بہاولپور کےمشاعرے کی تھکن تو جلد اتر گئی لیکن نشہ بہت دنوں تک رہا ۔۔ اور پھر وہ بھی ایک دن ہرن ہوگیا جب میرے مرکز کی یونین کونسلز سے منتخب ہونے والے نواز لیگ کے ایم پی اے ملک طیب اعوان اور احمد خان بلوچ نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا۔ ۔ اب ان کی ساری توجہ حکومت پنجاب سے ملنے والی ترقیاتی گرانٹس کی طرف تھی جسے وہ اپنی مرضی سے اپنے حامیوں کے علاقوں میں خرچ کرنا چاہتے تھے۔ مختلف سرکاری محکموں کے افسران ان ترقیاتی سکیموں کے تعاقب میں تھے۔ کہ کسی طرح ایم پی اے ان کے ذ ریعے یہ ترقیاتی کام مکمل کروائیں۔ مجھے بھی اس وقت کے اے ڈی ایل جی محمد حسیںن پہوڑ نے بلا کر کہا۔آپ بھی اپنے ایم پی ایز سے ملیں اور ترقیاتی سکیمیں حاصل کریں۔ لیکن مجھے اس طرح کی بھاگ دوڑ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ویسے بھی ان ترقیاتی سکیموں کے حصول کے پیچھے کمیشن کی کشش تھی جو میرے بہت سے کولیگز کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ میری عدم دلچسپی کی وجہ سے میرے علاقے کی بہت سی سکیمں تحصیل ہیڈ کوارٹر لودھراں مرکز کے پراجیکٹ مینجر رانا عبدالمجید نے حاصل کرلی تھیں ، جس کا میرے سٹاف خاص طور پر سب انجینیر کو بہت صدمہ ہوا۔ اور اسے میری یہ نالائقی یا شرافت ایک آنکھ نہیں بھائی۔ جبکہ میں اپنے ساتھی پراجکیٹ مینجر کا بہت ممنون تھا کہ اس نے میرا یہ بوجھ خود اٹھالیا۔ دوسری طرف کچھ سکیمیں جو کہ سمال ویلج اور میچنگ سکیمیں کہلاتی تھیں ان کی تکمیل میرے ذ مہ آگئی۔ ان سکیموں کے اخراجات میں کمیونٹی ایک تہائی یا نصف اپنی طرف سے شامل کرتی تھی اور بقیہ رقم گورنمنٹ ادا کرتی تھی۔ کمیونٹی مزدوری میٹریل یا زمین کی شکل میں بھی اپنا حصہ اداکر سکتی تھی۔ یہاں بھی یار لوگوں نے بہت سے ایسے راستے تلاش کر رکھے تھے جہاں کمیونٹی کو کچھ بھی نہیں دینا پڑتا تھا۔ اور گورنمنٹ کی رقم میں ہی سکیم مکمل کر دی جاتی تھی ۔ایک ایسی ہی سکیم کی وجہ سے میرا اپنے ایک ایم پی اے سے جھگڑا بھی ہوا۔ یہ سکیم اس کے گاؤ ں کی ایک گلی میں سولنگ کی تعمیر کی تھی۔ مگر موصوف نے یہ ساری سولنگ اپنے ڈیرے کے صحن میں لگوالی ۔۔ جس پر میں نے اس کی رقم کی ادائیگی سے انکار کر دیا اور سب انجینئر سے کہہ دیا کہ وہ متعلقہ جگہ سولنگ لگوائے۔ چنانچہ اس نے مزید ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لئے کسی نہ کسی طرح اصل جگہ پر منصوبہ مکمل کروادیا۔
ترقیاتی کاموں میں سیاسی مداخلت اس وقت پریشان کرتی ہے۔ جب منتخب نمائندے ان ترقیاتی کاموں میں کسی قانون اور قاعدے کی پرواہ نہ کریں۔ یا پھر وہ سرکاری رقوم کو ہضم کرنا چاہیں۔ ان کے اس عمل میں گورنمنٹ کے اہلکاران بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ اور وہ ایک طے شدہ کمیشن سے بھی آگے جاکر پیسے کمانے کے چکر میں سیاست دانوں سے گٹھ جوڑ کر لیتے ہیں۔ اس سارے سسٹم کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی ایک آدھ دیوانہ افسر یا تو تبادلوں میں الجھا دیا جاتا ہے یا پھر کسی نہ کسی انکوائری کی زد میں آجاتا ہے۔ اور میرے جیسا بزدل افسریا تو اپنے اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے۔ یا پھر کسی نہ کسی طرح اس طرح کے معاملات سے الگ تھلگ ہوجاتا ہے۔۔۔
