ملتان کے وکلاءایک عرصہ سے خبروں کی زد میں ہیں اور خبریں ایسی ہیں جن سے وکلاءبرادری کا احترام داﺅ پر لگا ہوا ہے۔ اس بحث میں الجھے بغیر کہ قصور وار کون ہے یہ بات حقیقت ہے کہ بنیادی سہولتیں فراہم کیے بغیر ہی پرانی کچہری کونئے جوڈیشل کمپلیس میں راتوں رات منتقل کر کے انتظامی دھاک بٹھانے کی کوشش کی گئی ۔ جج صاحبان نے انتظامیہ کے احکامات پرفوری عمل درآمد کرتے ہوئے اپنے فرائض نئی کچہری میں جوں ہی ادا کرنا شروع کیے تو وکلاءاور سائلین کی اکثریت نے بھی ادھر کا رخ کر لیامگر وہاں جج صاحبان کے لئے بنائے گئے عدالتی کمرے تونظر آئے اور باقی کھلا میدان۔ پہلا مسئلہ اور سوال تو یہ ہے کہ آخر وکلاءکہاں بیٹھیں اور سائل کہاں جایئں؟ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کچہری منتقلی سے پہلے نہ صرف وکلاءکے چیمبرز بنائے جاتے بلکہ عوام کے لئے بھی مناسب انتظار گاہیں تعمیر کی جاتیں۔جج صاحبان تو اپنے عدالتی کمروں میں اپنے عملے سمیت بیٹھ کرعدالتی امور نمٹا سکتے ہیں۔ وکلاءکہاں بیٹھیں؟ سائلین کدھر کا رخ کریں؟کچہری منتقلی کے فوری بعد وکلاءنے احتجاج کیا اور اپنے جائز مسائل انتظامیہ تک پہنچائے۔عوامی سطح پر بھی آوازیں اٹھیں۔ پر درد کا مداوا نہ ہوا تو آج ایک بار پھر وکلاءنے احتجاج کرتے ہوئے نئے جوڈیشل کمپلیس کا رخ کیا۔ صبح دس گیارہ بجے کے قریب پرانی کچہری کے احاطے میں موجود وکلاءجن میں نوجوان وکلاءکی خاصی تعداد تھی نئے جوڈیشل کمپلیکس کے لیئے روانہ ہوئے۔جسے ایک معمول کا احتجاج سمجھا گیا۔ مگر نئے جوڈیشل کمپلیکس میں ہونے والے ہنگامے اور توڑ پھوڑ کی الیکٹرانک میڈیا پر دکھائی جانے والی خبریں بڑی ہی تکلیف دہ ہیں۔وکلاءکودرپیش مسائل سو فی صد درست ہیں مگر نئے کمپلیکس میں ہونے والے ہنگامے اور توڑ پھوڑ کے جو مناظر دیکھنے میں آئے ان کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ اس سے قبل بھی ملتان کے وکلاءکی طرف سے اسی قسم کا رویہ لاہور ہائی کورٹ کی عمارت کے سامنے دیکھنے میں آیا تھا۔ مجھے وکلاءکی سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ مگر گزشتہ کچھ عرصہ سے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے چند عناصر نوجون وکلا ءکو اپنے مقاصد کے لیئے کامیابی سے استعمال کر رہے ہیں اور عوام الناس میں قانون کے رکھوالوں کا یہ رویہ ہدف تنقید بنتا جا رہا ہے۔عوام اور میڈیا اس رویے کو وکلاءگردی جیسے الفاظ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ حکومت وقت تماشائی بنی ہوئی ہے۔ آج کے اس ہنگامے پر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ کے ریمارکس انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہیں اور وزارت قانون جیسا قلمدان رکھنے والے شخص سے ان کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ جن میں انہوں نے ایک بار پھر مقتدر ادروں پر ہی طنز کے تیربرسائے ہیں۔ اگر حکومتی زعماءہی اس قسم کی ہنگامہ آرائی کی حوصلہ افزائی کریں گے اور جلتی پر تیل ڈالیں گے تو پھراس کی اصلاح کے لیئے کون کردار ادا کرے گا؟ وکلاءکے مسائل گمھبیر ضرور ہیں مگر ناقابل حل ہرگز نہیں ہیں۔ وکلاءکو بھی دیانتداری سے یہ ماننا پڑے گا کہ ان مسائل کی پیداوار میں وکلاءرہنماﺅں کا اپنا کردا ر بھی زیر بحث آتا ہے۔گورنر پنجاب رفیق رجوانہ سےاس معاملے میں فوری مداخلت کریں اور اس کے حل کی کوئی سبیل نکالیں ۔ملتان بھی ان کا ہے اورملتان کے وکلاءبھی ان کا احترام کرتے ہیں۔