پاکستان میں یوکرائن پر روسی حملہ کو دو حوالوں سے دیکھا جارہا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم کی اس موقع پر ماسکو میں موجودگی اور اور عسکری لحاظ سے بے وقعت ہمسایہ ملک پر باقاعدہ حملہ کے چند گھنٹے بعد ہی صدر ولادیمیر پوتن نے عمران خان سے ملاقات کی۔ یوں اس جنگ کو سمجھنے کے لئے یہ اہم ترین حوالہ بن گیا۔ اس کے علاوہ اس حملہ کو امریکی جارحانہ عالمی پالیسیوں کے تناظر میں دیکھا یا سمجھا جارہا ہے۔
یورپ میں شروع کی گئی اس جنگ کے باعث بڑی طاقتوں کے درمیان ایک ایسا خاموش معاہدہ ختم کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر تیسری عالمی جنگ کے اندیشوں کو کم کیا جاسکتا تھا۔ روسی صدر پوتن نے ہمسایہ ملک پر حملہ کے لئے دو عذر پیش کئے ہیں۔ ایک یہ کہ’ یوکرائن ہماری تاریخ و ثقافت ، فکری و روحانی تسلسل کا ناقابل تنسیخ حصہ ہے‘۔ دوئم یہ کہ یوکرائن امریکہ و یورپی ممالک کے عسکری الائینس ’نیٹو‘ کا حصہ بننا چاہتا ہے جو روس کی سلامتی کے لئے براہ راست خطرہ ثابت ہوسکتا تھا۔ اس خطرہ کے تدارک کے لئے روس نے یہ کارروائی کرنا ضروری سمجھا۔ صدر پوتن نے واضح کردیا ہے کہ وہ یوکرائن کی عسکری صلاحیت ختم کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ جمعہ کے روز روسی فوجیں یوکرائن کے دارالحکومت کیف کی طرف پیش قدمی کررہی تھیں۔ خیال کیا جارہا ہے کہ روس یوکرائن میں ماسکو نواز حکومت قائم کرکے ہمیشہ کے لئے اپنی سرحدوں کو محفوظ کرنا چاہتا ہے۔ تاہم یہ صدر پوتن اور اس جنگ کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی خام خیالی بھی ثابت ہوسکتی ہے ۔
یوکرائن میں 20 فیصد کے لگ بھگ روسی نژاد لوگ رہتے ہیں ۔ روس کو امید ہے کہ وہ اس آبادی کی حمایت سے یوکرائن پر اپنی مرضی کی حکومت مسلط کرسکتا ہے۔ یوکرائن ایک طویل عرصہ روس کا حصہ رہا ہے۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں روسی زار کی توسیع پسند حکومت نے یوکرائن کو روس میں شامل کرلیا تھا ۔ تاہم 1922 میں سویت یونین کے قیام کے وقت یوکرائن ان بانی ریاستوں میں شامل تھا جنہوں نے اس اتحاد کی بنیاد رکھی تھی۔ البتہ 1989 میں سویت یونین ٹوٹنے کے بعد 1991 میں یوکرائن نے علیحدہ مملکت کے طور اپنی شناخت قائم رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ اس مقصد کے لئے ہونے والے ریفرنڈم میں 91 فیصد آبادی نے روس سے علیحدہ خود مختار یوکرائن بنانے کے حق میں رائے دی تھی۔ یوکرائن کی 20 فیصد روسی نژاد آبادی کا بیشتر حصہ مشرق اور جنوب میں روس کے سرحدی علاقے میں رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی چالیس پینتالیس فیصد آبادی روسی زبان بولتی ہے۔ اس طرح روسی زبان استعمال کرنے والوں کی تعداد بھی یوکرائینی زبان بولنے والوں کے برابر ہے۔ اس سے اس ملک میں روس کے اثر و رسوخ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اس کے باوجود یوکرائن میں قومی شناخت کا جذبہ موجود ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ سویت یونین ٹوٹنے کے بعد بڑی اکثریت نے علیحدہ ملک قائم کرنے کی حمایت کی تھی۔ ان لوگوں میں روسی نژاد یا روسی زبان بولنے والے بھی شامل تھے۔ اس لئے صدر پوتن کے لئے محض یوکرائن کی روسی آبادی کی بنیاد پر یہ قیاس کرلینا بے نتیجہ بھی ہوسکتا ہے کہ یوکرائینی آبادی کی بڑی اکثریت روس کے ساتھ لسانی و ثقافتی تعلق کی بنا پر روسی جارحیت کا ساتھ دے گی۔ یوکرائن میں مزاحمتی تحریک مضبوط ہے اور بیرونی حملے کی موجودہ صورت حال میں مسلح قومی مزاحمت طویل اور شدید ہوسکتی ہے۔ ایسی کوئی مزاحمت روس کے لئے اس جنگ کے مصارف کو ناقابل برداشت بنا سکتی ہے۔ اس لئے قیاس یہی ہے کہ روس جلد از جلد دارالحکومت پر قبضے اور پسندیدہ حکومت قائم کرنے کے بعد یوکرائن سے فوجیں واپس بلالے گا۔