انہی دنوں وزیر اعلی پنجاب غلام حیدر وائیں نے پنجاب کی ہر ہونین کونسل کو ایک لاکھ روپے ترقیاتی گرانٹ دینے کا اعلان کردیا۔ یہ اعلان تحریری طور پر تھا لیکن ہمیں زبانی طور پر یہ احکامات موصول ہوئے کہ یہ ترقیاتی گرانٹ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے چئیرمین صاحبان کو نہ دی جائے۔ان یونین کونسلز میں پراجیکٹ کمیٹی کے ذریعے رقم خرچ کی جائے گی۔ میرے مرکز میں دویونین کونسلز مخدوم عالی اور جلہ ارائیں کے چئیرمینز پیر سید کرم حسین اور میاں حقنواز کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔ پیر کرم حسین شاہ حال ہی میں جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین سے قومی اسمبلی کے انتخاب میں جیتنے والے پیر اقبال حسین شاہ کے والد تھے۔ اور علاقے میں اپنی شرافت اور سخاوت کے حوالے سے پہچانے جاتے تھے۔ انہوں نے بہاولپور ملتان روڈ پر برلب سڑک اپنا بہت سا رقبہ فلاحی کاموں کے لئے عطیہ کیا ہوا تھا۔ ان کا تعلق ملتان کی سیاست میں یوسف رضا گیلانی سے تھا۔ مسلم لیگ کی حکومت بننے کے باوجود انہوں نے اپنا گروپ نہیں چھوڑا تھا۔ شاید ان دنوں مفادات کی سیاست کا زیادہ رواج نہیں تھا اور اپنے دوستوں کے ساتھ اچھے برے وقت میں کھڑا رہنے کو اولیت دی جاتی تھی اور لوٹا بننے کو گالی تصور کیا جاتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ پیر صاحب اپوزیشن میں ڈٹے ہوئے تھے۔ اسی طرح جلہ ارائیں کے میاں صاحبان بھی ملک طیب کے روایتی حریف ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی میں موجود تھے۔ چئیرمین جلہ ارائیں حق نواز نے گرانٹ نہ دینے کی صورت میں مجھے ہایئکورٹ جانے کی دھمکی دے دی تھی۔ چنانچہ میں نے بڑے طریقے سے اس معاملے کو نبٹایا۔ اور تمام چئرمین صاحبان کی صوابدید پر ہی ترقیاتی کاموں کو مکمل کروایا جس پر ملک طیب اعوان ایم پی اے مجھ سے ناراض بھی ہوئے۔ میرا دل مخدوم عالی سے اکتا چکا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو سیاسی حالات اور دوسرے کبیروالہ سے براستہ ملتان روزانہ تقریباً دوسو کلومیٹر آنے جانے کے سفر کی تھکاوٹ میرے لئے عذ اب جان تھی۔
ضلع ملتان میں میرے گھر سے سب سے زیادہ قریبی مرکز قادر پورراں تھا۔ اس مرکز میں محکمے کے ایک بزرگ ترین افسر تعینات تھے جو کہ ساہیوال کے رہنے والے تھے۔ میں نے ان سے باہمی تبادلے کی درخوست کی ۔ وہ فوری طور پر رضامند ہوگئے۔ ان کے فوری رضامند ہونے کی وجہ مجھے اس وقت سمجھ میں آئی جب مرا تبادلہ ہوا اور میں نے مرکز قادر پورراں کا چارج سنبھالا۔ مرکز قادر پور راں مسلم لیگ کے ایم پی اے مخدوم شاہ محمود کا حلقہ تھا جو کہ ان دنوں غلام حیدر وائیں کی کابینہ میں صوبائی وزیر خزانہ تھے۔۔ وہ زبان کے بہت میٹھے لیکن مزاج کے بہت سخت تھے۔ انہوں نےمیرے پیش رو کو تبادلے کا پہلے ہی سے الٹی میٹم دے رکھا تھا ، چنانچہ میری باہمی تبادلے کی درخواست ان کے لئے تو رحمت بن کر آئی۔ شاہ محمود قریشی سے میری پہلی ملاقات سول سیکرٹیرٹ پنجاب ان کے دفتر میں ہوئی۔ نہایت روکھے انداز میں انہوں نے مجھے حلقے میں اپنے چند مصاحبین سے رابطہ رکھنے کے لئے کہا۔ ان سے پہلی ملاقات میں مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہاں میرا قیام زیادہ عرصے نہیں رہے گا ۔ قادر پور راں میں پانچ یونین کونسلیں تھیں۔ ہر کونسل میں شاہ محمود قریشی کا مخالف سیاسی گروپ بھی کافی مضبوط تھا۔ جس کا اندازہ مجھے آنے والے بلدیاتی الیکشن میں ہوا۔
فیس بک کمینٹ