ۔شہباز نقوی ۔بیدل حیدری ۔ خادم رزمی ۔ساغر مشہدی ۔ مقصود وفا۔ اعجاز توکل۔ علی معین ۔ذ یشان اطہر۔ طاہر نسیم ۔ ساجد نجمی ۔ حسنین اصغر تبسم اور دیگر شامل تھے۔
لاہور سے بہت سے دوست اس لئے بھی شامل نہیں ہوسکے کہ اس روز نواز شریف کا بے نظیر حکومت کے خلاف لانگ مارچ تھا۔ لہذا سڑکوں پر غیر یقینی صورت حال تھی۔ ظفر اقبال نے میری شادی میں شریک نہ ہوسکنے پر جس انداز میں معذرت کی وہ بھی بہت دلچسپ تھی ۔ انہوں نے مجھے ٹیلی فون پر کہا۔ میں اس مرتبہ کچھ ذاتی مصروفیات کی وجہ سے شادی میں شریک نہیں ہوسکا انشاءاللہ آئندہ جب آپ شادی کریں گے میں ضرور شریک ہوں گا۔
فیس بک کمینٹ