سینیٹ میں چیئرمینی کے نتیجے کا اعلان ہوتے ہی مسلم لیگ ن کے کیمپ میں آہ و زاری شروع ہو گئی۔اگر سینیٹ میں مسلم لیگ ن جیت جاتی تو یہی الیکشن جمہوریت اور جمہوری قوتوں کی فتح قرار پاتا۔ن لیگ کی شکست کے بعد یہ بالا دست طبقوں کی فتح قرار پایا ہے۔ راجستھان کے علاقے میں صدیوں سے ایک رواج چلا آتا تھا کہ راجوں مہاراجوں کے خاندان میں کوئی فوت ہو جاتا تو کالے لباس میں ملبوس عورتوں کا ایک گروہ ، کھلے بالوں کے ساتھ اپنا سر اور چھاتی پیٹ پیٹ کر بین کیا کرتا تھا۔ موجودہ دور میں ہماری سیاسی جماعتوں نے اس روایت کا یہ تسلسل نہ صرف قائم رکھا ہوا ہے بلکہ جمہوریت کے بچے جمہورے اس روایت کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ سیاسی ہار جیت کو تسلیم کرنے کی بجائے ،اپنی ہار کو جمہوریت کی شکست قرار دے کر سیا پا ڈالنے لگتے ہیں۔ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن میدان مار لے تو دھاندلی اور حکومتی وسائل کے ناجائز استعمال کی دہائی دے دے کر پی ٹی آئی اور پی پی پی یہ سیاپا ڈالتے ہیں اور اب سینیٹ میں اپنی ہار ماننے کی بجائے مسلم لیگ ن نے یہ آہ وزاری شروع کر دی ہے۔ مسلم لیگ ن اپنی اس ناکامی کا ذمہ دارکھلے الفاظ میں بالا دست طبقوں کو قرار دیتے ہوئے اسے جمہوریت کے خاتمے کی سازش کہہ رہی ہے اورالیکٹرانک میڈیا پر قابض کئی دانشور مسلم لیگ ن کے اس موقف کو نا صرف آگے بڑھا رہے ہیں بلکہ اس سے ایک قدم اور آگے جا کر نئے منتخب چئرمین سینیٹ کی اہلیت پر سوال اٹھا کر یہ تاثر دے رہے ہیں گویا پاکستان میں عقل و دانش اور اہلیت کا منبع صرف پنجاب اور وہ بھی صرف اپر پنجاب ہی ہے۔ نئے چئرمین سینیٹ کے کام شروع کرنے سے پہلے ہی ان کی اہلیت پر سوال اٹھاکرایک طرح سے تعصب کا تاثر دیتے ہوئے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ بلوچستان سے سینیٹ چئرمین کا چناﺅ کیا بلوچستان کی محرومی اور مسائل کے حل میں معاون و مدد گار ثابت ہو گا؟ماضی کا جواب تو نفی میں ملتا ہے۔ مستقبل کی اللہ جانے۔ سینیٹ کا موجودہ الیکشن تمام بڑی جماعتوں کی نظر میں ہارس ٹریڈنگ کا نتیجہ تھا۔ اگر ایسا ہی تھا تو ان جماعتوں نے اسے قبول کیوں کیا؟اور ہارس ٹریڈنگ کے نتیجے میں بننے والے سینیٹ کے ایوان کے لیئے چئرمین اور ڈپٹی چئرمین کے انتخاب میں حصہ کیوں لیا؟مسلم لیگ ن تلملاتے ہوئے جن بالا دست قوتوں کی طرف اشارہ کر رہی تو با کل ٹھیک کر رہی ہے کہ مسلم لیگ ن سے زیادہ ان اشاروں کو کوئی اور نہیں سمجھتا۔ بڑی مضحکہ خیز اور دلچسپ صورت حال اس وقت جنم لیتی ہے جب ہارس ٹریڈنگ کے موجدہارس ٹریڈنگ کی دہائی دیتے ہیں اور جب مسلم لیگ ن کا آہ و زاری گروپ ذوالفقار علی بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی جمہوریت کے لیئے خدمات اور قربانیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان شہیدوں کے لیئے تحسینی کلمات اور آفرینی خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔ انسان کا ماضی اس کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑتا۔تین بار وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف اگر اپنے کسی بھی دور میں حقیقی جمہوریت کے لیئے کچھ اقدام کر جاتے تو شاید ان پر بالا دست طبقوں کی اشیر باد سے بار بار برسر اقتدار آنے کا لگا داغ مکمل طور پر صاف نہیں تو مدہم ضرور ہو جاتا۔ آج ان کی رائے میں بالادست طبقوں نے ایوان بالا پر اگر بالا دستی حاصل کر لی ہے تو ماضی کی طرح اس بار بھی یہ بچے جموروں کے تعاون ہی سے ممکن ہوا ہے جواپنی ذات اور مفاد
سے آگے نہیں سوچتے۔عمران خان نے اگر پارلیمینٹ پر لعنت بھیجی تھی تو کل سینیٹ کے فلور پرمیر حاصل بزنجو نے اپنی لا حاصل تقریر میں میاں نواز شریف سے وفاداری کا حق ادا کرتے ہوئے یہ کہہ کر دل کی بھڑاس نکالی ہے کہ اس انتخاب سے سینیٹ کے ایوان کا منہ کالا ہو گیا ہے۔ میر حاصل بزنجو اور ان جیسے بہت سے بزرگ سیاست دانوں نے اس دشت کی سیاحی کرتے ہوئے اک عمر گزاری ہے۔ان کی اکثریت نے سوائے اپنے اپنے مفادات کی ڈگڈگی بجانے کے قوم اور ملک کے دامن میں کون سی سوغات ڈالی ہے۔؟ مان لیا کہ سارا قصور بالا دست قوتوں کا ہی ہے مگر ان بالادست قوتوں کا آلہ کار کون بنتا ہے؟ ماضی کو کھنگال لیں یا آج کی صورت حال دیکھ لیں۔ جمہوریت اور ملکی استحکام کے نام پر بچے جمہورے ہی بالا دست قوتوں کو بالا دستی قائم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کے لیئے بالا دست طبقوں کی طرف دیکھنے کا چلن کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔
فیس بک کمینٹ