شادی نے زندگی کے معمولات کو تھوڑا سا تبدیل تو کردیا تھا لیکن خدا وند کریم نے مجھ پر ایک عنایت ضرور کی تھی کہ اہلیہ اکنامکس میں ایم اے ہونے کے باوجود شعر و ادب سے زیادہ منسلک تھیں۔ اور یہ امر میرے لئے خوش کن تھا۔ شاید اس لئے بھی کہ اکثر شاعروں کی بیویاں عموماً شاعری کو اپنا رقیب سمجھتی ہیں اور ان کے اشعار سے بھی اپنے پسند کے مطلب نکال کر شاعروں کی پرانی محبتوں کو کھوجتی رہتی ہیں۔ لیکن میرے ساتھ ایسا نہیں تھا۔
شادی کے ایک ہفتہ بعد ہی مجھے اسلام آباد میں اکادمی ادبیات کے زیر اہتمام منعقدہ چار روزہ سرکاری اہل قلم کانفرنس میں شرکت کے لئے جانا پڑا ان دنوں اکادمی کے چئیرمین فخر زمان تھے۔ فخر زمان پنجابی زبان کے باکمال ادیب تھے اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماؤ ں میں سے تھے ۔ ضیاالحق کے دور میں ان کے مزاحمتی پنجابی ناول ”بندی وان “ نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ اس کانفرنس میں زیادہ تر وہ روشن خیال ادیب وشاعر شریک تھے جنہوں نے مارشل لا کے خلاف نہ صرف لکھا بلکہ عملی طور پر جدوجہد بھی کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اکادمی ادبیات کے پاس خاطر خواہ فنڈز تھے۔ ادیبوں شاعروں کو آنے جانے کے لئے ہوائی ٹکٹ فراہم کئے گئے اور انہیں اسلام آباد کے فو ر اور فائی سٹارز ہوٹلوں میں ٹھہرایا گیا۔ مجھے یاد ہے اسی کانفرنس میں ایک دلچسپ واقعہ بھی ہوا۔ فیصل آباد سے پنجابی زبان کے معروف مزاحیہ شاعر عبیر ابوزری بھی ایسے ہی ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔انہوں نے ہوٹل انتظامیہ کو اپنی واسکٹ ڈرائی کلیننگ کے لیے دے دی۔ اس کا بل غالبا اس زمانے میں 300روپے تھا۔ جب بابا جی نے یہ بل دیکھا تو ان کے ہوش اڑگئے ۔ باباجی نے واسکٹ لے کر آنے والے ویٹر سے کہا "پتر فیصل بادوں اے واسکٹ میں 400روپے دی لئی سی تسی میں نوں سو روپے دے کے اینوں آپنے کول ای رکھ لئو”
اس کانفرنس میں ایک اور دلچسپ واقعہ یہ بھی ہوا کہ ناشتے کی میز پر گفتگو کرتے ہوئے بیدل حیدری صاحب نے یہ انکشاف کیا کہ انہیں اس سال کے ادب کا نوبل پرائز مل رہا۔ سب کے لئے یہ انکشاف ناقابل یقین اور محض بیدل صاحب کی بڑ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا لہذا کسی نے ان کی اس اعلان پر کوئی توجہ نہیں دی۔ البتہ پروفیسر ڈاکٹر محمد امین سے نہ رہا گیا ۔ انہوں نے کہا ڈاکٹر صاحب یہ کیسے ممکن ہے ابھی آپ کی شاعری کا ایک ہی مجموعہ شائع ہوا ہے۔ اور نہ ہی اس کا انگلش میں کوئی ترجمہ ہے ۔ ادب کے نوبل پرائز کے لئے تو دنیا بھر کے ادیبوں اور شاعروں کے کام اور ان کی ادبی خدمات کو ایک جیوری دیکھتی ہے اور پھر کوئی فیصلہ ہوتا ہے۔ لہذا یہ آپ نے یونہی ہوا میں بات چھوڑی ہے۔
امین صاحب کی اس بات پر بیدل صاحب بھڑک اٹھے۔ بہرحال احباب نے بیچ بچاؤ کرواکے بات ختم کی۔ اور بیدل صاحب کو نوبل پرائز کا مستحق قرار دے کر ان کا غصہ ٹھنڈا کیا۔ میرے لئے اس کانفرنس میں دیگر شہروں کے علاوہ اسلام آباد کے دوستوں سے ملاقاتیں اور نشستیں بھی بہت یادگار رہیں ۔
کانفرنس سے واپس آیا تو محسن نقوی نے مجھے پی ٹی وی کے ایک ادبی پروگرام جریدہ میں مدعو کرلیا۔ محسن نقوی اس پروگرام کے میزبان تھے۔ 25 منٹ کے اس پروگرام میں ایک شاعر کو بلا کر اس سے گفتگو کی جاتی اس کا کلام سنا جاتا اور آخر میں کوئی گلوکار اس کا کلام گاتا تھا
پی ٹی وی لاہور سنٹر میں یہ پروگرام ریکارڈ کیا گیا۔ محسن نقوی کے شاندار سوالات اور ان کے انداز گفتگو نے پروگرام کو چار چاند لگا دئے تھے۔ اور اسی پروگرام میں پہلی مرتبہ میری کوئی غزل گائی گئی ۔ اور گانے والے غزل کے معروف گائک حامد علی خان تھے۔
محسن نقوی میرے ان محبت کرنے والے محسنوں میں سے ہیں جنہوں نے ہمیشہ میری شاعری کو نہ صرف ہر جگہ پزیرائی عطا کی بلکہ اکثر یہ بھی کہا قمر اگر ادبی مستقبل بنانا ہے تو لاہور شفٹ ہوجاؤ ۔ لیکن میں اپنی والدہ کی محبت کی وجہ سے اپنا علاقہ چھوڑنے کے حق میں نہیں تھا۔ اوریہی وجہ ہے میں اپنی والدہ کے انتقال کے بعد اپنے شہر سے نکلا۔
اسی سال کے آخر میں ادبی دنیا کو ایک بڑے نقصان کا سامنا کر نا پڑا
اسلام آباد میں ایک حادثے میں پروین شاکر کی موت نے پوری ادبی فضا کو سوگوار کر دیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شاعرات میں سب سے زیادہ مقبولیت ان کے حصے میں آئی اور جو ان کے انتقال کے تقریبا 24 سال بعد بھی اسی طرح قائم ودائم ہے۔ میری ان سے ایک ہی مختصر ملاقات ہے جو آج بھی میرے دل پر نقش ہے۔
فیس بک کمینٹ