صدر پوتن نے قوم سے خطاب میں کہا بھی ہے کہ وہ یوکرائن پر قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے لیکن اس کی ملٹری صلاحیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہاں سے روس کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ صدر پوتن کی کوشش ہوگی کہ یوکرائن کی عسکری صلاحیت کو ختم کرکے جلد از جلد فوج واپس بلالی جائے۔ اس فوجی آپریشن کا اصل مقصد یوکرائن کی نیٹو میں شمولیت کی خواہش کو کچلنا بھی ہوسکتا ہے جسے صدر پوتن نے پہلے دن سے روس کے لئے ناقابل قبول قرار دیا تھا۔ البتہ اس سوال کا جواب تلاش کرنا آسان نہیں ہوگا کہ روس کتنی جلدی یہ مشن مکمل کرسکتا ہے اور کیف پر قبضہ کے بعد وہاں روس کی قائم کردہ حکومت کس حد تک ملک کو متحد رکھنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ روس اس ملک کو کئی حصوں میں بانٹ کر امریکہ اور نیٹو ممالک سے اپنی حفاظت کا اہتمام کرنا چاہتا ہے۔ روس کی حمایت سے کیف میں قائم کی گئی کسی بھی حکومت کو ملک کی آبادی میں قبولیت حاصل نہیں ہوگی اور نہ ہی مغربی ممالک اس کی معاشی و اقتصادی مدد کریں گے۔ اس لئے روس کو ہی نئی حکومت کی مالی اور فوجی امداد کرنا ہوگی۔ روس اپنی معاشی مشکلات اور مغربی ممالک کی پابندیوں کے بعد اس قسم کا مشن پورا کرنے میں مشکلات کاشکار ہوگا۔ اس جنگ جوئی کے مصارف اور مغربی پابندیوں کے سبب معاشی مصائب کی وجہ سے روسی شہریوں کی صعوبتوں میں اضافہ ہوگا ۔ اگرچہ صدر پوتن نے روس میں آمرانہ نظام قائم کر رکھاہے لیکن معاشی بوجھ سے تنگ آئے ہوئے لوگ بغاوت پر بھی آمادہ ہوسکتے ہیں۔
روس میں مطلق العنانیت کی وجہ سے یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ روسی آبادی کس حد تک ایک ہمسایہ ملک کے خلاف جنگ جوئی اور مغربی ممالک کے ساتھ تنازعہ بڑھانے کی حمایت کرتی ہے ۔ پوتن نے سیاسی اپوزیشن کو بے دردی سے کچلا ہے اور مخالفانہ آوازوں کو پنپنے کا موقع نہیں دیا جاتا ۔ اس کے باوجود ماسکو سے یوکرائن پر حملہ کے خلاف مظاہروں کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔ یورپی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ روس میں اس جنگ کے خلاف ناپسندیدگی پہلے سے ہی موجود ہے۔ معاشی دباؤ بڑھنے، مہنگائی اور اشیائے صرف کی نایابی کی صورت میں یہ ناراضی بڑھے گی اور صدر پوتن کی سیاست کے خلاف پہلے سے متحرک عناصر اس صورت حال کا فائدہ اٹھائیں گے۔
اگرچہ یوکرائن پر روسی حملہ کی فوری وجہ نیٹو میں یوکرائن کی شمولیت کے سوال پر اٹھنے والا تنازعہ بنا ہے۔ امریکہ اور یوکرائینی حکومت کے یورپی حامی ممالک بظاہر روس کے تحفظات کو دور کرنے اور نیٹو کو روسی سرحدوں کی جانب توسیع دینے کے منصوبہ کو ترک کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جس کی وجہ سے صدر پوتن کو یہ انتہائی اقدام کرنا پڑا۔ واشنگٹن اور برسلز میں اس حوالے سے اندازے کی غلطی ہوئی ہے۔ گو کہ چند ہفتوں سے یہ خبریں دی جارہی تھیں کہ روس یوکرائن پر حملہ کرنے والا ہے لیکن شاید واشنگٹن اور برسلز کو بھی یہ یقین نہیں تھا کہ صدر پوتن مغربی بلاک کی اس قدر شدید مخالفت کے بعد یوکرائن پر حملہ کرنے کا حوصلہ نہیں کریں گے۔ بعض مبصر یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور مغربی ممالک کے اسلحہ سازوں کی لابی کے زیر اثر امریکی حکومت خود یہ چاہتی تھی کہ روس یوکرائن پر حملہ کرے تاکہ ان کی چاند ی ہوجائے ۔ اس طرح امریکہ اور مغربی یورپ کو روس کو تنہا و کمزور کرنے اور دنیا میں اپنا تسلط قائم کرنے کا موقع بھی مل جائے ۔ اس نظریے کے مطابق پوتن امریکہ کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس گئے ہیں۔
یوکرائن پر روسی حملہ کی وجوہات سے قطع نظر یہ حملہ ایک کمزور ہمسایہ ملک کے خلاف ایک بڑے او ر عسکری لحاظ سے مضبوط ملک کی کھلی جارحیت ہے جس کا کوئی جواز تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو ممکن ہے کہ امریکہ و مغربی ممالک اس حملہ کی مخالفت جمہوری اور عالمی اصولوں کی بجائے اپنے اپنے اقتصادی و اسٹریٹیجک مفاد کی بنا پر کررہے ہوں۔ تاہم یہ سارے طریقے مروجہ عالمی سیاست کا حصہ ہیں لیکن کسی ملک کی خودمختاری اور سالمیت کے خلاف اقدام کو کسی بھی عذر کی بنا پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ روسی جارحیت اور عالمی قانون کی خلاف ورزی کو یہ کہتے ہوئے بھی تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے کہ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک اس سے زیادہ ظلم کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ اگر عدم مداخلت اور ممالک کی خودمختاری کے اصول کو مانا جائے تو جنگ جوئی کا آغاز کرنے والے ہر ملک کے طریقہ کو مسترد کرنا پڑے گا۔ روس نے یوکرائن پر حملہ کرکے دنیا میں بے یقینی اور تصادم و تنازعہ کی ایک نئی صورت حال پیدا کی ہے جس پر قابو پانے کے لئے دہائیاں بیت جائیں گی۔
سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد یوکرائن کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا وسیع ذخیرہ موجود تھا تاہم اس نے رضاکارانہ طور پر ان ہتھیاروں کو تلف کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ 1994 میں بوڈا پسٹ میمورنڈم کے مطابق روس ، امریکہ اور برطانیہ نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ یوکرائن کی قومی سرحدوں اور خود مختاری کا احترام کریں گے۔ روس نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یوکرائن پر حملہ کیا ہے اور باقی دونوں ضامن ممالک امریکہ اور برطانیہ بھی یوکرائن کی مدد میں ناکام ہوکر اس معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اگر اس وقت یوکرائن کے پاس جوہری ہتھیار ہوتے تو روس کو اپنی فوجی طاقت کے باوجود ہمسایہ ملک کو کمزور سمجھتے ہوئے اسے روندنے کا حوصلہ نہ ہوتا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو روسی اقدام سے دنیا بھر میں اسلحہ کی دوڑ میں اضافہ ہوگا اور کمزور ممالک میں احساس عدم تحفظ بڑھے گا۔
اس جنگ کے عسکری اور اسٹریٹیجک مضمرات کے علاوہ یہ جنگ دنیا بھر کی معاشی مشکلات میں اضافہ کا سبب بنے گی۔ صدر پوتن اگر روس کو اس جنگ کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنے میں ناکام رہے تو روس میں پیدا ہونے والا انتشار اور یورپ میں شروع کی گئی جنگ مسلسل بے یقینی اور تصادم کی فضا میں اضافہ کرے گی جو انسانی بہبود کے تمام منصوبوں اور ماحولیاتی تباہی کی روک تھام کے مقصد کو نقصان پہنچائے گی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