ہماری نسل کی خوش قسمتی یا بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نے ایسی دو نسلوں کے درمیان آ نکھ کھولی اور پرورش پائی جن میں سے ایک متحدہ ہندوستان میں پروان چڑھی اور پاکستان بننے کے عمل سے گزری یعنی پاکستان کیا ہے؟ اس سوال کے جواب سے عملی اور تجرباتی سطح پر نبردآزما ہوئی۔ اس نسل میں سے اکثریت ،مہاجر یا مقامی ،دیہات اور زراعت سے وابستہ تھی اور ان میں زیادہ تر چھوٹے زمیندار یا بے زمین کاشتکار تھے یہ لوگ آج کے نظریہ پاکستان سے ناواقف تھے اور ان کے نزدیک ان کا دیہاتی پس منظر ہی ان کا وطن تھا پرانی فوک شاعری یا کہانیا ں اور کہاوتیں بھی پڑھیں تو آپ محسوس کریں گے کہ ان لوگوں کے لئیے دریا عبور کرنا یا ایک خاص ثقافت کو الانگھنا بے وطن ہو جانے کے مترادف تھا۔ وطن سے بچھڑنا یا دور ہو جانا تصور میں بھی نہیں لایا جا سکتا تھا لہذا ان میں سے بیشتر پاکستان بننے کے عمل کو عارضی گردانتے تھے میں نے ان کی گفتگو کو قریب سے سنا تھا اور جب وہ یہ بات کرتے کہ” اوہو دھوکہ ہوگیاِ“ تو میں نے اپنی بچگانہ بحث بھی کی کیونکہ مجھے میرے استاد ایک اور طرح کا سبق پڑھا رہے تھے۔اس نسل میں تعلیم یافتہ ملازمت پیشہ اور تجارت سے وابستہ لوگ بھی تھے اور وہ ہنر مند افراد بھی جو ان دیہاتیوں کے ساتھ ان کے دیہات سے آئے تھے یعنی ترکھان، لوہار، چمار، نائی وغیرہ ۔ پاکستان بننے کے عمل میں ان تعلیم یافتہ، ملازمت پیشہ اور تجار کا تجربہ مختلف تھا یہ لوگ نظریہ پاکستان کے خالق اور پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کا نعرہ بلند کرنے والے تھے۔استاد دامن نے ان لوگوں کو ” جاگنے والے لوگ“ کہا ہے ؏
آزادیاں ہتھوں برباد یارو
ہوئے تسی وی او ہوئے اسیں وی آں
جاگن والیاں رج کے لٹیاں اے
سوئے تسی وی او سوئے اسیں وی آں
ان جاگنے والے لوگوں میں مقامی اور مہاجر جاگیردار اور ابھرتی ہوئی سرمایہ داری( جو متحدہ ہندوستان میں تجربہ کار ہندو ساہوکاری اور سرمایہ داری کے ہوتے بے بس تھی ـ) بھی شامل تھی اور وہ نئی اور پرانی بیورو کریسی جو ہندو کے مقابل کم تعلیم یافتہ اور مقابلے کے امتحان میں کم نمبروں کی حامل تھی، یہ حکومتی لوگ تھے اور ان کے نعروں کو تقویت مذہبی انتہا پسندی اور تجار اور اب شہروں میں جا بسنے والے دیہاتی ہنر مندوں سے ملتی تھی۔ یہ جاگنے والے لوگ بہت پر جوش، حب الوطنی سے سرشار، سیاست، معیشت، ثقافت اور نئی تہذیب تعمیر کرنے کے خواب میں سرگرم عمل تھے یہ بات قا بل تحقیق ہے کہ اس قدر مخلص اور پر جوش لوگ ایک نو زائیدہ مملکت اور خواب کی تعبیر کو آغاز سے ہی لوٹنے میں کیوں کر لگ گئے؟
