گزشتہ ماہ کی بات ہے کہ مظفرگڑھ میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی آمد پر مسلم لیگ ن نے ایک بڑے جلسۂ عام کا اہتمام کیا۔ مسلم لیگ ن نے مقامی انتظامیہ کے تعاون سے گیٹ توڑ رش کا انتظام کر لیا۔ مقامی مسلم لیگی قیادت اور اراکینِ اسمبلی کا جوش و خروش دیدنی تھا کہ سٹیج سیکرٹری نے سینئر سیاست دان اور رکن قومی اسمبلی ملک سلطان محمود ہنجرا کو خطاب کی دعوت دی۔ ملک سلطان محمود ہنجرا تقریر کے لیے آئے تو مظفرگڑھ سے ڈیرہ غازی خان تک عوام یہ اُمید کر رہے تھے کہ ہنجرا صاحب ان کے دیرینہ مسائل کا تذکرہ کریں گے اور جیسے ہی ملک سلطان محمود ہنجرا مائیک کے سامنے آئے انہوں نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میاں صاحب ہمارے علاقے کے تمام مسائل حل ہو چکے ہیں (یہ سن کر مجبور و محکوم عوام اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے ایک دم خاموشی اختیار کر لی) اب ملک صاحب کا تاریخی خطاب شروع ہو چکا تھا اور وہ کہہ رہے تھے میاں صاحب مَیں آپ کو مسلم لیگ ن کا صدر دیکھنا چاہتا ہوں۔ یہ کہتے ہی انہوں نے عوام سے مطالبہ کیا وہ اپنے ہاتھ فضا میں بلند کریں تاکہ آپ کو یہ معلوم ہو سکے کہ جلسہ میں موجود عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ آپ کو مسلم لیگ ن کا صدر بنایا جائے۔ مختصر یہ کہ ملک سلطان محمود ہنجرا صرف یہی مطالبہ کر کے واپس وزیرِ اعلیٰ کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ ان کے بعد باسط سلطان بخاری تقریر کے لیے آئے ایک دو مطالبے کیے اور پھر وزیرِ اعلیٰ نے اپنی تقریر میں ملک سلطان محمود ہنجرا کی تقریر کا کوئی ذکر نہ کیا۔ چند مطالبات کی منظوری دی اور ’’کامیاب جلسہ‘‘ کے بعد لاہور چلے گئے۔
اس جلسہ کے بعد نواز شریف کے لیے مسلم لیگ ن نے ایک بل کی منظوری دی اور نواز شریف نااہلی کے باوجود صدر مسلم لیگ ن منتخب ہو گئے۔ اس بل کی منظوری پر اپوزیشن نے خوب شور مچایا لیکن بہت سے لوگوں کے گھروں میں نواز شریف کے دوبارہ صدر بننے سے صفِ ماتم بچھ گئی۔ نواز شریف اور ان کے بچے عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔ اس تنزلی کے باوجود مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنماؤں کی گردن میں سریا دیکھیں۔ 19 اکتوبر کو گورنر سندھ محمد زبیر جب مریم نواز سے ملنے کے لیے اسلام آباد میں میاں منیر کے گھر پہنچے تو ان کے لیے آہنی گیٹ تک نہ کھولا گیا۔ یہی رویہ مسلم لیگی اراکینِ اسمبلی اور کارکنوں میں بددلی کا سبب بن رہا ہے۔ بعد میں جب مریم نواز کو علم ہوا کہ ان سے ملاقات کے لیے گورنر سندھ کے لیے گیٹ نہیں کھولا گیا تو انہوں نے فون کر کے واپس طلب کر لیا۔
ابھی سوشل میڈیا اور ٹی وی پر گورنر سندھ کی عزت افزائی کا معاملہ چل ہی رہا تھا کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے ہنگامی پریس کانفرنس میں وہی مطالبہ کر دیا جو مظفر گڑھ کے جلسۂ عام میں رکن قومی اسمبلی ملک سلطان محمود ہنجرا نے کیا تھا۔ وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ نے اور بھی گرما گرم باتیں کیں لیکن فی الحال ہمارا موضوعِ سخن مسلم لیگ ن کا اندرونی انتشار ہے جو آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس انتشار کا کس کو فائدہ ہو گا یہ تو بعد میں علم ہو گا فی الحال ہم جنوبی پنجاب کے عوام کے نمائندوں کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں کہ ان نمائندوں کے ہاں وفاداری کی بجائے بے وفائی کا جذبہ زیادہ پایا جاتا ہے۔ ان نمائندوں کی بدولت جنرل ضیاء نے اپنے اقتدار کو طول دیا۔ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد بھی ایسے لوٹوں کی وجہ سے آئی۔ پرویز مشرف نے ن لیگ اور پی پی کے ٹکڑے کیے تو مشرف نے اس طرح کے تمام ٹکڑے جمع کیے تو ق لیگ بن گئی۔ اب ن لیگ ایک مرتبہ پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے جا رہی ہے۔ اس کے لیے ن لیگ کو گھر سے ہی کافی رسپانس مل رہا ہے۔ اس رسپانس میں جنوبی پنجاب کے اراکین اسمبلی لوٹے بننے کے لیے تیار ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اس کام کے لیے وفاقی وزراء و پارلیمانی سیکرٹری سرگرم ہو چکے ہیں جلد صورتِ حال نئی کہانیوں کے ساتھ آپ کے سامنے ہو گی۔
اب یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آخر کو جنوبی پنجاب کے سیاست دان کو اپنی وفاداری تبدیل کیوں کرتے ہیں؟ قریشی ہوں یا گیلانی، لغاری، مزاری، گردیزی، دستے، ڈاہے، ہراج، عباسی، بخاری، نون، کانجو، ترین اور کتنے خاندانوں کے ناموں کی اسم شماری کی جائے۔ خاکسار 1985ء سے جنوبی پنجاب کے سیاست دانوں کی بے وفائیوں کی پریس کانفرنسیں اور بیانات پڑھ رہا ہے۔ ان سیاست دانوں کے ہاں اصول، قانون، وفاداری جیسے خوبصورت لفظوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ ایک خوبصورت شعر ایسے سیاست دانوں کے نام:
محبت عام سا اِک واقعہ تھا
ہمارے ساتھ پیش آنے سے پہلے
جنوبی پنجاب کے سیاست دانوں کی لغت میں محبت، وفا اور ایثار نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے جب بھی ملک میں کوئی طالع آزما حکومت بنانا چاہتا ہے تو گنتی جنوبی پنجاب سے ہی پوری ہو جاتی ہے جبکہ اَپر پنجاب والے اس گنتی کی وجہ سے کلیدی عہدوں پر براجمان ہو جاتے ہیں اور جنوبی پنجاب کے سیاستدان تو وفاداریاں تبدیل کرنے کی ہواؤں کا انتظار کیے بغیر جمعہ جنج نال کی مثال بن جاتے ہیں۔
اِک ذرا انتظار کیجئے گا اور دیکھیں جب وفاداری کے بازار سجیں گے تو جنوبی پنجاب کے سیاستدان بے مول بِکنے کو تیار ہوں گے نہ کوئی قیمت نہ کوئی شرط ’’آپ حکم کریں سر‘‘ کی صدائیں ہر طرف سے آئیں گی اور پھر معلوم ہو گا کہ دیکھتے ہی دیکھتے احمد فراز کے اس کلام کی تصویر بن جائیں گے:
تمام صوفی و سالک سبھی شیوخ و امام
اُمیدِ لطف پہ ایوانِ کجکلاہ میں ہیں
معززینِ عدالت حلف اُٹھانے کو
مثالِ سائلِ مبرم نِشستہ راہ میں ہیں
مستقبل کی سیاسی تصویر کچھ بھی ہو لیکن افسوس اس بات کا ہے لوٹا ازم جنوبی پنجاب کی پہچان بن چکا ہے اور میاں صاحبان کے گھر میں جو اختلافات چل رہے ہیں اس کی صف بندی میں جنوبی پنجاب کے سیاست دانوں کا کردار افسوسناک ہے۔ آنے والے دنوں کیا ہوگا؟ نوشتۂ دیوار پر جو کچھ لکھا ہوا ہے اسے سب پڑھ رہے ہیں۔ لیکن مجھے افسوس ہے اور ہمیشہ رہے گا کہ بے وفائی کا آغاز جنوبی پنجاب سے کیوں ہوا؟ اور جہاں تک ن لیگ سے کسی اور جماعت میں جانے کا سوال ہے کہ کون کون اُس قافلے میں سوار ہو گا؟ تو میرا جواب یہ ہے کہ اب اکثریت سیاست دانوں کی اپنا راستہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اب ایک گرین سگنل کا انتظار ہے۔ ابھی ہمارے سیاست دان ییلو لائٹ پر کھڑے ہیں کہ اشارہ ملے اور ہجومِ بے اقتدار کا حصہ بنے۔
فیس بک کمینٹ