دوسری منزل پر سیڑھیوں کے ساتھ باورچی خانہ تھا۔میں امی کے ساتھ بیٹھی روٹی بیل رہی تھی۔خالہ اور میری کزنیں رضائی میں بیٹھے تھے‘ساتھ والے کمرے میں خالو خبرنامہ سن رہے تھے۔اچانک سے آپی کے چیخنے کی آواز آئی:
”بچاﺅ ‘بچاﺅ۔۔۔۔بچاﺅ مجھے آگ۔۔۔۔آگ۔۔۔۔آگ“ہم سب کا دل دھک سے رہ گیا۔میری نو سالہ آپی کو نچلی منزل میں پڑے چولہے سے آگ لگ گئی تھی۔ایسے لگتا تھا آسمان پھٹ گیا ہو یا زمین ٹوٹ گئی ہو۔میں باورچی خانے سے باہر نکلی تو کیا دیکھا کہ آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ان کا عکس سیڑھیوں کے چھت تک پہنچ رہا تھا۔آپی کی چیخیں بڑھتی جا رہی تھیں۔پورا گھر ایک دم اٹھ کر سیڑھیوں کی جانب دوڑنے لگا۔کوئی پانی لینے دوڑا‘کوئی کمبل اور کوئی چادر۔اماں کے ہوش اُڑ چکے تھے۔وہ سیڑھیوں کی جانب دیوانہ وار دوڑیں۔
”میری بچی۔۔۔۔۔“
”خالہ نے ان کو پیچھے سے پکڑا آپا رک جاﺅ۔خود بھی مرو گی۔۔۔“
میں نے دیکھاماں کو غش آ نے لگے۔خالہ ان کو سنبھالنے لگیں۔ادھر سارا گھر آپی کو اوپر بلانے لگا۔”اوپر آﺅ۔۔۔اوپر آﺅ۔۔۔نیچے پانی نہیں آ رہا۔۔۔اوپر آﺅ صحن میں“سب چیخ رہے تھے۔نو سالہ بچی کبھی ادھر جاتی‘کبھی اُدھر۔باہر جانے کی اجازت نہ تھی‘نیچے پانی نہیں تھا۔آپی کو اوپر بلایا تو اس کی ٹانگوں سے آگ بڑھ کر رانوں تک پہنچ چکی رہی تھی۔
’باہر جاﺅ باہر۔۔۔ادھر پردہ جل جائے گا‘کزن نے ہدایت دی۔باہر نکلو‘باہر۔۔۔سب چلا رہے تھے۔پڑوسی بھی شور سے باہر نکل آئے تھے۔وہ چھتوں پر چڑھ کر بچی پر پانی پھینکنے لگے۔آن کی آن میں پورا محلہ گھر کے باہر جمع ہو گیا تھا۔ہر بندہ اپنی اپنی سمجھ سے مشورے دے رہا تھا۔بچی آگے آگے اور سارا گھر پیچھے پیچھے تھا۔
خالو کمرے سے چلائے کہ یہ کیا کر رہے ہو۔بچی کو دوڑنے مت دو۔ انہوں نے آپی کو زمین پر لیٹنے کی ہدایت کی”لیٹ جاﺅ سارہ۔۔۔لیٹ جاﺅ۔بھاگو گی تو آگ اور بڑھے گی۔فراز جاﺅ کمبل لاﺅ جلدی۔۔۔‘انہوں نے اپنے بیٹے کو ہدایت کی۔کمبل دیا تو آگ دھیمی ہونے لگی۔پھر بچی کو پوری طرح کمبل میں لپیٹنے سے آگ بجھ گئی مگر اس کی ٹانگیں اور ران بری طرح جھلس گئی تھیں۔لمبا فراک اور نائلون کا لیگن سارہ کی ٹانگوں سے چپکا ہوا تھا۔وہ درد سے چیخیں مار رہی تھی۔کسی نے باہر ٹیکسی بلا لی‘کوئی ایمبولنس کو بلانے دوڑ پڑا۔مگر اب مسئلہ ہماری عزت کا تھا۔
’اس کوہسپتال لے کر جانا پڑے گا ۔۔۔۔‘کسی نے کہا۔
’نہ۔۔۔نہ۔۔۔۔نہ۔۔۔۔۔یہ نہیں ہو سکتا۔یہ لڑکی ہے۔اب ہماری لڑکی کی ٹانگیں دیکھے گا مرد۔۔۔نہ۔۔۔۔نہ۔۔۔۔۔توبہ کرو‘خالو نے نفی کی۔
’پلیز پلیز پلیز۔۔۔یہ ظلم نہ کرو۔ اسے ہسپتال لے جاﺅ۔سارا جسم جھلسا ہو ا ہے۔بچی بری طرح چیخیں مار رہی ہے۔‘ایک محلے کی عورت بولی۔
’تو کون ہوتی ہے ہمارے گھرکے معاملے میں بولے والی۔ہم اپنی عزت اس طرح نیلام ہوتے نہیں دے سکتے۔مرد ڈاکٹروں کا شوق ہو گا اس کی ماں کو‘ہم یہ بے غیرتی نہیں ہونے دیں گے۔‘خالو بضد تھے۔
’باﺅ جی‘لے کے جاﺅ۔۔۔۔بچی ہے اے۔۔۔ہسپتال جائے بغیر لڑکی کی جان جا سکتی۔‘دو اورپڑوسیوں نے سمجھانے کی کوشش کی۔
’نہیں یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ہم خود علاج کریں گے اس کا۔۔گھر کی عزت نیلام نہیں کروانی ہم نے۔‘خالو اڑے تھے۔
’آپ لوگ جو بھی فیصلہ کرنا ہے جلد کرو‘لڑکی درد سے مرے جا رہی ہے۔بتاﺅ کیا کریں۔‘ٹیکسی والے کو مجبوراً بولنا پڑا۔خالہ کے بچوں اور پڑوسیو ں نے مل ملا کر سارہ کو ٹیکسی میں ڈال دیا تھا۔اس
کے ساتھ کزن بیٹھی تھیں۔مگر خالو نے گالیاں دینی شروع کر دیں۔
’یہ کیا بے غیرتی ہے۔چلو نکالو باہر اسے۔ہم خود علاج کریں گے۔بچیاں ڈاکٹروں پاس نہیں جاتیں۔‘
غرض نو سالہ سارہ کو ٹیکسی سے نکالا گیا اور تین مہینے کے مسلسل اور لگاتار مفروضوں پر مشتمل علاج نے کرشمے دکھانا شروع کر دیئے۔صرف ٹانگوں سے18فیصد جلی سارہ جب مرنے لگی تو وہ نہ صرف جلی ہوئی تھی بلکہ اس کے زخموں سے پانی بھی آنے لگا تھا‘اسے بیڈسول ہو گئے تھے‘زخموں سے پانی رِسنے لگا تھا‘ٹی بی ہو چکی تھی اور مرنے سے دو دن پہلے وہ اپنے بولنے‘سننے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی تھی۔اس کی سمجھ بوجھ گم ہو گئی تھی۔اس نے آخری مرتبہ ماں کو لکھا ’ماں!مجھے کھڑکی پرمور ناچتے نظر آرہے ہیں۔‘
فیس بک کمینٹ