ان کے بر عکس پہلی قسم کےسوئے ہوئے لوگ تھے جو پاکستان بننے کے عمل سے غیر ارادی اور غیر عملی طور پر گزرے، خانہ بدوش، ہجرت زدہ ،تھکے ہوئے، موت سے ڈرے ہوئے، ننگے اور عریاں ، پا شکستہ اور ز خموں سے چور ، جنہوں نے بھوک اور پیاس دیکھی نہیں تھی مگر اس کے عملی تجربہ سے گزرے، پر امن مگر گردنوں کو مرتے مارتے ہوئے دیکھا، شرم والے لوگ مگر بہنوں ، بیٹیوں اور ما ؤں کی عصمتوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے برباد ہوتے دیکھا، دوستوں اور ساتھ کھیلنے والوں کو مذہب کی بنیاد پر دشمن بنتے دیکھا۔۔۔۔ان لوگوں کے نزدیک مملکت خداد ایک تاریخی جبر تھا ۔ ایک عارضی سنگ میل ، پڑاؤ تھا منزل نہیں تھا۔ ان لوگوں کو میں نے ہمیشہ بے عمل،کڑھتے اور آہیں بھرتے ہوئے ہی دیکھا ۔ بے خواب لوگ تھے نہ اچھے کی تمنا نہ برے سے نفرت۔ ایک اپنی ہی دنیا۔ بابا کی بیٹھک میں گاؤں بھر کے بوڑھے اکٹھے ہوتے حقہ پیتے اور خاموش بیٹھے رہتے یا پھر آہیں بھرتے کبھی کبھار کوئی بولتا تو وطن کی باتیں بچپن کی باتیں جوانی کی باتیں راستے اور ہجرت کی باتیں ۔ یہ پوری نسل اسی فنٹسی میں گزری۔
دوسری قسم کے پر جوش اور سر گرم عمل لوگ جو خواب اور خواب کی تعبیر سے سرشار تھے ، نئے ملک کو بنانے میں جت گئے۔ نئے سرے سے اور نئی بنیادوں پر۔ مصلح سید احمد بریلوی، خلافت پسندوں،سر سید احمد اور اقبال تک جتنے خواب دیکھے گئے اور جو خیال بنے گئے سب کی تعبیر کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہو گئے۔ سب سے پہلے تو نئی تاریخ رقم کی گئی ہندوستانیت سے ناطہ توڑ کر عرب، سمرقند، بخارا، تاشقند، ترکستان، ایران اور افغانستان سے رشتہ استوار کیا گیا، کل کے حملہ آور، دھاڑو اور قاتل آج کے نجات دہندہ بنے۔۔۔۔آیا نادر ڈھے گئی چادر گلیاں دے ککھ رون کڑے۔۔۔۔بھلا بیٹھے اور نادر شاہ ہیرو کے روپ میں وارد ہوا۔۔۔۔۔ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمودو ایاز کی شاعری نے غزنوی کے سارے گناہ معاف کر دیے۔۔۔۔۔الغرض تاریخ کی سچائی اور تاریخیت ماند پڑ گئی اور سورج مغرب سے طلوع ہوا مشرق سے نکلنے کی بات ” میں نہ مانوں“ پر ہا ر گئی۔۔۔
مذہب کو مولانا مودودی کے نظریات سے لیس کیا گیا اور کشمیر کی آگ کی بھٹی میں پختہ کیا گیا۔۔۔ہندو ازم واحد کفر اور دشمن اور اس کے ساتھ جنگ کو مقدس جہاد کا نام دیا گیا یہ حقیقت بھلا کر کہ اس مملکت خداداد کے باسیوں کی اکثریت ہندو خون کی پیداوار ہے۔۔۔ہندو کو گالی دینا سکھائی گئی۔۔۔۔۔شخصیت پرستی بت پرستی پر بھی سبقت لے گئی۔۔۔۔۔۔۔ بابر، اورنگ زیب، نادر شاہ ، غزنوی، غوری، سرسید، سید احمد بریلوی، چو دھری رحمت علی، ظفر، حفیظ جالندھری، اقبال، لیاقت علی ، محمد علی جناح اب انسان نہیں رہے تھے دیوتا تھے اور دیوتا بھی ایسے مقدس جن سے کوئی انسانی غلطی سرزد نہ ہوئی تھی غلطی کہنا احسان فراموشی اور کفر کے زمرے میں اور قابل گردن زدنی جرم۔۔۔۔۔مذہب کو بطور سٹریٹجی استعمال کرنا، تا ریخ کو مسخ کرنا اورشخصیت پرستی کی تعلیم سے جو ذہنیت پروان چڑھی وہ ہمارے آج کے پا کستان کی پاکستانیت یا ذہنیت ہے۔۔۔۔۔ اور اس ذ ہنیت کو ہماری نسل جو گناہ کو گناہ سمجھ کر کرتی تھی کیونکہ اس نے پاکستانی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان سوئے ہوئے لوگوں کی صحبت میں بھی سیکھ پائی تھی، کے ذریعہ اس نسل تک پہنچایا جنہوں نے پاکستان کے بننے کے عمل کو صرف کتابوں میں پڑھا اور تاریخ، مذہب، سیاسیا ت اور تہذیب و سائینس کو ایسے ہی پڑھا جیسے پڑھایا گیا۔نتیجتا موجودہ پاکستانی ذہنیت نے جنم لیا۔
ٖآج کا حب الو طن پاکستانی ایک خاص قسم کی ذہنیت اور تہذیب ہے۔۔۔۔۔۔۔داڑھی، پنج وقتہ نماز، سرسید ، اقبال اور قائید نجات دہندہ اور محسن، ان کے بارے میں کسی انسانی رویے پر تنقید یا بحث کفر اور احسان فراموشی،قومیں جنم نہیں لیتی بنائی جاتی ہیں اور ہماری قوم کو کچھ فاتحین ، ایک شاعر اور ایک سیاستدان نے بنایا ہے ۔۔تاریخ ہوتی نہیں لکھی جاتی ہے اور ہم نے یہ تاریخ بزور بازووتلوار بنائی ہے۔۔۔ مذہب ریاست سے الگ ہو تو رہ جاتی ہے چنگیزی اگر چہ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ جب جب مذہب ریاستی معاملات کا حصہ بنا چنگیزی خوب پھلی پھولی۔۔۔آج کے انتہا پسند چاہے پاکستان میں ہوں یا اسرائیل میں چنگیزیت یا خوں ریزی کی عمدہ مثال ہیں۔۔۔۔۔جہاد فرض ہے اور تمام دنیا میں اسلام کی سربلندی کے لئیے لازمی مگر فی الوقت کفر کا غلبہ ہے لہذا مصلحتا ہم دہشت گردی کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔۔۔
بات ہو رہی ہے پاکستانی ذہنیت کی۔۔۔۔تو اس ذہنیت کے نزدیک شراب گناہ بھی ہے اور پینی بھی ہے۔۔ایک تخمینے کے مطابق بلیک لیبل وہسکی سعودیہ کے بعد سب سے زیادہ پاکستان میں پی جاتی ہے۔۔۔اس ذہنیت کے نزدیک پیسہ کمانا اہم ہے ذریعہ معنی نہیں رکھتا۔۔۔اپنا ذریعہ چھپاؤ دوسروں کا معلوم کرو اور ان کو راشی کرپٹ مشہور کرو اور محتسب کی عدالت میں گھسیٹو اور اس آڑ کے پیچھے چھپے رہو۔۔۔۔سالانہ عمرہ کرو اور پھر حج۔۔۔اس دوران بھی کچھ ہاتھ لگے تو مت چوکو۔۔۔نماز پڑھو اس سے پہلے کہ تمھاری نماز پڑھی جائے۔۔۔جس نے کلمہ پڑھ لیا بخشا گیا چاہے سو قتل کئیے ہوں اور جس نے نہ پڑھا سیدھا جہنم میں چاہے لوگوں کے لیئے سو ہسپتال کھولے ہوں۔۔۔۔