امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن سعودی عرب، قطر اور افغانستان سے ہوتے ہوئے اسلام آباد آئے، مختصر قیام فرمایا، شب باشی مناسب نہیں سمجھی، نئی دہلی چلے گئے۔ یاس یگانہ چنگیزی کہتے تھے، چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا…. امریکی ترجیحات تو پڑاؤ کے ٹھکانوں سے معلوم کی جاتی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ امریکی مہمانوں کا اسلام آباد میں سرد استقبال کیا گیا۔ یہ سفارت کاری کی زبان ہے۔ امریکی سفیر نے 1955ء کی بنڈونگ کانفرنس میں چو این لائی کا مصافحے کے لیے بڑھا ہوا ہاتھ تھامنے سے انکار کر دیا تھا۔ 1972 میں صدر نکسن پیکنگ آئے تو چین نے شرط رکھی کہ ائیر پورٹ پر صدر نکسن مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھانے میں پہل کریں گے۔ یہ مصافحہ بیسویں صدی کی تاریخ کا سنگ میل ثابت ہوا۔ آج امریکہ اور چین میں تجارت کا حجم پانچ سو ارب ڈالر بڑھ چکا ہے۔ ہم بھی سارک کانفرنس کھٹمنڈو میں بھارت کے وز یر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے مصافحہ کرنے کے لیے چل کر گئے تھے، حسن والوں کی شان ہے…. کبھی سارک کانفرنس کے موقع پر اسلام آباد کی سڑک سے ہٹائے جانے والا پوسٹر بے نظیر بھٹو شہید کے گلے میں سیکیورٹی رسک بنا کر لٹکا دیا گیا تھا۔ کبھی اعلان لاہور نواز شریف کا جرم ٹھہرا۔ ایک مصافحہ پلٹن گراؤ نڈ ڈھاکا میں کیا تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر یہ منظر دکھانا قیامت ہو گیا تھا۔ طاقت کے کھیل میں تشریفات کی نزاکتیں کبھی مقامی آبادی کے لیے وقتی ہیجان کا سامان ہوتی ہیں اور کہیں ان اشاروں کی مدد سے قوموں کا وقار مرتسم کیا جاتا ہے۔ صدر ایوب خان امریکی صدر جانسن کے گال تھپتھپایا کرتے تھے۔ بل کلنٹن نے پرویز مشرف سے مصافحے کی تصویر کھینچنے سے منع کر دیا تھا۔ محترم رضا ربانی تو بادشاہ آدمی ہیں۔ ان کے رہنما آصف علی زرداری انہیں آزاد دانشور قرار دیتے ہیں، خوشا دانش کی آزادی! رضا ربانی کہتے ہیں کہ بگرام ائیرپورٹ پر امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے وائسرائے کا سا لہجہ اختیار کیا جو ناقابل قبول ہے۔ اہل دانش کو احتجاج کے رخت و ساز پہ نظر رکھنی چاہئیے۔ یہ ویتنام جنگ کے دن نہیں جب ہر گرم خون جوان کراچی کی سڑکوں پر جھنڈا اٹھائے رواں ہو جاتا تھا۔ بگرام کا فوجی اڈہ افغانستان میں واقع ہے جہاں کی پینتالیس فیصد زمین پر طالبان کا قبضہ ہے اور طالبان سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں۔
پاکستان کی قیادت نے امریکی وفد سے مذاکرات میں جو کہا سنا، اس کی تفصیل دستیاب نہیں۔ کوئی اعلامیہ جاری نہیں ہوا، صحافیوں سے بات چیت نہیں کی گئی۔ ابتدائی کلمات کا تبادلہ صحافیوں نے ملاحظہ کیا۔ نیوکلئیر طاقت پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا۔ پاکستانی رہنماؤ ں نے دہشت گردی کے خلاف اپنی کامیابیوں کا ذکر کیا۔ بعد کا بحث مباحثہ صیغہ راز میں ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف ایک روز بعد کچھ کھلے ہیں۔ فرمایا کہ ہمیں ناخوشگوار نتائج سے کیا خوف، ہم تو امریکہ دوستی بھگت رہے ہیں۔ لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری، ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں…. خواجہ آصف نے اس دوستی کا تناظر نظر انداز کر دیا۔ 1979 کے موسم سرما میں پاکستان اور امریکہ نے افغانستان پر سوویت قبضے کے خلاف مہم مرتب کی تو ہم جنرل ضیا الحق مرحوم کے زیر نگیں تھے۔ اس دوستی کی قیمت ہم نے گیارہ سالہ آمریت کی صورت میں ادا کی۔ ہم سے کسی نے پوچھا نہیں اور ہمیں اختلاف کی اجازت نہیں تھی۔ افغان مہم جوئی کے مضمرات کی نشاندہی کرنے والے جیلوں میں پڑے تھے۔ اصحاب تقوی ہمیں قندھار اور ہرات کی خوشخبری دیتے تھے۔ بدخشاں کے لعل گنواتے تھے۔ سمرقند اور بخارا کا راستہ سجھاتے تھے۔ ہمارے معاشرے میں رواداری اور برداشت کی ثقافت تب برباد ہو گئی تھی جب ہم نے افغان حکمت عملی میں خلیج کے دور پار حلیف تلاش کیے اور اپنی زمین پر موجود مسلکی تنوع کو طاق نسیاں پہ رکھ دیا۔ فرقہ پرست تنظیموں کو تھپکی دی۔ آدھے ملک کو نو گو ایریا بنا دیا۔ منشیات کی تجارت سے چشم پوشی کی۔ اس دوران ہمارا ریاستی موقف اہل پاکستان کے جمہوری اور معاشی مفاد سے متصادم تھا۔ ہم عالمی بساط پر بڑے کھلاڑیوں کے مقامی مختار کار تھے۔ 1980ء کے عشرے کی پالیسی پر بات کی جائے تو صحافت کے گنجفے اسے تبریٰ گردانتے ہیں۔ فروری 1988ء میں منتخب وزیر اعظم نے جنیوا سمجھوتے پر رضامندی کا عندیہ دیا تو اسے سندھڑی بھیج دیا۔ سوویت یونین کے وزیر خارجہ شیورنااڈزے نے تب خبردار کیا تھا کہ پاکستان کو افغانستان کی دلدل سے نکلنے کا یہ سنہری موقع ضائع نہیں کرنا چاہئیے۔ ہمارے عزائم مگر کچھ اور تھے۔ ہمیں کابل کی مسجد میں دوگانہ نفل کا شوق تھا۔ امریکہ نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا۔ ہلیری کلنٹن بھی یہ غلطی مانتی ہیں۔ ہمیں بھی ماننا چاہئیے کہ ہم نے 1988ء میں پاکستان کے عوام کو کوتاہ نظری کی صلیب پر لٹکا دیا۔ ہم نے اقتدار اور اختیار کا داخلی نمونہ قائم رکھنے کے لیے ان عناصر کی سرپرستی کی جنہوں نے ہماری قومی ساکھ برباد کر دی۔ جنہوں نے کبھی ڈیورنڈ لائن کو مان کے نہیں دیا۔ 1989ء سے 1999ء تک قوم کی قسمت کا کون سا فیصلہ تھا جو جمہوری رہنماؤ ں کے اختیار میں تھا۔ گراں نہ گزرے تو خواجہ آصف یاد کریں کہ 1997ء میں افغانستان پر طالبان حکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ کس نے کیا تھا۔ ہم امریکہ سے دوستی نہیں، اپنے غلط فیصلے بھگت رہے ہیں۔ ہم نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو داخلی سیاسی کشمکش کا اسیر بنا رکھا ہے۔ اس کوتاہی میں ہماری سیاسی قوتیں، آئینی ادارے، ریاستی شعبے اور تمدنی قوتیں برابر کی ذمہ دار ہیں۔
کیا ستمبر 2001 میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ پاکستان کے عوام سے پوچھ کر کیا گیا؟ آمر ہم پہ مسلط ہوتا ہے، آمر کی تائید کی جاتی ہے اور ہمیں آمریت کی وکالت کا بارگراں سونپ دیا جاتا ہے۔ وقفے وقفے سے آواز آتی ہے۔ ماضی میں کچھ کوتاہیاں ہوئی ہیں، اب سب ٹھیک ہو چکا ہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ ماضی میں ہونے والی کوتاہیوں کی نشاندہی شرح صدر سے کر لی گئی ہے؟ اور اب جو ٹھیک ہو رہا ہے، کیا اس کی تصدیق کے شفاف ذرائع دستیاب ہیں؟ سیاسی قیادت تو کراچی سے خیبر تک عدالت کچہری میں رسوائیاں اٹھا رہی ہے۔ اہل صحافت کا طائفہ منظور شدہ نصابی مجیرے بجا رہا ہے۔ ازراہ کرم غور کیجیے کہ نواز شریف نے وزات عظمی کے لیے نااہل قرار دئیے جانے کے بعد گھمبیر اندیشوں کا اظہار کیا تھا۔ ان خطرات کی نشاندہی چوہدری نثار بھی کر چکے ہیں۔ افسوس ہے کہ بنیادی اہمیت کے ان معاملات پر آصف علی زرداری اور عمران خان کی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ خارجہ محاذ پر پاکستان کی طاقت داخلی سیاسی استحکام سے بندھی ہے۔ ملک کے اندر بے یقینی کی فضا ہو۔ سیاسی قوتوں میں گہری خلیج ہو۔ اداروں میں اعتماد کا بحران ہو۔ غنیم گھات میں بیٹھا ہو اور ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ انصاف کے ایوانوں میں آج کی محضر پر کس کس کا نام درج ہے؟ مارچ میں ایوان بالا کے انتخابات منعقد ہوں گے یا نہیں؟ اگلے برس ہم وفاق اور صوبوں میں نئی حکومت منتخب کریں گے یا عالم بالا سے اترنے والے احکامات کی تشریح کے لیے مناسب تراکیب تراش رہے ہوں گے؟ حتمی تجزئیے میں امریکہ کا وزیر خارجہ پاکستان کے منتخب وزیر اعظم سے کم تر درجے کا منصب ہے۔ بیس کروڑ ستر لاکھ باصلاحیت اور بنیادی طور پہ دیانت دار لوگوں کے لیے کوئی وائسرائے جیسا لہجہ اپنائے، اس کی ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ ہمارے دالان میں افراتفری کا سماں ہے۔ ہمارے دستور کے نجوم درہم برہم ہیں۔ ہم ایک دوسرے کی بات پر توجہ دینے کی بجائے دھکم پیل میں الجھے ہیں۔ قوم کے احترام کا مطالبہ نہیں کیا جاتا، قوم کا احترام کمایا جاتا ہے۔
( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور )
فیس بک کمینٹ