اسلام واحد ذریعہ نجات۔۔۔۔۔تمام ایجادات قرآن میں سے اشارے لے کر کی گئیں ۔ دنیا کا کوئی احسان نہیں سب اسلام کا مرہون منت ہے اور قرآن کی حکمت سے ہے۔۔۔۔دنیا آدم سے آغاز ۔۔۔۔ڈارون کا نظریہ ڈارون کو گالیاں دینے کے لیئے پڑھایا جاتا ہے اسی لیے بایو کی کتاب میں قرآن کی آیات کا حوالہ دے کر اس نظریے کی تکذیب واضح کر دی جاتی ہے۔۔۔۔آگے چل کر دور خلافت دنیا کا واحد طرز حکومت مبنی بر انصاف ، پر امن اور خوشحال ترین ۔۔۔اس طرز حکومت کو واپس لانا ہر مسلمان پر فرض۔۔۔پھلتی اور فتوحات کرتی ہو ئی مسلم ریاستوں کا ہر خون معاف اور فاتحین کے ہر ظلم کا خاتمہ امن، انصاف اور انسانی برابری پر۔۔۔۔غلطیاں اور ناکامیاں یہود و ہنود کی سازش کے سر۔۔۔۔۔شخصیات پر بحث یا ان کے عمل پر تنقید کفر ، وطن دشمنی اور ہندو سے دوستی اور پاکستان سے غداری ۔۔۔قا ئد ، نظریہ پاکستان، فوج اور اب عدلیہ اور ریاست ۔۔۔۔ایک ہی بات ہے۔۔۔۔
ان سب باتوں کو یکجا کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ جس پاکستانی ذہنیت نے پرورش پا ئی بہت ادنی، چھوٹی اور محدود و معصوم سی ہے ۔۔۔۔۔یہ طے شدہ اور مقرر کردہ حدود میں پنپی ہے ، یہ اس شعوری کو شش اور عمل کا حاصل ہے جس نے باقاعدہ طے کیا ہے کہ ایک پاکستانی کو کس بات پر بحث کرنی ہے اور کس سے اجتناب۔۔۔۔
جن باتوں پر بحث کرنے کی اجازت ہے وہ کرکے آپ سچے مسلمان ، پاکستانی اور محب وطن ہیں پھر چاہے آپ کسی بات پر دھرنا دیں ، ٹریفک بلاک کریں ، راستوں پر قبضہ کرکے مسجد بنادیں، شہروں کے نام بدل کر مشرف با اسلام کر دیں، اسلام کے نام پر مخالفین کو گالیاں دیں ،( زبان پر بیک وقت آیت بھی اور گالی بھی )، کفر کا فتوی لگاکر اپنے گورنر کو قتل کردیں اور غازی اور شہید کہلوائیں، صدیوں کے مکینوں کو کافر کہہ کر وطن اور در بدر کر دیں، اسمبلی اور پارلیمنٹ کی جڑیں ہلادیں ، قید کرلیں ، اغوا کرلیں ، غبن کرلیں ، دائیں چلیں یا بائیں سب جا ئز اور قابل معافی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اگر آپ نے ممنوعہ امور پر منہ شگافی کی ۔۔۔۔۔تو آپ ٹھہریں گے۔۔۔شیطان کی اولاد، کا فر، غدار، وطن دشمن اور بھارت اور ہندو نواز
۔۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا اس ذہنیت سے باہر ۔۔۔نہ سوچنے سے ۔۔۔اور ممنوعہ باتوں پر بات نہ کرنے سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو دماغ پر وان چڑھا ہے ۔۔۔۔ایسا دماغ ہے جو پاکستان کو ایک آزاد اور خوشحال مستقبل کی ضمانت دے سکتا ہے؟؟؟؟؟
فیس بک کمینٹ